افشاں نوید
میں نے تمہیں بتایا تھا ناں کہ میری بڑی بیٹی چار برس کی عمر تک بولتی نہیں تھی۔ کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ ادا کرتی، مگر اس کو اپنے ہم عمر بچوں کی طرح جملے بنانا نہ آتے تھے، نہ اس عمر کے بچوں کی طرح اپنے احساسات کا اظہار کرتی تھی۔ میں بہت کوشش کرتی تھی مگر خاطر خواہ رزلٹ نہ آتا تھا۔ ڈاکٹرز، ٹیچرز سب اسے ’’سلولرنر‘‘ بچوں میں شمار کرتے تھے۔ میری چھوٹی بہن کی شادی طے پاگئی، میں نے شوہر سے اجازت لی اور بیٹی کے ساتھ پاکستان چلی گئی۔ دو ماہ میں نے پاکستان میں گزارے۔ میری بچی کی شخصیت میں اتنی حیرت انگیز تبدیلیاں آئیں کہ میں حیران رہ گئی۔ پہلے یہ خاندان کے بچوں کو دیکھ کر گھبراتی، ان سے دور بھاگتی، پھر آہستہ آہستہ ان میں دلچسپی لینے لگی۔ ابتدا میں یہ بچوں کے ساتھ کھیلنے کے بجائے دور سے انہیں دیکھتی، پھر بچوں کی آوازیں سنتے ہی کمرہ کھول کر بھاگ کر ان کے پاس جانے لگی۔ امی کے گھر میں تو دو بہوؤں کے ماشاء اللہ سات بچے تھے، ہر عمر کے۔ پھر خالہ کا گھر بھی قریب تھا اور پھوپھی کا بھی۔ ان کے خاندانوں کے بچے بھی آجاتے تھے۔ یوں ہر شام ایک میلہ لگا ہوتا تھا، بالخصوص ویک اینڈ پر تو الگ ہی بہاریں ہوتی تھیں۔ میں اتنے برس بعد گئی تھی شاید اس کی بھی خوشی تھی۔ تمہارے شوہر کی تو پوسٹنگ ان دنوں دوسرے شہر میں تھی اس لیے ہم مل ہی نہ سکے، مگر معجزہ یہ ہوا کہ چند ہفتوں بعد میری بیٹی فرفر بولنے لگی، اس میں بڑی نمایاں تبدیلیاں آئیں۔ وہ بالکل اس انداز سے وہ سب شیئر کرنے لگی جیسے اس کے ہم عمر بچے کرتے ہیں۔ اللہ نے میرا دامن خوشیوں سے بھر دیا۔ مجھ سے یہ خوشی سنبھالے نہ سنبھلتی تھی کہ اب میری تسمیہ، میری شہزادی، ’’سلولرنر‘‘(Slow Learner) نہیں ہے۔ یہ پاکستان کا تحفہ تھا میرے لیے۔ جس سوشلائزیشن کے لیے ہم دیارِ غیر میں مرکھپ جاتے ہیں وہ پاکستان کے ہر گھر میں موجود ہے۔ یہاں کے خاندانی نظام، رشتوں کا قریب ہونا، محبت کرنے والوں کا دستیاب ہونا، اکٹھی خوشی، اکٹھے غم، یہ سب کتنی بڑی نعمت ہے۔
وہاں تو ’’ہم وطن‘‘ ہونا ہی اتنی بڑی نعمت ہوتا ہے کہ ہم میلوں کی مسافت پر بھی اپنے ہم وطنوں سے ملنے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی قدر کرتے ہیں۔ خون کے رشتوں کی کمی کس کس طرح پوری کرتے ہیں وہاں۔‘‘
آج ماریہ بے لگام بول رہی تھی اور میں بالکل بھی بور نہیں ہورہی تھی۔ وہ یونہی پہروں باتیں کرتی تھی اور میں سوچا کرتی اگر میری شکل میں اس کو کچھ دیر کے لیے ’’پاکستان‘‘ مل جاتا ہے تو اتنا تو حق ہے اُس کا مجھ پر۔ اس وقت میں ہوں ہاں کررہی تھی۔ اُس کی یادوں کے اس خزانے میں کچھ لعل و گوہر میرے حصے کے بھی تھے۔ کتنی بڑی حقیقت ہے کہ نعمتوں کا احساس ان کے چھن جانے پر ہی ہوتا ہے۔ شاید کچھ چیزوں کو ساری زندگی ہم نعمت سمجھتے ہی نہیں بلکہ اپنا حق سمجھ کر شکر کی توفیق سے بھی محروم رہتے ہیں۔ اس نے دوبارہ میرا نام لے کر پکارا تو میں سوچوں سے باہر آئی۔ وہ بولی ’’تم ہی بتاؤ یہاں اپنا کیا ہے؟ میں بارہا سوچتی ہوں پاکستان میں جب آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو جس پر نظر پڑتی ہے وہ ایک مسلمان ہوتا ہے۔ بازاروں میں آپ کے چاروں طرف مسلمان ہوتے ہیں۔ آپ کے پڑوسی، بچوں کے دوست سب مسلمان ہوتے ہیں۔ یہاں تو چاروں طرف لوگ اپنے حلیوں سے اعلان کررہے ہوتے ہیں کہ ہم مسلمان نہیں ہیں۔ ساری زندگی اسی کرب میں گزر گئی کہ اپنے بچوں کو کیسے سمجھاؤں نظروں کی حفاظت کے بارے میں۔ بچوں کا اسکول کا بچپن ہو یا یونیورسٹی کی نوجوانی، سب کچھ ان ہی کے درمیان گزر گیا۔ عورتوں کے اتنے مختصر لباس کہ جو گناہ سے بچ جائے تو سمجھو بس رحمتِ خداوندی ہی کے حصار میں ہے۔ کتنا مشکل تھا وہ دن جب میرے چودہ برس کے بیٹے نے مجھے وائن کے حق میں دلیل دی تھی۔ اُس رات میں تڑپ تڑپ کر روئی تھی اپنے بچوں کی ہدایت کے لیے۔ میری بچیوں کے ساتر لباس ہی انہیں کتنا اجنبی بنادیتے ہیں اس معاشرے میں۔ قدم قدم پر بچوں کو حلال اور حرام کی تمیز دینا۔ ایک خوف زدہ سائے کی طرح پیچھا کیا تمام عمر بچوں کا۔ کتنا مشکل تھا بہت سے موقعوں پر میرے لیے اپنے ایمان کو بچانا۔ شوہر کبھی کبھی مجھے جذباتی دیکھ کر یہی سادہ سا مشورہ پیش کردیتے کہ شدت پسندی سے بچو۔ زیادہ جذباتی ہونے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ میں کتنا خوش نصیب سمجھتی تھی اپنے دیوروں کو کہ ان کے بچے پاکستان میں پلتے ہیں، ان کو وہ سب معاشرتی مسائل نہیں ہیں جو ہمیں ہیں۔ مگر مجھے ہمیشہ افسوس رہا کہ پاکستان میں رہنے والے ہمارے احباب ہمیں خوش نصیب گردانتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہم پاکستان واپس جاسکتے تھے۔ مگر اُس وقت میرے شوہر کے پیر بندھے ہوئے تھے، شاید رونگٹا رونگٹا مقروض تھا ان کا، کیوں کہ یہ گھر کے بڑے تھے اور گھر والوں کے خوابوں کی تعبیریں ان سے جڑی تھیں۔ یہ باہر نہ ہوتے تو بہن میڈیکل کی تعلیم پرائیویٹ کالج سے کیسے حاصل کرتی؟ بھائی سیلف فنانس پر کیسے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرتا؟ بہن بھائیوں کی شادی پر جی کھول کے ارمان کیسے پورے کیے جاتے؟ حج تو ایک بار فرض ہے زندگی میں، مگر جب کوئی بیماری یا پریشانی ہوتی امی ابا (ساس اور سسر) عمرے کی نیت کرلیتے۔ یہ خوشی خوشی پیسے بھیجتے کہ میں حج اور عمرے کے لیے کیسے کسی کو روک سکتا ہوں!میرے پڑوس میں ڈاکٹر رنجیت کی فیملی ہے۔ ان کی بیوی پشپا بھی ڈاکٹر ہے۔ کئی برس سے ہم پڑوسی ہیں۔ دوبار میں نے اس کو سخت ڈپریشن میں دیکھا، ایک بار جب اس کی ماں کا انتقال ہوا، دوسری بار جب اس کے جوان بھائی کا ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا۔ دونوں بار بوجوہ وہ انڈیا نہ جاسکی۔ مجھے تو وہ اب بھی ذہنی مریض لگتی ہے۔ اس کا اپنے خاندان پر سے کنٹرول ختم ہوگیا ہے۔ بچے حد سے زیادہ خودسر ہیں۔ اس کے شوہر کہتے ہیں کہ وہ ذہنی امراض کی دوا لیتی ہے، اب اس کو نارمل رکھنا بھی ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ خانگی امور بھی شوہر کے ذمے آگئے ہیں۔ بری طرح متاثر ہوا ہے ان کا خاندان۔ سوچتی ہوں بہن، بھاوج کوئی تو قریب ہوتا بے چاری کے۔۔۔!!سچ پوچھو تو اب میں یہاں لوگوں سے کم ہی ملتی ہوں، جتنے سینے اتنی ہی داستانیں۔ آہ! ہماری تو گزر ہی گئی، جب بچے چھوٹے تھے تو ہم نہ جاسکے، اور جب بچے بڑے ہوگئے تو پاکستانی سماج ان کے لیے اجنبی ہوگیا۔ بڑا بیٹا پانچ برس قبل نانی کے انتقال پر گیا، واپس آیا تو بہت خوش تھا عزیز واقارب سے مل کر۔ اس کی خواہش تھی کہ ہمیں بار بار جانا چاہیے۔ کتنی لذت ہے خونیں رشتوں کی محبت میں۔ میں نے کہا کیوں ناں ہم سب مستقل پاکستان چلیں؟ اس کے باپ نے مجھے چونک کر دیکھا۔ وہ لاپروائی سے کندھے اچکا کر بولا: ماما بی سیریس پلیز۔ وہ گھومنے پھرنے کی جگہ ہے، چھٹیاں گزاری جاسکتی ہیں، مستقل تو نہیں رہا جاسکتا وہاں۔ مسائل دیکھے ہیں آپ نے وہاں کے! پلوشن، لوڈشیڈنگ، ٹریفک کے شدید مسائل، پانی تک پینے کے قابل نہیں، میڈیسن بھی جعلی۔ میں تو زیادہ وقت بیمار ہی رہا اُدھر جاکر۔
میں نے سن کر سر جھکالیا۔ جو وہاں پیدا ہوتے ہیں وہاں جینا بھی جانتے ہیں۔ تم اُس مٹی سے پیدا ہی نہیں ہوئے اس لیے شاید وہ مٹی تمہیں راس بھی نہ آئے۔ میری پلکوں سے دو آنسو گر کر میرے آنچل میں جذب ہوگئے اس وقت۔ میں آنکھیں بند کرتی ہوں تو آنکھوں کے سامنے ان گلیوں کے منظر پھیل جاتے ہیں جہاں کھیلتے، کودتے اور شرارتیں کرتے میرا بچپن گزرا تھا۔ ان گلیوں میں زندگی کے رنگ خوشگوار، سادہ اور پکے تھے‘‘۔
اس کی بند آنکھوں میں گویا قوس قزح کے وہ رنگ جھلمل کرتے اتر آئے ہوں۔ اس نے لمحہ بھر کو سانس لی تو میں نے کہا: ’’بات ہے اپنے اپنے سوچنے کے انداز کی۔ ایسا تو نہیں کہ تم منفی سوچتی ہو اس لیے پریشان رہتی ہو؟ جو اپنی مرضی سے پاکستان سے گیا ہے چاہے حصولِ علم ہی کے لیے سہی، مگر پھر پلٹ کر تو کوئی بھی نہ آیا۔ ایک ترقی یافتہ دنیا میں جاکر کون تیسری دنیا کے ملک میں آنا پسند کرے گا! خاندانوں کی اپنی برکتیں ہیں، مگر بڑے خاندانوں کے اپنے مسائل بھی ہیں۔ یہاں رہنے والوں کو خاندان کے بزرگوں کا اپنے آپ سے زیادہ خیال رکھنا ہوتا ہے۔ پھر ہر طرح کے رشتوں کو نبھانا پڑتا ہے۔ وہاں تو یہ آسودگی ہے کہ آپس کی چپقلش سے بھی دل صاف رہتے ہوں گے۔ وہاں کی زندگی اتنی مشینی ہے کہ فرصت نہیں بہت سے جھمیلوں کو پالنے کی۔ اگر سب کچھ اتنا ہی ناخوشگوار ہے تو پھر جانے والے تو رسیاں تڑا کر واپس آئیں، مگر لوگ تو عیش میں مگن ہوتے ہیں کہ آنے کا نام ہی نہیں لیتے، جو ایک بار گیا، بس وہیں کا ہوگیا۔‘‘
اس نے تحمل سے میری بات سنی اور گویا ہوئی ’’ سب آنا چاہتے ہیں، مگر واپسی کے سب راستے ایک ایک کرکے بند ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پہلے پہلے اگر قرض ہو تو وہ اتارنے اور پاکستان میں خاندان کو خوشحالی مہیا کرنے میں وقت گزر جاتا ہے۔ اگر کاروبار ہو تو وقت کے ساتھ ساتھ وہ جم جاتا ہے۔ اگر ملازمت ہو تو سہولتیں بڑھتی جاتی ہیں، پھر جب ہم موازنہ کرتے ہیں کہ اگر سب چھوڑ چھاڑ کر پاکستان چلے گئے تو وہاں محنت کا معاوضہ اتنا کم ہے، پھر امن وامان کی موجودہ صورتِ حال تو اس وقت لوگوں کو مجبور کررہی ہے دیارِ غیر ہجرت کرنے پر۔ جب تک بچے بڑے نہ ہوجائیں اُس وقت تک امکان باقی رہتا ہے واپس جانے کا۔ مگر جو بچے یہاں پیدا ہوئے اور جوان ہوگئے اُن کے لیے پاکستانی سماج بالکل اجنبی ہے۔ پھر معیارِ زندگی سمیت ہر چیز کا فرق۔ بچوں کو تو وہاں کی مٹی کی محبت نہیں ہوتی جو ہمیں ہے۔ انسان اپنے بچوں کی خاطر ہتھیار ڈال دیتا ہے۔‘‘کیسی عجیب سی شکستگی تھی اس کی باتوں میں۔ میں نے گفتگو کو شگفتہ بناتے ہوئے کہا ’’ارے چھوڑو، ہم جیسوں کو تو دور کے ڈھول سہانے ہی لگتے ہیں۔ اب نہ ہر ایک تمہاری طرح سوچتا ہے ڈیئر، نہ آہیں بھرتا ہے۔ ہم تو تم لوگوں کو خوش باش ہی سمجھتے ہیں اور اپنے سے بہتر۔ سچ بتاؤں، میں کبھی سوچتی ہوں کہ اب جو پاکستان میں ہیں شاید اس لیے رہ گئے ہیں کہ ان کو جانے کا موقع ہی نہیں ملا۔ ہمارے خاندانوں میں تو جتنے ملک سے باہر ہوں اتنے ہی فخر کی بات ہوتی ہے۔ ایک بیٹا جرمنی میں، ایک آسٹریلیا میں، ایک کینیڈا میں جب ہم سنتے ہیں تو ان والدین کو بغیر پلک جھپکائے حسرت سے دیکھتے ہیں کہ کیا اعلیٰ نصیب ہیں، ماشاء اللہ ماشاء اللہ۔ اب چاہے وہ وہاں پیزا بیچتے ہوں یا برگر، ٹیکسی چلاتے ہوں یا چوکیداری کرتے ہوں، مگر پاکستان میں وہ آئیڈیل سمجھے جاتے ہیں۔‘‘
’’تو محنت کرکے کماتے ہیں، چوریاں تو نہیں کرتے ناں!‘‘ اب کے اس نے میری بات تلخ لہجے میں کاٹی تو میں نے کہا ’’نہیں میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہی کہ محنت سے وقار گھٹتا ہے، مگر پاکستان میں تو گھروں میں اخبار ڈالنا یا مزدوری کرنا لوگ اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں، جب کہ بیرونِ ملک جاکر ان کے سوچنے کے زاویے بدل جاتے ہیں۔ ماموں باقر کے چھ بیٹے ملک سے باہر ہیں، سب کے سب امریکا میں۔ دونوں بہنوں کے بر بھی انہوں نے وہیں تلاش کرلیے۔ اب ان آٹھ میں سے دو یا چار بھی کبھی پاکستان آتے تو محلے بھر کے لوگ انہیں تبرکاً دیکھنے آتے تھے۔ وہ جس تقریب میں جاتے، نوجوان ان کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑے ہوجاتے اور صحافیوں کی طرح ان پر سوالات کی بوچھاڑ کردیتے مارے تجسس کے۔ ان کی تو باڈی لینگویج ہی بدل گئی تھی۔ دو بیٹوں نے وہاں انگریز عورتوں سے شادی کرلی تھی تو ان کے گورے گورے بچوں کو سب چھوچھو کر دیکھتے، جیسے یہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہوں۔۔۔!! (جاری ہے)