سیدہ عنبرین عالم
پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندوستان کا ذکر فرمایا اور ارشاد کیا ’’ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائے گا، حتیٰ کہ وہ ان کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے، اور اللہ ان کی مغفرت فرمائے گا، پھر جب وہ مسلمان لوٹ کر آئیں گے تو عیسیٰ ابنِ مریم کو شام میں پائیں گے۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ نے یہ سنا تو فرمایا ’’اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ دوں گا اور اس غزوے میں شرکت کروں گا، اللہ نے ہمیں فتح عطا کردی تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو ملک شام میں عیسیٰ ابن مریم کو پائے گا، پھر میں ان کو بتاؤں گا کہ میں آپؐ کا صحابی ہوں۔‘‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا اٹھے اور کہا ’’بہت مشکل۔۔۔ بہت مشکل۔‘‘
اس حدیث کو نعیم بن حماد نے اپنی کتاب ’’الفتن‘‘ میں روایت کیا ہے، اسحاق بن راہویہ نے بھی اس حدیث کو اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ’’بیت المقدس کا ایک بادشاہ ہندوستان کی جانب لشکر روانہ کرے گا، مجاہدین سرزمینِ ہند کو پامال کر ڈالیں گے اور خزانوں پر قبضہ کرلیں گے۔‘‘ یہ حدیث حضرت کعبؓ نے بھی روایت کی ہے۔
سنن نسائی حدیث 3177 میں فرمایا کہ ’’میری امت کے دو گروہ جہنم سے آزاد کردیے گئے، پہلا وہ جو غزوۂ ہند لڑے گا اور دوسرا وہ جو عیسیٰ ابن مریم کا ساتھ دے گا۔‘‘
ایک اور حدیث ہے کہ ’’خراسان سے ایک ایسا لشکر نکلے گا جس کے ساتھ کالے جھنڈے ہوں گے، کوئی طاقت ان کو روک نہیں سکے گی، اور یہ لشکر ہندوستان کو فتح کرلے گا، پھر ایلیاہ یعنی بیت المقدس میں جاکر رکے گا۔‘‘ یہ حدیث حضرت ثوبانؓ نے روایت کی۔
تین حدیثوں کا مفہوم درج ذیل ہے:
(1) ایک زمانہ آئے گا کہ عرب انتہائی غیر مستحکم ہوں گے تو اللہ ایک غیر عرب قوم کو اٹھائے گا جو ہتھیاروں اور لڑائی میں عربوں سے بہتر ہوگی اور ہندوستان پر قبضہ کرے گی۔
(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں ہند سے نہیں ہوں مگر ہند مجھ سے ہے۔‘‘
(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو لوگ آخری زمانے میں شام میں ہوں، انہیں چاہیے کہ زیر زمین گھر بنائیں۔‘‘ نعمت اللہ شاہ ولیؒ فرماتے ہیں: غزوہ ہند کے دوران دریائے اٹک 3 دفعہ خون سے لال ہوجائے گا، سرحد کے غازیوں سے زمین کانپے گی، دلّی اور کشمیر فتح ہوگا اور امام مہدی کا خیمہ غوطہ میں ہوگا، غزوہ ہند آخری فیصلہ کن معرکہ ہوگا۔
مولانا مودودیؒ نے فرمایا ’’پاکستان کو بالآخر ایسا صالح اور دانش مند فرماں روا ملے گا جو پاکستان کو غزوہ ہند کے قابل بنادے گا، مگر اس کی مخالفت سب سے زیادہ مولوی ہی کریں گے۔‘‘ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غزوہ ہند میں شریک ہونے والا ’’افضل الشہدا‘‘ ہوگا۔
درج بالا فرامین سے غزوۂ ہند کی نوعیت جاننے میں یقیناًمدد ملی ہوگی۔ سادہ الفاظ میں جو تعریف میں ’’غزوۂ ہند‘‘ کی بیان کرسکتی ہوں وہ یہ ہے:
’’غزوۂ ہند ایک ایسی جنگ ہے جس میں تمام ہندوستان کو مسلمان ازسرنو فتح کرلیں گے۔ یہ ایک مکمل فتح ہوگی، جس میں ہندوستان کے تمام سردار بیڑیوں میں جکڑے جائیں گے، غالب امکان یہ ہے کہ یہ جنگ حضرت مہدی کی سربراہی میں لڑی جائے گی اور بڑھتے بڑھتے بالآخر تمام دنیا پر حضرت مہدی اسلامی اقتدار قائم کردیں گے، جس کے بعد حضرت عیسیٰ ابن مریم کا نزول ہوگا، جو آخری جنگ Armegadon پر منتج ہوگا۔‘‘
ایک سوال جو غزوہ ہند کے بارے میں پوچھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ غزوہ اُس جنگ کو کہا جاتا ہے جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شریک ہوں، تو اب تو پیارے نبیؐ رحلت فرما چکے ہیں، تو اس جنگ کو غزوہ کیوں کہا گیا؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ موتہ میں شریک نہیں تھے، مگر پھر بھی اس کو غزوہ کہا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت مہدی چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اور امتی ہیں اور ان کا مقصد پیارے نبیؐ کی ہی رحمت اللعالمین کی صفت کو تمام عالم پر نافذ کرنا ہے، لہٰذا ان کی موجودگی کے سبب اس کو غزوہ قرار دیا گیا، اور تیسرا اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ اس غزوے کی تمام معلومات دیں اور عہد لیا کہ جو زندہ رہے وہ اس غزوے میں ضرور شریک ہو، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیعت نے ان کو اس غزوے کا سربراہ بنادیا اور یہ جنگ غزوہ قرار پائی۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خراسان ایک بہت وسیع علاقے کا نام تھا، اس میں ایران، افغانستان، پاکستان کی ملاکنڈ ایجنسی اور وسط ایشیائی ریاستیں شامل تھیں، جب میرے نبیؐ فرماتے ہیں کہ خراسان سے کالے جھنڈے اٹھیں گے اور غزوہ ہند جیتیں گے تو اس میں کثیرالملکی فوج کا مفہوم بھی ہوسکتا ہے، جیسا کہ ہم دوسری حدیث میں غیر عرب فوج کی فتح کی نوید سنتے ہیں۔ پاکستانی فوج بھی ایک غیر عرب فوج ہے، جس کے ہتھیار اور کارکردگی عربوں سے بہتر ہے، لہٰذا جس فوج کا ذکر ہے وہ پاکستانی فوج اور اس کے ایٹمی ہتھیار بھی ہوسکتے ہیں جو بھارت فتح کرے۔ جس وقت اسرائیل وجود میں آیا تو ڈیوڈ بن گوریان نے بیان دیا کہ ہمیں کسی عرب ملک سے کوئی خطرہ نہیں، ہمیں صرف پاکستان سے خطرہ ہے۔ حالانکہ پاکستان اُس وقت محض ایک سال پرانی نوزائیدہ مملکت تھی جو اپنا وجود بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی۔ کافروں کو اندازہ ہے کہ پاکستان خدا کے رازوں میں سے ایک راز ہے، مگر ہمیں پاکستان کی کوئی قدر نہیں ہے۔
ایک بات یہاں قابلِ غور ہے کہ پاکستان کبھی بھی ہندوستان کے خلاف کارروائی نہیں کرتا، ہندوستان ہی کبھی ہمارا پانی روکتا ہے، کبھی ہمارا مشرقی حصہ جدا کرتا ہے، کبھی بمباری کرتا ہے، کبھی دہشت گردی کرواتا ہے اور کبھی الزامات لگاتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال ہے کہ چونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا تو ہم بلاوجہ غزوہ ہند کا محاذ کھول کر مذہبی فریضہ نبھائیں گے، تو یہ خام خیالی ہے۔ آپ دیکھ لیجیے گا کہ فساد کا آغاز بھارت کی جانب سے ہی ہوگا، جو کہ بھارت کا ایک مستقل رویہ ہے، اور پاکستان کی دوستی کی ہر کوشش اور امن کی ہر آشا رائیگاں جائے گی۔
یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ کالے جھنڈے، پیلے جھنڈے، کالی ٹوپیاں، حضرت عیسیٰ ابن مریم کا حلیہ، حضرت مہدی کا حلیہ۔۔۔ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو احادیث کی روشنی میں کوئی بھی خود تیار کرکے کوئی بھی دعویٰ کرسکتا ہے۔ یہ سب میک اَپ سے بھی ہوسکتا ہے، ان چیزوں کو حتمی مان کر فیصلہ کرنا بے وقوفی ہے۔ ہمیں جو چیز اصل حضرت عیسیٰؑ اور اصل حضرت مہدیؑ کی پہچان کرائے گی، وہ ان کی تعلیمات، ان کا جذبہ اور ان کا ایمان ہوگا۔ یہ قیامت کا آخری دور ہے، اس وقت دھوکا کھانے والوں کے لیے یہ موقع نہیں ہے کہ تمہیں ہٹا کر اوروں کو لے آئیں گے، ہم نے اگر اپنی کسی غلطی سے اللہ کے پلان میں خلل ڈالا تو ہمارے لیے معافی نہیں ہے، اس لیے بڑے ہوش و حواس سے فیصلہ کیجیے۔ قرآن روز اپنی مادری زبان میں پڑھیے تاکہ آپ اس کتابِ الٰہی کی روشنی میں صحیح لوگوں کو پہچان سکیں۔
بعض لوگ محمد بن قاسم کے ہندوستان پر حملے کو غزوۂ ہند مانتے ہیں، لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ یوں تو محمود غزنوی نے بھی جب بھی ہندوستان پر حملہ کیا، ہمیشہ غزوۂ ہندکی ہی نیت باندھی، لیکن وہ سترہ حملے غزوہ ہند نہیں تھے۔ درحقیقت غزوہ ہند وہ ہوگا جس کے اختتام پر تمام ہندوستان پر مکمل قبضہ ہو، اور یہ غزوہ اتنا بڑھے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم بھی شام میں ظاہر ہوجائیں اور پھر مستقل فتوحات کا ایسا سلسلہ چل نکلے کہ تمام دنیا اسلام کے زیر تسلط آجائے۔
غزوہ ہند کے بارے میں جب ہم تمام تر تجزیوں کا معائنہ کرتے ہیں تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ ایسی منظم، کامیاب اور متحد جنگ کے لیے ایک متفق علیہ کمانڈر اور ایک مستحکم اقتصادی قوت بہت ضروری ہے، جب کہ جو صورتِ حال ہمیں نظر آرہی ہے، اُس میں مسلم ممالک کے حکمران کسی پالتو جانور کی طرح کافروں کے قدموں میں لوٹ رہے ہیں۔ نہ کوئی حمیت ہے، نہ غیرت، نہ سر اٹھانے کا حوصلہ، نہ مضبوط کمر۔ جب کہ ہمیں نظر آرہا ہے کہ آخری دور شروع ہوچکا ہے، پھر آخر کیسے کمانڈر آئے گا، کس طرح اتحاد ہوگا اور غزوۂ ہند کے وسائل کیسے فراہم ہوں گے، جب کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی اب تک نزول نہیں ہوا۔ شام کے حوالے سے تمام حدیثیں پوری ہوچکی ہیں، پھر آخر غزوۂ ہند کی فتوحات کیسے اور کب ہوں گی؟
آتی ہے میرِ عرب کو ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
جب میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں ہند سے نہیں ہوں، مگر ہند مجھ سے ہے، تو ان کا اشارہ پاکستان کی طرف ہوتا ہے۔ ظاہر ہے بھارت میں رہنے والے ہندوؤں کو تو وہ بیڑیوں میں قید کرنے کا حکم فرما رہے ہیں۔ بزرگ فرما رہے ہیں کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قائداعظم کے خواب میں بھیجا تھا اور انھوں نے قائداعظم کو حکم دیا تھا کہ لندن سے واپس ہندوستان جاؤ اور پاکستان بنانے کی کوشش کرو۔۔۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے روحانی واقعات ہیں جو پاکستان کو وجود میں لانے کا سبب بنے اور ابھی تک پاکستان کو قائم رکھے ہوئے ہیں جب کہ اہلِ پاکستان نے بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسی تائید ایزدی کو نظر میں رکھتے ہوئے امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک سپریم کمانڈر بھی پاکستان میں بھیجے گا جو تمام دنیا میں اسلام قائم کرے گا اور غزوۂ ہند کی فتوحات کو بھی اللہ کے حکم سے ممکن بنائے گا۔
سنن نسائی، صفحہ نمبر 438 حدیث نمبر 3175 میں غزوۂ ہند میں شہید ہونے والوں کو ’’افضل الشہدا‘‘ اور بچ جانے والوں کو جہنم کی آگ سے آزاد قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ حدیث اُس زمانے کی ہے جب غزوات جاری تھے، جھڑپیں بھی ہوتی رہتی تھیں، کثرت سے شہادتیں بھی سامنے کی بات تھیں، مگر میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان جلیل القدر صحابہؓ کو افضل الشہدا قرار نہیں دیتے، بلکہ فرماتے ہیں کہ قربِ قیامت کے دور میں ہونے والے غزوہ ہند میں جو لوگ شہید ہوں گے، وہ افضل الشہدا ہیں۔ صرف اسی بات سے آپ غزوۂ ہند کی اہمیت کا اندازہ کرلیں اور اس میں شریک ہونے والے مومنوں کے درجات کا اندازہ لگالیں۔ لہٰذا جس کی زندگی میں یہ غزوہ لڑا جائے اُسے اس میں ضرور شرکت کرنی چاہیے۔
علامہ طاہرالقادری اپنے ایک لیکچر میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول غزوہ ہند کے دوران ممکن نہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُس وقت ظاہر ہوں گے جب حضرت مہدی غزوہ ہند کی فتوحات مکمل کرکے شام کی طرف بڑھیں گے، اسرائیل کا خاتمہ کرنے کی تدبیریں کریں گے اور غوطہ میں اپنا خیمہ لگائیں گے، یہی وہ وقت ہے کہ حضرت عیسیٰ ظاہر ہوجائیں گے اور وہ یہودیوں کو شکست دینے میں حضرت مہدی کی مدد فرمائیں گے۔ یہودیوں کو صرف ایک خاص درخت کے پیچھے پناہ ملے گی جس کا ذکر حدیثوں میں ہے اور یہودیوں نے اس درخت کی بڑی تعداد میں کاشت ابھی سے شروع کر رکھی ہے۔
لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ غزوہ ہند ایک On going process ہے جو شاید پاک بھارت جنگ سے شروع ہو، اور اس جنگ میں افغانی، ایرانی اور وسط ایشیائی ریاستوں کے مومن بھی پاکستانیوں کے ساتھ شامل ہوں گے۔ پورے برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں کا مکمل غلبہ ہوجانے کے بعد یہ جنگ اپنا رخ موڑے گی اور عرب علاقوں میں چلی جائے گی، جہاں حضرت عیسیٰ ابن مریم کا نزول ہوگا اور دجال سے جنگیں شروع ہوں گی، ان فیصلہ کن جنگوں کو Armegadon کہا جاتا ہے۔
قارئین! جس قدر ریسرچ کرکے احادیث کی روشنی میں غزوۂ ہند کا تجزیہ پیش کیا جاسکتا تھا، وہ ہم نے کردیا۔ ہمارا پورا ایمان ہے کہ میرے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فرمان پورا ہوگا، تاہم اس بات کا ادراک بہت ضروری ہے کہ قیامت بے حد نزدیک ہے، یہودی اس لمحے کی مکمل تیاری میں ہیں۔ جہاں وہ اپنے دجال کے لیے راستہ صاف کررہے ہیں، انڈیا کو غزوۂ ہند کے لیے مستحکم کررہے ہیں، وہیں زور و شور سے گریٹر اسرائیل کا خواب بھی پورا کررہے ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ یہودی تو ہمارے نبیؐ کی تمام پیش گوئیوں کے مطابق حکمت عملی بنا رہے ہیں مگر ہم خود اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق کوئی منصوبہ بندی کررہے ہیں نہ کوئی قیادت ہمارے پاس ہے جو تمام امت کو ساتھ لے کر بصیرت افروز فیصلے کرے۔ ایسی صورت میں کم از کم ذاتی طور پر ہمیں اللہ کے احکامات کی پابندی کرنی چاہیے تاکہ غزوۂ ہند شروع ہونے پر ہم میں اتنی روحانی قوت ہو کہ غزوہ ہند کے مجاہدین میں شامل ہوسکیں۔
اللہ ہمیں حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رہبری عطا کرے اور افضل الشہدا میں سے کرے۔
پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندوستان کا ذکر فرمایا اور ارشاد کیا ’’ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائے گا، حتیٰ کہ وہ ان کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے، اور اللہ ان کی مغفرت فرمائے گا، پھر جب وہ مسلمان لوٹ کر آئیں گے تو عیسیٰ ابنِ مریم کو شام میں پائیں گے۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ نے یہ سنا تو فرمایا ’’اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ دوں گا اور اس غزوے میں شرکت کروں گا، اللہ نے ہمیں فتح عطا کردی تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو ملک شام میں عیسیٰ ابن مریم کو پائے گا، پھر میں ان کو بتاؤں گا کہ میں آپؐ کا صحابی ہوں۔‘‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا اٹھے اور کہا ’’بہت مشکل۔۔۔ بہت مشکل۔‘‘
اس حدیث کو نعیم بن حماد نے اپنی کتاب ’’الفتن‘‘ میں روایت کیا ہے، اسحاق بن راہویہ نے بھی اس حدیث کو اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ’’بیت المقدس کا ایک بادشاہ ہندوستان کی جانب لشکر روانہ کرے گا، مجاہدین سرزمینِ ہند کو پامال کر ڈالیں گے اور خزانوں پر قبضہ کرلیں گے۔‘‘ یہ حدیث حضرت کعبؓ نے بھی روایت کی ہے۔
سنن نسائی حدیث 3177 میں فرمایا کہ ’’میری امت کے دو گروہ جہنم سے آزاد کردیے گئے، پہلا وہ جو غزوۂ ہند لڑے گا اور دوسرا وہ جو عیسیٰ ابن مریم کا ساتھ دے گا۔‘‘
ایک اور حدیث ہے کہ ’’خراسان سے ایک ایسا لشکر نکلے گا جس کے ساتھ کالے جھنڈے ہوں گے، کوئی طاقت ان کو روک نہیں سکے گی، اور یہ لشکر ہندوستان کو فتح کرلے گا، پھر ایلیاہ یعنی بیت المقدس میں جاکر رکے گا۔‘‘ یہ حدیث حضرت ثوبانؓ نے روایت کی۔
تین حدیثوں کا مفہوم درج ذیل ہے:
(1) ایک زمانہ آئے گا کہ عرب انتہائی غیر مستحکم ہوں گے تو اللہ ایک غیر عرب قوم کو اٹھائے گا جو ہتھیاروں اور لڑائی میں عربوں سے بہتر ہوگی اور ہندوستان پر قبضہ کرے گی۔
(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں ہند سے نہیں ہوں مگر ہند مجھ سے ہے۔‘‘
(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو لوگ آخری زمانے میں شام میں ہوں، انہیں چاہیے کہ زیر زمین گھر بنائیں۔‘‘ نعمت اللہ شاہ ولیؒ فرماتے ہیں: غزوہ ہند کے دوران دریائے اٹک 3 دفعہ خون سے لال ہوجائے گا، سرحد کے غازیوں سے زمین کانپے گی، دلّی اور کشمیر فتح ہوگا اور امام مہدی کا خیمہ غوطہ میں ہوگا، غزوہ ہند آخری فیصلہ کن معرکہ ہوگا۔
مولانا مودودیؒ نے فرمایا ’’پاکستان کو بالآخر ایسا صالح اور دانش مند فرماں روا ملے گا جو پاکستان کو غزوہ ہند کے قابل بنادے گا، مگر اس کی مخالفت سب سے زیادہ مولوی ہی کریں گے۔‘‘ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غزوہ ہند میں شریک ہونے والا ’’افضل الشہدا‘‘ ہوگا۔
درج بالا فرامین سے غزوۂ ہند کی نوعیت جاننے میں یقیناًمدد ملی ہوگی۔ سادہ الفاظ میں جو تعریف میں ’’غزوۂ ہند‘‘ کی بیان کرسکتی ہوں وہ یہ ہے:
’’غزوۂ ہند ایک ایسی جنگ ہے جس میں تمام ہندوستان کو مسلمان ازسرنو فتح کرلیں گے۔ یہ ایک مکمل فتح ہوگی، جس میں ہندوستان کے تمام سردار بیڑیوں میں جکڑے جائیں گے، غالب امکان یہ ہے کہ یہ جنگ حضرت مہدی کی سربراہی میں لڑی جائے گی اور بڑھتے بڑھتے بالآخر تمام دنیا پر حضرت مہدی اسلامی اقتدار قائم کردیں گے، جس کے بعد حضرت عیسیٰ ابن مریم کا نزول ہوگا، جو آخری جنگ Armegadon پر منتج ہوگا۔‘‘
ایک سوال جو غزوہ ہند کے بارے میں پوچھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ غزوہ اُس جنگ کو کہا جاتا ہے جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شریک ہوں، تو اب تو پیارے نبیؐ رحلت فرما چکے ہیں، تو اس جنگ کو غزوہ کیوں کہا گیا؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ موتہ میں شریک نہیں تھے، مگر پھر بھی اس کو غزوہ کہا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت مہدی چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اور امتی ہیں اور ان کا مقصد پیارے نبیؐ کی ہی رحمت اللعالمین کی صفت کو تمام عالم پر نافذ کرنا ہے، لہٰذا ان کی موجودگی کے سبب اس کو غزوہ قرار دیا گیا، اور تیسرا اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ اس غزوے کی تمام معلومات دیں اور عہد لیا کہ جو زندہ رہے وہ اس غزوے میں ضرور شریک ہو، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیعت نے ان کو اس غزوے کا سربراہ بنادیا اور یہ جنگ غزوہ قرار پائی۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خراسان ایک بہت وسیع علاقے کا نام تھا، اس میں ایران، افغانستان، پاکستان کی ملاکنڈ ایجنسی اور وسط ایشیائی ریاستیں شامل تھیں، جب میرے نبیؐ فرماتے ہیں کہ خراسان سے کالے جھنڈے اٹھیں گے اور غزوہ ہند جیتیں گے تو اس میں کثیرالملکی فوج کا مفہوم بھی ہوسکتا ہے، جیسا کہ ہم دوسری حدیث میں غیر عرب فوج کی فتح کی نوید سنتے ہیں۔ پاکستانی فوج بھی ایک غیر عرب فوج ہے، جس کے ہتھیار اور کارکردگی عربوں سے بہتر ہے، لہٰذا جس فوج کا ذکر ہے وہ پاکستانی فوج اور اس کے ایٹمی ہتھیار بھی ہوسکتے ہیں جو بھارت فتح کرے۔ جس وقت اسرائیل وجود میں آیا تو ڈیوڈ بن گوریان نے بیان دیا کہ ہمیں کسی عرب ملک سے کوئی خطرہ نہیں، ہمیں صرف پاکستان سے خطرہ ہے۔ حالانکہ پاکستان اُس وقت محض ایک سال پرانی نوزائیدہ مملکت تھی جو اپنا وجود بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی۔ کافروں کو اندازہ ہے کہ پاکستان خدا کے رازوں میں سے ایک راز ہے، مگر ہمیں پاکستان کی کوئی قدر نہیں ہے۔
ایک بات یہاں قابلِ غور ہے کہ پاکستان کبھی بھی ہندوستان کے خلاف کارروائی نہیں کرتا، ہندوستان ہی کبھی ہمارا پانی روکتا ہے، کبھی ہمارا مشرقی حصہ جدا کرتا ہے، کبھی بمباری کرتا ہے، کبھی دہشت گردی کرواتا ہے اور کبھی الزامات لگاتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال ہے کہ چونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا تو ہم بلاوجہ غزوہ ہند کا محاذ کھول کر مذہبی فریضہ نبھائیں گے، تو یہ خام خیالی ہے۔ آپ دیکھ لیجیے گا کہ فساد کا آغاز بھارت کی جانب سے ہی ہوگا، جو کہ بھارت کا ایک مستقل رویہ ہے، اور پاکستان کی دوستی کی ہر کوشش اور امن کی ہر آشا رائیگاں جائے گی۔
یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ کالے جھنڈے، پیلے جھنڈے، کالی ٹوپیاں، حضرت عیسیٰ ابن مریم کا حلیہ، حضرت مہدی کا حلیہ۔۔۔ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو احادیث کی روشنی میں کوئی بھی خود تیار کرکے کوئی بھی دعویٰ کرسکتا ہے۔ یہ سب میک اَپ سے بھی ہوسکتا ہے، ان چیزوں کو حتمی مان کر فیصلہ کرنا بے وقوفی ہے۔ ہمیں جو چیز اصل حضرت عیسیٰؑ اور اصل حضرت مہدیؑ کی پہچان کرائے گی، وہ ان کی تعلیمات، ان کا جذبہ اور ان کا ایمان ہوگا۔ یہ قیامت کا آخری دور ہے، اس وقت دھوکا کھانے والوں کے لیے یہ موقع نہیں ہے کہ تمہیں ہٹا کر اوروں کو لے آئیں گے، ہم نے اگر اپنی کسی غلطی سے اللہ کے پلان میں خلل ڈالا تو ہمارے لیے معافی نہیں ہے، اس لیے بڑے ہوش و حواس سے فیصلہ کیجیے۔ قرآن روز اپنی مادری زبان میں پڑھیے تاکہ آپ اس کتابِ الٰہی کی روشنی میں صحیح لوگوں کو پہچان سکیں۔
بعض لوگ محمد بن قاسم کے ہندوستان پر حملے کو غزوۂ ہند مانتے ہیں، لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ یوں تو محمود غزنوی نے بھی جب بھی ہندوستان پر حملہ کیا، ہمیشہ غزوۂ ہندکی ہی نیت باندھی، لیکن وہ سترہ حملے غزوہ ہند نہیں تھے۔ درحقیقت غزوہ ہند وہ ہوگا جس کے اختتام پر تمام ہندوستان پر مکمل قبضہ ہو، اور یہ غزوہ اتنا بڑھے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم بھی شام میں ظاہر ہوجائیں اور پھر مستقل فتوحات کا ایسا سلسلہ چل نکلے کہ تمام دنیا اسلام کے زیر تسلط آجائے۔
غزوہ ہند کے بارے میں جب ہم تمام تر تجزیوں کا معائنہ کرتے ہیں تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ ایسی منظم، کامیاب اور متحد جنگ کے لیے ایک متفق علیہ کمانڈر اور ایک مستحکم اقتصادی قوت بہت ضروری ہے، جب کہ جو صورتِ حال ہمیں نظر آرہی ہے، اُس میں مسلم ممالک کے حکمران کسی پالتو جانور کی طرح کافروں کے قدموں میں لوٹ رہے ہیں۔ نہ کوئی حمیت ہے، نہ غیرت، نہ سر اٹھانے کا حوصلہ، نہ مضبوط کمر۔ جب کہ ہمیں نظر آرہا ہے کہ آخری دور شروع ہوچکا ہے، پھر آخر کیسے کمانڈر آئے گا، کس طرح اتحاد ہوگا اور غزوۂ ہند کے وسائل کیسے فراہم ہوں گے، جب کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی اب تک نزول نہیں ہوا۔ شام کے حوالے سے تمام حدیثیں پوری ہوچکی ہیں، پھر آخر غزوۂ ہند کی فتوحات کیسے اور کب ہوں گی؟
آتی ہے میرِ عرب کو ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
جب میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں ہند سے نہیں ہوں، مگر ہند مجھ سے ہے، تو ان کا اشارہ پاکستان کی طرف ہوتا ہے۔ ظاہر ہے بھارت میں رہنے والے ہندوؤں کو تو وہ بیڑیوں میں قید کرنے کا حکم فرما رہے ہیں۔ بزرگ فرما رہے ہیں کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قائداعظم کے خواب میں بھیجا تھا اور انھوں نے قائداعظم کو حکم دیا تھا کہ لندن سے واپس ہندوستان جاؤ اور پاکستان بنانے کی کوشش کرو۔۔۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے روحانی واقعات ہیں جو پاکستان کو وجود میں لانے کا سبب بنے اور ابھی تک پاکستان کو قائم رکھے ہوئے ہیں جب کہ اہلِ پاکستان نے بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسی تائید ایزدی کو نظر میں رکھتے ہوئے امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک سپریم کمانڈر بھی پاکستان میں بھیجے گا جو تمام دنیا میں اسلام قائم کرے گا اور غزوۂ ہند کی فتوحات کو بھی اللہ کے حکم سے ممکن بنائے گا۔
سنن نسائی، صفحہ نمبر 438 حدیث نمبر 3175 میں غزوۂ ہند میں شہید ہونے والوں کو ’’افضل الشہدا‘‘ اور بچ جانے والوں کو جہنم کی آگ سے آزاد قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ حدیث اُس زمانے کی ہے جب غزوات جاری تھے، جھڑپیں بھی ہوتی رہتی تھیں، کثرت سے شہادتیں بھی سامنے کی بات تھیں، مگر میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان جلیل القدر صحابہؓ کو افضل الشہدا قرار نہیں دیتے، بلکہ فرماتے ہیں کہ قربِ قیامت کے دور میں ہونے والے غزوہ ہند میں جو لوگ شہید ہوں گے، وہ افضل الشہدا ہیں۔ صرف اسی بات سے آپ غزوۂ ہند کی اہمیت کا اندازہ کرلیں اور اس میں شریک ہونے والے مومنوں کے درجات کا اندازہ لگالیں۔ لہٰذا جس کی زندگی میں یہ غزوہ لڑا جائے اُسے اس میں ضرور شرکت کرنی چاہیے۔
علامہ طاہرالقادری اپنے ایک لیکچر میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول غزوہ ہند کے دوران ممکن نہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُس وقت ظاہر ہوں گے جب حضرت مہدی غزوہ ہند کی فتوحات مکمل کرکے شام کی طرف بڑھیں گے، اسرائیل کا خاتمہ کرنے کی تدبیریں کریں گے اور غوطہ میں اپنا خیمہ لگائیں گے، یہی وہ وقت ہے کہ حضرت عیسیٰ ظاہر ہوجائیں گے اور وہ یہودیوں کو شکست دینے میں حضرت مہدی کی مدد فرمائیں گے۔ یہودیوں کو صرف ایک خاص درخت کے پیچھے پناہ ملے گی جس کا ذکر حدیثوں میں ہے اور یہودیوں نے اس درخت کی بڑی تعداد میں کاشت ابھی سے شروع کر رکھی ہے۔
لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ غزوہ ہند ایک On going process ہے جو شاید پاک بھارت جنگ سے شروع ہو، اور اس جنگ میں افغانی، ایرانی اور وسط ایشیائی ریاستوں کے مومن بھی پاکستانیوں کے ساتھ شامل ہوں گے۔ پورے برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں کا مکمل غلبہ ہوجانے کے بعد یہ جنگ اپنا رخ موڑے گی اور عرب علاقوں میں چلی جائے گی، جہاں حضرت عیسیٰ ابن مریم کا نزول ہوگا اور دجال سے جنگیں شروع ہوں گی، ان فیصلہ کن جنگوں کو Armegadon کہا جاتا ہے۔
قارئین! جس قدر ریسرچ کرکے احادیث کی روشنی میں غزوۂ ہند کا تجزیہ پیش کیا جاسکتا تھا، وہ ہم نے کردیا۔ ہمارا پورا ایمان ہے کہ میرے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فرمان پورا ہوگا، تاہم اس بات کا ادراک بہت ضروری ہے کہ قیامت بے حد نزدیک ہے، یہودی اس لمحے کی مکمل تیاری میں ہیں۔ جہاں وہ اپنے دجال کے لیے راستہ صاف کررہے ہیں، انڈیا کو غزوۂ ہند کے لیے مستحکم کررہے ہیں، وہیں زور و شور سے گریٹر اسرائیل کا خواب بھی پورا کررہے ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ یہودی تو ہمارے نبیؐ کی تمام پیش گوئیوں کے مطابق حکمت عملی بنا رہے ہیں مگر ہم خود اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق کوئی منصوبہ بندی کررہے ہیں نہ کوئی قیادت ہمارے پاس ہے جو تمام امت کو ساتھ لے کر بصیرت افروز فیصلے کرے۔ ایسی صورت میں کم از کم ذاتی طور پر ہمیں اللہ کے احکامات کی پابندی کرنی چاہیے تاکہ غزوۂ ہند شروع ہونے پر ہم میں اتنی روحانی قوت ہو کہ غزوہ ہند کے مجاہدین میں شامل ہوسکیں۔
اللہ ہمیں حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رہبری عطا کرے اور افضل الشہدا میں سے کرے۔