سید مہر الدین افضل
سورۃ الاعراف کے مضامین کا خلاصہ
از تفہیم القران
55 واں حصہ
( سورۃ الاعراف حاشیہ نمبر : 129 :138 :139 سورۃ الفرقان حاشیہ نمبر :41)
سورہ الاعراف آیت 175 تا 177 میں اِرشاد ہوا:۔ اور اَے محمدؐ، اِن کے سامنے اس شخص کا حال بیان کرو جس کو اللہ نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا مگر وہ ان کی پابندی سے نِکل بھاگا۔ آخر کار شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا۔ یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا۔ اگر ہم چاہتے اسے ان آیتوں کے ذریعے سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین کی طرف جھک کر رہ گیا۔۔۔ اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑارہا، لہٰذا اس کی حالت کُتّے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔۔۔ اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔ یہی مثال ہے اُن لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں۔۔۔ تم یہ حکایات اِن کو سناتے رہو، شاید کہ یہ کچھ غوروفکرکریں۔ بڑی ہی بُری مثال ہے ایسے لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھُٹلایا، اور وہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ہیں۔
(جس کو اَللہ نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا ) اِن الفاظ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ضرور کوئی متعین شخص ہوگا۔ جس کی طرف اشارہ فرما یا گیا ہے لیکن اللہ اور اس کے رسول کی یہ انتہائی اخلاقی بلندی ہے (اور یہی تعلیم ہمارے لیے ہے) کہ وہ جب کبھی کسی کی برائی کو مثال میں پیش کرتے ہیں، تو عام طور پر اُس میں اس شخص کے نام کی وضاحت نہیں کرتے، بلکہ اُس کی شخصیت پر پردہ ڈال کر صرف اس کی بُری مثال کا ذکر کردیتے ہیں، تا کہ اُس کی رسوائی کیے بغیر اصل مقصد حاصل ہو جائے۔ اِسی لیے نہ قرآن میں بتایا گیا ہے اور نہ کسی صحیح حدیث میں کہ وہ شخص جس کی مثال یہاں پیش کی گئی ہے، کون تھا؟ اب ہمیں اِس تحقیق اور جستجو میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ وہ شخص کون تھا؟ دورِ رسالت میں تھا یا گزشتہ اُمت کا کوئی فرد تھا۔ کیوں کہ اِس سے اِنسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کا کوئی تعلق نہیں، ایسا نہیں ہے کہ ہمیں اُس فرد کا نام نہ معلوم ہو تو ہدایت کا کوئی دروازہ بند ہو جائے گا اور ہدایت کے حصول میں کوئی کمی واقع ہو جائے گی، نہیں! اَصل بات جس پر توجہ دینی چاہیے وہ یہ ہے کہ وہ صفت کیا تھی جو اِس مِثال میں بیان کی گئی ہے؟ اور یہ جان لینا چاہیے کہ یہ مثال ہر دور میں، ہر اس شخص پر فٹ ہوتی ہے، جس میں یہ صفت پائی جاتی ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اِس صفت اور اس کی وجہ سے تعمیر ہونے والے سیرت و کردار میں پر غور کریں۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری توجہ اپنی ذات پر ہو اور ہم دیکھیں کہ یہ ہمارے اَندر کس حد تک ہے، نہیں ہے تو شُکر واجب ہے اور کسی بھی درجے میں ہے تو اسے ختم کرنے کی فکر فرض ہے۔ اِن آیات میں بڑا اہم مضمون اِرشاد ہوا ہے جسے ذرا تفصیل کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے۔
شیطان کا شکار:۔
وہ شخص جس کی مثال یہاں پیش کی گئی ہے، آیات الہٰی کا علم رکھتا تھا یعنی حقیقت سے واقف تھا۔ اِس علم کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ اُس رویے اور طرز عمل سے بچتا جس کو وہ غلط جانتا تھا اور اُس علم کے مطابق صحیح رویہ اور طرزِ عمل اختیار کرتا جو اُسے معلوم تھا۔ اِس علم کے مطابق عمل کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اُس کو اِنسانیت کے بلند مراتب پر ترقی عطا کرتا۔ لیکن وہ دُنیا کے فائدوں، اور لذتوں، اور آسائیشوں کی طرف جھک گیا!!! خواہشاتِ نفس کے تقاضوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے اُس نے اُن کے آگے ہتھیار ڈال دیے، اللہ سے قربت کی کی آرزو اور آخرت میں اَنبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کے ساتھ اٹھائے جانے کی تمنا اور اس آرزو اور تمنا کے حصول کے لیے دنیا کی حرص و طمع سے بالا تر ہونے کے بجائے۔ وہ اِس حرص و طمع سے ایسا مغلوب ہوا، کہ اپنے سب اُونچے اِرادوں، اور اَ پنی عقلی و اخلاقی ترقی کے سارے اِمکانات کو طلاق دے بیٹھا اور اُن تمام حدود کو توڑ کر نکل بھا گا، جن کی نگہداشت کا تقاضا خود اُس کا علم اس سے کر رہا تھا۔ پھر جب وہ صرف اَپنی اخلاقی کمزوری کی وجہ سے جانتے بوجھتے حق سے منہ موڑ کر بھاگا!!! تو شیطان جو قریب ہی اس کی تاک میں لگا ہوا تھا، اُس کے پیچھے لگ گیا اور مسلسل اُسے ایک پستی سے دوسری پستی کی طرف لے جاتا رہا۔ یہاں تک کہ ظالم نے اُسے اُن لوگوں کے زُمرے میں پہنچا کر ہی دم لیا جو اُس کے جال میں پھنس کر پوری طرح اپنی متاعِ عقل وہوش گم کر چکے ہیں۔
دُنیا کے کُتّے:۔
اللہ تعٰالیٰ اُس شخص کی حالت کو کُتّے سے تشبیہ دیتا ہے!!! جِس کی زبان ہر وقت لٹکی رہتی ہے اور اس سے رال ٹپکتی رہتی ہے جو ایک نہ بجھنے والی لالچ کی آگ اور کبھی دل نہ بھرنے والی نیت کا پتا دیتی ہے۔ یہ تشبیہ دینے کی وجہ وہی ہے جس طرح ہم اُردو زبان میں ایسے شخص کو جو دُنیا کی حرص میں اَندھا ہو رہا ہو، دُنیا کا کُتّا کہتے ہیں۔ کُتّے کی جِبلَت کیا ہے؟ لالچ، لالچ اور لالچ!!! چلتے پھرتے اس کی ناک زمین سونگھنے ہی میں لگی رہتی ہے کہ شاید کہیں سے کچھ کھانے کو مل جائے۔ اِسے پتھر مارو تب بھی یہ اُس کے پیچھے بھاگتا ہے کہ شاید یہ چیز جو پھینکی گئی ہے کوئی ہڈی یا روٹی کا کوئی ٹکڑا ہو۔ یہ پیٹ کا غُلام ایک مرتبہ تو لپک کر اُس کو بھی دانتوں سے پکڑہی لیتا ہے۔ اِس سے نظر پھیر لیجیے تب بھی وہ لالچ کا مارا توقعات کی ایک دُنیا دل میں لیے، زبان لٹکائے، ہانپتا کانپتا کھڑا ہی رہے گا شاید ڈانٹ ڈپٹ کے بعد دربار سے کچھ عطا ہو ہی جائے۔ ساری دُنیا کو وہ بس پیٹ ہی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ کہیں کوئی بڑی سی لاش پڑی ہو، جو کئی کتوں کے کھانے کو کافی ہو، تو ایک کُتّا اُس میں سے صرف اپنا حصہ لینے پر بس نہیں کرے گا، بلکہ اُسے صرف اپنے ہی لیے مخصوص رکھنا چاہے گا اور کسی دوسرے کُتّے کو اُس کے پاس بھی نہ آنے دے گا۔ پیٹ کی بھوک کے بعد اگر کوئی چیز اس پر غالب ہے تو وہ جنسی بھوک ہے۔ اَپنے سارے جِسم میں صرف ایک شرمگاہ ہی وہ چیز ہے جس سے وہ دل چسپی رکھتا ہے اَور اُسی کو سونگھنے اورچاٹنے میں مشغول رہتا ہے۔ پس تشبیہ کا مدعا یہ ہے کہ دُنیا پر ست آدمی جب علِم اور اِیمان کی رسّی تُڑا کر بھاگتا ہے اور نفس کی اَندھی خواہشات کے ہاتھ میں اپنی باگیں دے دیتا ہے تو پھر کُتّے کی حالت کو پہنچے بغیر نہیں رہتا، ان کے لیے اِن کا پورا وجود بس پیٹ اور شرمگاہ ہوتا ہے۔ اَب ذرا اس امت اور گروہ کی حالت پر بھی غور کر لیجیے جسے اللہ نے کتابِ ہدایت دی اور اس نے اسے نظر انداز کر دیا۔ اور آخرت کا وہ منظر بھی جو سورۃ الفرقان میں دکھایا گیا ہے جہاں ارشاد ہوا :۔ اور رسُولؐ کہے گا کہ ’’اے میرے ربّ، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانۂ تضحیک بنا لیا تھا۔ (سورۃ الفرقان آیت 30) یعنی ان لوگوں نے قرآن کو قابل اِلتفات ہی نہ سمجھا، نہ اِسے قبول کیا اور نہ اس سے کوئی اثر لیا۔ بلکہ اِنہوں نے اِسے ہذیان اور بکواس سمجھا اور اسے اپنے ہذیان اور اپنی بکواس کا ہدف بنا لیا اور اس پر طرح طرح کی باتیں چھانٹتے رہے۔ اسی سورۃ الاعراف آیت نمبر 169 میں بنی اسرائیل کے لیے ارشاد ہوا:۔ ہم نے ان کو زمین میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے بہت سی قوموں میں تقسیم کر دیا۔ کچھ لوگ ان میں نیک تھے اور کچھ اس سے مختلف، اور ہم ان کو اچھے اور بُرے حالات سے آزمائش میں مبتلا کرتے رہے کہ شاید یہ پلٹ آئیں۔ پھر اگلی نسلوں کے بعد ایسے نا خلف لوگ ان کے جا نشین ہوئے جو کتاب الٰہی کے وارث ہو کر اسی دنیائے دَنی کے فائدے سمیٹتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ توقع ہے ہمیں معاف کر دیا جائے گا، اور اگر وہی متاعِ دنیا پھر سامنے آتی ہے تو پھر لپک کر اُسے لے لیتے ہیں۔‘‘ مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:۔ بد نصیب لوگ! اُس کتاب کے وارث ہوئے جو اُن کو دنیا کا امام بنانے والی تھی، مگر ان کی کم ظرفی اور پست خیالی نے اس نسخۂ کیمیا کو لے کر دنیا کی متاعِ حقیر کمانے سے زیادہ بلند کسی چیز کا حوصلہ نہ کیا اور بجائے اس کے کہ دنیا میں عدل وراستی کے علم بردار اور خیر و صلاح کے رہنما بنتے، محض دنیا کے کُتّے بن کر رہ گئے۔ (آیت 177 میں ارشاد ہوا:۔ بڑی ہی بُری مثال ہے ایسے لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھُٹلایا، اور وہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ہیں) اِن الفاظ میں چھپے ہوئے کرب کو وہ باپ ہی محسوس کر سکتا ہے جس نے بڑ ی محنتوں کی کمائی سے اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنایا تھا اور چاہا تھا اس کا بیٹا ملک سے باہر جا کر کمائے بھی اور اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرے۔ صحت سے متعلق انٹرنیشنل کا نفر نسوں میں اپنے ریسرچ پیپر پڑھے اور اگر ملک میں واپس آئے بھی تو شہرت، عزت، دولت اور نام کما کر آئے۔ لیکن وہ تو ڈاکٹر بننے کے بعد درویش بن گیا!!! گلی گلی گھوم کر لوگوں کا علاج کرتا ہے۔ کونسلنگ کرتا ہے اور انہیں اللہ سے جوڑتا ہے، کیا یہ کام وہ نام اور مقام بنانے کے بعد زیادہ اچھا نہ کر سکتا تھا؟ اسے نہ کپڑوں کا ہوش نہ سوسائٹی میں مقام کا خیال، کہیں سے کچھ پیسے مل جائیں تو بھی ٹھیک نہ ملیں تو اسے فکر ہی نہیں۔ بڑی زیادتی کر رہا ہے یہ اپنے ساتھ اور اپنے بچوں کے ساتھ۔ کوئی اسے سمجھاؤ۔
اللہ سُبٰحانہٗ و تعٰالٰی ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اَور اُس فہم کے مُطابق دین کے سارے تقاضے، اَور مُطالبے پُورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔