انتخاب

773

صبیحہ اقبال
’’اب میں مزید صبر نہیں کرسکتی، مجھے جو مناسب لگا میں وہ فیصلہ کرلوں گی۔‘‘ حمیدہ بیگم نے بیٹے کی طرف دیکھ کر اپنا فیصلہ سنایا۔
’’اماں آپ پہلے بھی بہت سے خاندان جھانک چکی ہیں، آپ ہی کی نظر میں کوئی نہیں جچتا۔‘‘ شہریار نے ماں کو ٹوکا جو آج بھی ندا کے ساتھ جاکر ایک اور لڑکی دیکھ آئی تھیں۔ وہ ’ناں‘ کب کرتا تھا، وہ خود ہی مطمئن نہ ہوتیں اور دوسری جگہ چل دیتیں۔ جاہ و منصب کی کمی کو تو انہوں نے کبھی بہانہ نہ بنایا تھا اس لیے کہ وہ جاتی ہی وہاں تھیں جہاں انہیں یقین ہوتا کہ کوئی ماہ لقا خاندانی عظمت و رفعت کے ساتھ جہیز کے بڑے سے چبوترے پر بیٹھی ان کے بیٹے کا انتظار کررہی ہوگی اور اُس کے والدین اپنے بیٹے کے متعلق بیان کردہ قصیدے سن کر آنکھیں بند کرکے اپنی بیٹی ان کے حوالے کرنے پر تیار ہوجائیں گے۔
’’بہن میرا ایک ہی تو بیٹا ہے، پڑھا لکھا، گورنمنٹ سروس، اچھے عہدے پر فائز… میں تو اپنے دل کے پورے ارمان نکالوں گی اس کی شادی پر۔‘‘ حمیدہ بیگم تقریباً ہر جگہ ہی اپنے ارمانوں کی بات ضرور کرتیں۔
’’ارمانوں سے مراد؟‘‘ ’’بھئی خوب دھوم دھام سے منگنی کروں گی خاندان بھر کو بلاکر، تاکہ سب کو پتا چل جائے اور جو جو انتظار میں بیٹھے ہیں وہ کہیں اور راستہ دیکھیں کہ اب شہریار گیا ان کی پہنچ سے دور۔ اے نگوڑ ماریاں اپنی ذات پات دیکھتی نہیں اور اونچے اونچے خواب دیکھ لیتی ہیں‘‘۔ وہ ناک سکیڑتیں۔
’’آپ کے خاندان میں تو بچیاں ہوںگی؟‘‘
’’ہاں ہاں بھئی، خاندان میں بھی بہت سی لڑکیاں ہیں ایک سے ایک، لیکن میں اپنے خاندان کو بھی خوب جانتی ہوں، اس لیے بہو تو باہر سے لائوں گی۔‘‘
’’اوہو… اچھا اچھا…‘‘
’’بھئی نئے لوگوں سے رشتہ جوڑنا ہو تو باپ دادا بھی تو دیکھے جاتے ہیں۔‘‘
اور پھر سات پشت تک کی قبریں ادھیڑ دی جاتیں… ہر قبر سے کوئی نہ کوئی خرابی، بدنامی بول ہی پڑتی اور حمیدہ بیگم دوسری لڑکی دیکھنے کے لیے پھر کمر باندھ لیتیں، اور یوں پچھلے پانچ سات سال سے وہ خاصی مصروف رہی تھیں۔
…٭…
آج اللہ اللہ کرکے انہیں حمنہ پسند بھی آگئی تھی اور اس کے خاندان میں انہیں کوئی قابلِ گرفت عیب نظر نہیں آیا تھا… بس ذرا سیدھے سادے لوگ ہیں۔ تو میں بھی ٹیڑھے لوگ کب پسند کرتی ہوں…! انہوں نے خود ہی اپنے دل کو سمجھایا۔ لیکن بھلا ایسی بھی کیا سادگی کہ تین تین بیٹیاں بیاہ دیں اور ابھی تک منگنی کی رسمیں بھی نہ جانیں! اب کیا میں اپنے منہ سے بتائوں کہ منگنی کیسے ہوتی ہے؟ اچھا تو نہیں لگتا لیکن چلو مجھے خود ہی بتا دینا چاہیے کہ ہمارے ہاں منگنی کیسے ہوتی ہے۔
’’اے بہن! جب میں اپنی بہن، بھاوج، نندوں اور دیورانی کو لائوں گی ناں تو تمہیں صرف چائے اور اس کے ساتھ لوازمات کا خیال کرنا ہوگا۔ یاد رہے ہمارے ہاں ایسے میں لڑکے کی ماں خالی ہاتھ نہیں جاتی، اس کے ساتھ مٹھائی کے ٹوکرے جاتے ہیں جو منہ میٹھے کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ اب بہن جس کی جتنی چادر ہو، جتنا اس کا شوق ہو اسی حساب سے یہ ٹوکرے دیے جاتے ہیں‘‘۔ حمیدہ بیگم نے بڑے دھیمے دھیمے انداز میں مدعا بیان کردیا۔
’’پھر جب منگنی کے لیے آئوں گی تو میں دلہن کے لیے جوڑا اور انگوٹھی لائوں گی اور میرا کنبہ بھی ساتھ ہوگا جن کے لیے آپ کو کھانے کا انتظام کرنا ہوگا۔‘‘
’’اچھا‘‘۔ ثمینہ بیگم (حمنہ کی امی) کی آواز جیسے کسی کنویں سے آرہی تھی۔ ’’اندازاً آپ کے ساتھ منگنی کے لیے کتنے افراد آئیں گے؟‘‘ حمنہ کی امی نے احتیاطاً سوال کرلیا تھا۔
’’یہی کوئی دو سو کے قریب… بہن بڑا خاندان ہے، پھر جس کو نہ پوچھو وہی برا مانتا ہے۔‘‘ حمیدہ بیگم نے وضاحت کی۔
’’اور بھی کچھ ہو تو بتا دیں‘‘۔ ثمینہ بیگم بے دلی سے سوال کررہی تھیں۔
’’بہن ہمارے ہاں ہوتا تو بہت کچھ ہے لیکن بس تم سات سینی مٹھائی اور دولہا کے لیے اُس کے شوق کی کچھ چیزیں دے دینا۔ تم نے اپنی پچھلی تین بیٹیوں کی منگنی پر بھی تو کچھ کیا ہی ہوگا ناں… دیکھ لینا اس سے کم و بیش نہ ہو ورنہ تمہاری بیٹی کو بھی شکایت ہوگی۔‘‘ بڑے رسان سے کہا گیا۔
ثمینہ بیگم آنکھیں پھاڑے ان کی رسومات کی ٹوکری اپنے ذہن نشین کررہی تھیں۔
فریاد میری سن کے کہتے ہیں کئی لوگ
حالات کی دیوار گرا کیوں نہیں دیتے
’’ہاں بھئی منگنی کے لیے مارچ کی 22 رکھ لو کہ دوسرے دن چھٹی ہوگی، سب آرام کرسکیں گے۔‘‘
’’لیکن 22 مارچ کو تو میرے بھتیجے کی بارات ہے اور 23 کو ولیمہ ہے۔‘‘
’’آپ نے تو ہمیں بلایا ہی نہیں، ہمیں کیا پتا۔‘‘ حمیدہ بیگم تیوریاں چڑھا کر بولیں۔
’’ابھی کوئی ریلیشن شپ قائم نہیں ہوئی تھی اس لیے کوئی تذکرہ بھی نہیں آیا۔‘‘
’’لو جی سنو! تمہاری بیٹی کے لیے رشتہ دیا ہے اور ہماری کوئی رشتہ داری ہی قائم نہ ہوئی!‘‘ حمیدہ بیگم نے بہت برا منایا۔
’’ہمارے ہاں جب تک نکاح نہ ہوجائے یا کم از کم منگنی، اُس وقت تک اس طرح رشتے داری کا کوئی تصور نہیں ہے۔‘‘ ثمینہ بیگم نے بات واضح کی۔
لیکن حمیدہ بیگم کے تیور بتا رہے تھے کہ ان کے دل میں گرہ لگ چکی ہے اور وہ مزید کوئی بات کیے بنا اٹھ کر آگئیں۔ ثمینہ بیگم حیران پریشان بیٹھی کی بیٹھی رہ گئیں۔
…٭…
دوسرے ہی دن سے حمیدہ بیگم کی نگاہ پھر بہو کی تلاش میں بھٹکنے لگی۔ آج پھر وہ بیٹی ندا کو ساتھ لے کر گلشن اقبال کی طرف رواں دواں تھیں۔ حمیدہ بیگم کو رکشے کا کرایہ ادا کرتے ہوئے لمبے سفر کا احساس ہوا۔ ’’اے اللہ! کہاں چھپا ہوا ہے میرے شہریار کا جوڑ؟ کتنے ہزار ان رکشوں کے کرائے میں لگا چکی ہوں، بس اب میری محنت کو سکارت کر اے اللہ۔‘‘ انہوں نے پتا نہیں صدقِ دل سے دعا مانگی تھی یا نہیں لیکن ندا نے آمین تہِ دل سے کہا تھا کہ اب جب وہ بھائی کے لیے لڑکی دیکھنے کی بات کرکے گھر سے نکلنے کا کہتی تو دیورانی، جیٹھانی ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں پیغام دے کر مسکرا دیتیں، اور اب گھر میں دونوں بچوں کو چھوڑ کر آنا بھی خاصا دشوار ہوتا جارہا تھا۔ سب ہی خیال رکھنے سے کترانے لگے تھے۔ فائنل امتحان الگ سر پر کھڑے تھے۔
…٭…
الخیر ریزیڈنسی کے اس ڈرائنگ روم کی وسعت و ٹھنڈک نے انہیں مرعوب کردیا تھا۔ لوازمات سے پُر لائی جانے والی ٹرالی سے اٹھتی تازہ کیک کی خوشبو نے انہیں لانے والی ہستی کی طرف خاصا متوجہ کردیا تھا۔ ’’بیٹا یہ کیک تم نے خود بیک کیا ہے؟‘‘ حمیدہ بیگم کا انٹرویو لینے والا انداز شروع ہوچکا تھا۔
’’جی…‘‘ مختصر جواب تھا۔
پھر تعلیم، مشاغل، مہارتیں، ضرورتیں، نین نقش، خدوخال، عمر، چال ڈھال سب کچھ باریک چھلنی سے چھانا گیا تھا۔ اللہ کا شکر تھا کہ حمیدہ بیگم خوش اور مطمئن سی ہوکر اٹھی تھیں اور نئی دریافت ارسلہ کی طرف سے بھی اچھی امید تھی۔ لڑکی پسند آجانے کے بعد شہریار کا نقشہ ہی ایسا کھینچا گیا تھا کہ دنیا میں کوئی اس جیسا وجیہ، سمجھدار، ہوشیار، تابعدار، لائق فائق شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ دیکھ بھال اور چھان بین کے بعد شہریار کا رشتہ منظور کرلیا گیا۔ گو کہ کچھ باتیں حمیدہ بیگم کی عجیب بھی محسوس ہوئیں تو یہ کہہ کر دلاسا دیا گیا کہ بندہ بشر ہے، خامی تو ہوگی ناں۔ اور پھر رسومات کی وہی ایک نہ ختم ہونے والی کہانی شروع ہوگئی۔ اِدھر ارسلہ بھی تو تین بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی، ارمان تو اُدھر بھی مچل رہے تھے، سو اللہ اللہ کرکے منگنی بخیر و خوبی انجام پا گئی اور حمیدہ بیگم کی آٹھ سالہ محنت رنگ لائی، شہریار کی انگلی میں بھی سونے کی انگوٹھی جگمگائی۔ شادی کے لیے دو ماہ کا وقت لیا گیا۔ شہریار کو سر پر سہرا سجنے کا آسرا ہوچلا، اس کے دوست یار تو دو دو تین تین بچوں کے باپ تھے۔ دونوں طرف شادی کی تیاریاں زوروشور سے جاری تھیں۔ ایسے میں نیا چاند چڑھا اور نوچندی جمعرات بھی آگئی، لیکن حمیدہ بیگم کے ہاں ارسلہ کے گھر سے مٹھائی کا ٹوکرا نہ آیا تو انہوں نے بدشگونی کے خوف سے گھبرا کر فون اٹھا لیا۔ خیر خیریت، دعائیں، صدقے واری ہونے کے بعد وہ اپنے مطلب پر آگئیں ’’بہن آج نوچندی جمعرات گزر گئی لیکن تمہارے ہاں سے لڑکے کے لیے منہ میٹھے کی مٹھائی نہیں آئی، کیا تمہیں یاد نہیں رہا…؟ ویسے یہ بھولنے والی بات تو نہ تھی۔‘‘
’’بدشگونی… ہر نوچندی جمعرات کو مٹھائی کا ٹوکرا، یہ بالکل ہی نئی رسم ہے۔‘‘
’’آپ کے لیے نئی ہوگی، ہمارے ہاں تو پشتوں سے چلی آرہی ہے، اور ویسے بھی کون سا لمبا ٹائم ہے، دو ہی تو مہینے ہیں۔‘‘
’’اچھا، اور نکاح کے بعد کی رسومات بھی بتا دیں۔‘‘ ارسلہ کی امی خفگی سے بولیں۔
’’کچھ زیادہ نہیں، بس پہلا بچہ ہونے تک ہر نوچندی جمعرات کو سب گھر والوں کی دعوت۔ اور بہن یہاں ہے ہی کون! مختصر سا کنبہ ہے، یہی ملنے ملانے کا بہانہ ہوجاتا ہے۔‘‘
’’اچھا اب بچہ ہونے کے بعد کی رسمیں بھی بتادیں۔‘‘ وہ تو جیسے تپ ہی گئی تھیں۔
’’حمیدہ بیگم آپ نے بیٹی کو واقعی بوجھ بنا ڈالا۔‘‘ اور انہوں نے جملہ مکمل کرتے ہی فون بند کردیا۔ دل کی اتنی تمنا، انہیں جھرجھری آگئی۔ ناں بابا ناں۔ انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
ادھر حمیدہ بیگم نے بھی منگنی میں آیا سامان سمیٹا تو سینیاں، شہریار کا سوٹ کیس۔ ’’شہریار تم اپنی انگوٹھی اتار کر دیتے جائو۔‘‘
’’مگر کیوں اماں؟‘‘
’’ارے بھئی ہمارے ہاں تو یہ بڑی بدشگونی ہے کہ نوچندی جمعرات یونہی گزر جائے۔ آگے نہ جانے کیا رویہ ہو۔‘‘ وہ بڑبڑائیں۔ ’’میرے بیٹے کے لیے لڑکیاں بہت…‘‘ اور شہریار انگوٹھی ماں کے ہاتھ میں تھماکر مرے مرے قدموں سے باہر نکل گیا۔
’’یہ اماں کہیں ٹکتی کیوں نہیں، کب تک یونہی رسومات کے پیچھے بھاگتی رہیں گی؟ آخر کب تک…‘‘ بے شمار سوالات شہریار کے ذہن میں کلبلا رہے تھے، اور نہ جانے پھر کیا ہوا؟ شاید دل سے اٹھتے دھوئیں کی چادر نے سامنے سے آنے والے ٹرک کو دھندلا دیا تھا۔ جب ہوش آیا تو وہ ایک اسپتال کے بیڈ پر پٹیوں میں جکڑا پڑا تھا۔
تین دن سے ایک ہی نرس کے ہاتھوں بینڈج کراتے اور انجکشن لیتے کچھ تو کہا سنا جا سکتا تھا۔ ’’آپ کا نام؟‘‘ شہریار نے یونہی لاشعوری طور پر سوال کر ڈالا۔
’’مریم جوزف‘‘۔ پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب آیا۔ ’’آپ کرسچین ہیں ناں؟‘‘
’’جی‘‘… ’’نظریہ تثلیث کی قائل؟‘‘ وہ خاموش پڑا پڑا بور ہوچکا تھا لہٰذا سوال پہ سوال کررہا تھا۔ ’’نہیں میں نے تقابلِ ادیان کا مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ اللہ واحد ہے۔‘‘ بڑا مدلل جواب آیا۔
’’پھر تو آپ اسلام سے بہت قریب ہوئیں۔‘‘ شہریار کو اُس کی معصوم صورت بہت اچھی لگی۔
’’جی، جب سے قرآن پڑھا ہے اسلام بہت بھاتا ہے۔‘‘
’’تو مسلمان کیوں نہیں ہوجاتیں؟‘‘
’’کس کے سہارے پر؟‘‘ وہ دل کی بات کہہ گئی تھی شاید۔
’’سروس کیوں کرتی ہو؟‘‘
’’ضرورت کے تحت۔ بیمار ماں اور دو بہنوں کی کفالت میری ذمے داری ہے، باپ کے مرنے کے بعد ماں جی نے محنت مزدوری کرکے ہمیں پڑھایا، لکھایا، لیکن اب ماں خود بہت بیمار رہنے لگی ہیں تو میں نے اپنی تعلیم کو خیرباد کہہ کر دو جگہ جاب کرلی۔ بھئی پیٹ تو سب کے ساتھ لگا ہوا ہے ناں۔‘‘ شہریار اس کا آخری مریض تھا، لہٰذا وہ اس کے سوالوں کے نرمی کے ساتھ جواب دے گئی، ویسے بھی مریض کو مطمئن کرنا ان کی تربیت کا حصہ ہوتا ہے۔
’’دوسری سروس کہاں کرتی ہو؟‘‘
’’محلے کے کلینک میں۔‘‘ مریم نے مختصر سا جواب دے کر اچانک گھڑی پر نگاہ ڈالی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’سر میرا ٹائم ہوگیا ہے، آپ اپنا خیال رکھیے گا۔‘‘ یہ کہتی وہ باہر کی جانب چل دی۔ اور دس بارہ دن بعد جب وہ اسپتال سے صحت یاب ہوکر ڈسچارج ہوا تو مریم اور شہریار اچھے دوست بن چکے تھے۔
شہریار صحت مند ہوکر آج آفس جا چکا تھا اور اب حمیدہ بیگم کو نئی لڑکی دیکھنے جانا تھا۔ تب ہی شہریار مریم کے ساتھ گھر میں داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر جگنو سے چمک رہے تھے۔ حمیدہ بیگم ٹھٹک کر بیٹے کو دیکھنے لگیں۔
’’اماں! یہ آپ کی بہو ہے۔‘‘ شہریار نے بغیر کسی تمہید کے رشتے کا تعارف کرا دیا۔
’’یہ تُو نے کیا کردیا شہر یار…‘‘ وہ سینہ کوبی کے انداز میں اپنے آپ کو پیٹتی ہوئی وہیں بیٹھتی چلی گئیں۔ ’’تُو ایک عیسائی لڑکی کو میری بہو بنا کر لے آیا… تجھے اپنی ماں، بہن کے ارمانوں کا ذرا بھی خیال نہ آیا؟‘‘
’’اماں آپ نے نہ جانے کتنی لڑکیوںکے دلوں کو پارہ پارہ کیا لیکن آپ اپنی خودساختہ رسومات نہ چھوڑ سکیں، لیکن مریم اپنا دین چھوڑ چکی ہے… یہ مسلمان ہوچکی ہے۔‘‘ شہریار ماںکو آئینہ دکھاکر مریم کا ہاتھ تھامے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

حصہ