وسعت اللہ خان/مہمان کالم
عمران خان کی ٹیم نے سنہ 1992 میں کرکٹ کا ورلڈ کپ میں جیتا۔ 92 کا ہندسہ نو اور دو کا مرکب ہے۔ نو اور دو کو جمع کیا جائے تو 11 اور 11 کو دو سے ضرب دی جائے تو 22۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان 22 برس کی سیاسی جدوجہد کے بعد پاکستان کے 22 وزیرِ اعظم بن گئے۔
عمران خان نے 17 اگست کو نئی قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا یعنی ضیا الحق کی موت کے ٹھیک 30 برس پورے ہونے پر۔ عمران خان نے 18 اگست کو وزراتِ عظمی کا حلف اٹھایا یعنی جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کی سبکدوشی کے ٹھیک 10 برس پورے ہونے پر۔
اب بس ایک اور عدد پار ہو جائے تو بات بن جائے یعنی پانچ برس کی آئینی مدتِ عہدہ مکمل ہونے کا مرحلہ۔ 21 وزرائے اعظم تو یہ دورانیہ مکمل نہ کر پائے۔
ہمارے مشفق بزرگ شکیل عادل زادہ (سب رنگ ڈائجسٹ فیم) جب بھی کسی تقریبِ عقد میں شریک ہوتے ہیں تو نکاح کے بعد قاضی صاحب کی مناجات کے درمیان ایک دعا ضرور زیرِ لب مانگتے ہیں ’یا اللہ یہی شادی کامیاب کر دے‘۔
میری بھی عمران خان کے لیے دعا ہے کہ یا اللہ یہی وزیرِ اعظم پانچ برس کا دائرہ مکمل کر کے ایک اور تاریخ رقم کر دے۔
کل کا تو نہیں معلوم مگر آج ہر پیمانہ بظاہر عمران خان کے حق میں ہے۔ گذشتہ دور کی نسبت فوجی قیادت اور نوزائیدہ حکومت ایک پیج پر ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ اور نومولود حکومت کے مابین اختیاراتی حد بندی پر کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔
بظاہر چیلنج بڑے ہیں مگر کوئی چیلنج ایسا نہیں جو انہونا ہو۔ بھلا کون سی ایسی حکومت ہے جسے خزانہ بھرا ملا؟ کونسی ایسی حکومت ہے جسے افغانستان، بھارت اور امریکہ جہیز میں نہ ملے ہوں؟ کون سی ایسی حکومت ہے جسے امن و ا مان کا سنگین مسئلہ درپیش نہ رہا ہو؟ اور کون سی ایسی حکومت ہے جس کے کام عددی قوت آئی ہو۔
ظفر اللہ جمالی حکومت ایک یا دو ووٹوں پر ٹکی رہی جب تک ٹکنے دیا گیا۔ عمران خان کو تو چار ووٹوں کی اکثریت سے قائدِ ایوان چنا گیا ہے۔ ویسے بھی جہاں دو تہائی اکثریت بھی کسی حکومت کے کام نہ آ سکے وہاں یہ بحث ہی بے معنی ہے کہ کون سی حکومت کتنے ووٹوں پر کھڑی ہے اور کب تک کھڑی رہے گی؟
اچھی خبر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اس وقت فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔ لہذاٰ سینیٹ میں تحریکِ انصاف کی اکثریت نہ ہونے کے باوجود بھی قانون سازی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ البتہ حاسد بے پر کی اڑا رہے ہیں کہ اوپر اسٹیبلشمنٹ، نیچے نیب اور درمیان میں پیپلز پارٹی کا سندھ ہو تو پھر افہام و تفہیم کی بس کے ڈنڈے سے لٹکے رہنا ہی فراست ہے۔
رہی مسلم لیگ نون و متحدہ مجلسِ عمل پر مشتمل حزبِ اختلاف۔ اگر سابق اسمبلی کے تقابل میں دیکھا جائے تو حجم کے اعتبار سے یہ ہے تو بظاہر چھوٹا موٹا ہاتھی مگر اس وقت مہاوت کے قابو میں ہے۔
اس حزبِ اختلافی ہاتھی کی چال بتاتی ہے کہ گنے برابر سے ملتے رہیں تو یہ بچوں کو ریاستی چڑیا گھر کی سیر کراتا رہے گا، غصہ آیا بھی تو ایک دو چنگھاڑ سے زیادہ کا نہ ہو گا، بہت ہوا تو سونڈ میں پانی بھر کے سامنے والے پر زور کی پھوار مار دے گا یا کچھ دور اپنے ہی زور پر دوڑتا چلا جائے گا اور دیوار کے قریب پہنچ کر پھر سونڈ ہلانے لگے گا۔
مگر کیا عمران حکومت کو اپنے بنیادی انتخابی ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے فری ہینڈ ملے گا؟ جب تک ٹیکس اصلاحات یا بین الاقوامی قرض کے نتیجے میں حاصل ہونے والی آمدنی سے خزانے کی حالت کچھ عرصے کے لیے بہتر نہیں ہو جاتی تب تک یقیناً فری ہینڈ ملے گا۔
ویسے بھی لمڈوں کا کام ہے چولہا بنانا، چاول بھگونا، پیاز سرخ کرنا، کفگیر چلانا اور دیگ کو دم دینا۔ جب تقسیم کا مرحلہ آتا ہے تو تیار دیگ پر خاندان کا بزرگ از قسم خالو، پھوپھا یا ماموں ہی بیٹھتا ہے تاکہ کھانا کم نہ پڑ جائے۔ اس مرحلے پر فری ہینڈ نہیں تجربے کار ہاتھ ہی کام آتا ہے ورنہ بدتمیز چھوکروں پر بزرگوں کا ہاتھ چھٹتے دیر تھوڑی لگتی ہے۔