سب لکھا ہے تو حساب کیسا؟۔

545

قاضی مظہرالدین طارق
کچھ لوگ پریشان ہیں؛کہتے ہیں،’’جب تقدیرپیدا کرنے والے کی بنائی ہوئی ہے، چھوٹے سے چھوٹے معاملے اس نے اپنی کتاب میں لکھ رکھے ہیں، کہ ہم کیا کریں گے،کیا نہیں کریں گے۔
ہم جو کچھ کر رہے ہیں ،اسی لکھے کے مطابق کر رہے ہیں !تو جزا وسزا کیوں؟جنّت دوزخ کیوں؟ ثواب و گناہ کیوں؟‘‘
آئیے! اس مسئلے کو سائنس کی نظر سے دیکھتے ہیں۔اس کے ساتھ ’سائنس ‘ کو دیکھ کرقارئیں ضرورچونک گئے ہوں گے!
اس سے پہلے کہ ہم آگے چلیں،ہم دیکھتے ہیں کہ سائنس کیا ہے ۔آج کل سائنسدان اس کی جو بھی تعریف کریں،دنیا کے پہلے سائنسدان مسلمان تھے۔بعد میں بھی جو غیر مسلم سائنسدان وارد ہوئے،بشمول کوپرنیکس ، گولیلیو،اسحاق نیوٹن، سے آئنسٹائین تک، سب یہ مانتے تھے کہ یہ کائنات اور اس میں جو کچھ ہے، خود بخود اپنے آپ نہیں بن سکتی،اس کو کسی بنانے والے نے سوچ سمجھ کر ،نقشہ بنا کر،خام مال بنا کراور کچھ قائدے قانون کے ساتھ بنایا۔
اب بھی ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ سائنس جب کسی بات کو ثابت نہیں کرسکتی تو اس کو رَد بھی نہیں کر سکتی۔
کیا ارادے کے بغیر کوئی کام ہو سکتا ہے؟
اس تمہید کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ سائنسدانوں نے سائنس کی یہ تعریف کی ہے کہ’’اس کائنات اور اس میں جو کچھ ہے،اس کو چلنے اور چلانے کیلئے جو اصول و ضابطے ہیں،اِن کو سمجھنے،سمجھانے اوردریافت کرنے کا نام ’سائنس ‘ہے ، اور اس سے فائدہ اُٹھانے کا نام’ ٹکنولوجی‘ ہے۔
اگرچہ کچھ لوگ کہتے ہیں’’ سائنس پڑھنے کے لئے اللہ اور مذہب کو ایک طرف رکھو!‘‘ چلیے ہم بھی فی الحال ایسا ہی کرتے ہیں!
ہم معلوم کرتے ہیں کہ یہ’ مسئلہ‘ ہے کیا؟مگراس سے بھی پہلے ہماری زندگی میں اس کی اہمیت کیا ہے ۔
جب کسی صحابیؓ سے یہ سوال پوچھا گیا’’جب تقدیر میں سب لکھا ہے تو حساب کیسا؟‘‘
تو انہوں نے سائل سے کہا کھڑے ہو جاؤ،پھر کہا ایک پیر اُٹھاؤ،پھر کہا اب دوسرا پیر بھی اُٹھاؤ،وہ پہلا پیر رکھ کر دوسرا اُٹھانے لگا،انہوں نے کہا نہیں پہلا رکھے بغیر دوسرا اُٹھاؤ،سائل نے کہا میں ایسا نہیں کر سکتا۔
تو اُنہوں نے کہاتم جو کچھ کر سکتے ہو اُسی کا تم سے حساب لیا جائے گا،اور اسی کے مطابق فیصلہ ہوگا۔یہ اُس زمانے میں بھی اور اِس زمانے میں بھی اس مألے کو سمجھانے کا بہترین عملی اور منطقی طریقہ ہے۔
مگر آج کے دور میں منطقی استدلال کافی نہیں ہے، آج کے نوجوانوں کے ذہنوں میں بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ان کے لئے لازمی ہو گیا ہے کہ سائنسی بنیاد پر اِن کو اِس مألۂ جبر و قدر پر دلائل دیئے جائیں۔
اس لئے یہ کم علم ،اہلِ علم سے معذرت کے ساتھ بڑی جسارت کر رہا ہے،پھر اگر غلطی کر رہاہے تو ۔۔۔اللہ غفورالرحیم ہے ،علیم و خبیر ہے!
ہم اس جہاں میں جو کچھ کام انجام دیتے ہیں وہ خالق کے دیئے ہوئے اعضاء سے کرتے ہیں۔اِن اعضاء سے کام لینے کیلئے اُس نے ہمیں بہت سے عضلات (مسلز) سے نوازا ہے۔ہمارے جسم میں تین قسم کے عضلات ہیں۔
۱۔وہ جو خاص دل میں ہیں۔
۲۔’سادہ عُضلات‘ (smooth muscles)
ْْْْْ۳۔’کلیدی عُضلات ‘ (skeletal muscles)
پہلے دو سرے پرتو ہمارے اِرادے اور اِختیارکا کوئی دخل ہی نہیں،یہ ہمارے علم و اِرادے کے بغیر خود بخود کام کرتے ہیں،یہ غیر اختیاری اور اضطراری عضلات کہلاتے ہیں،ہم سورہے ہوں یا بے ہوش ہوں یہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں؛سانس چلتی رہتی ہے ،خون دوڑتا رہتا ہے،ہاضمہ،گردہ،جگر،تلی،لبلبہ سب ہی رواں رہتے ہیں ۔
ہمارے جسم میں جو’سادہ عضلات‘ہیں،وہ ’دماغ‘ کے فیصلوں اور اس کے بھیجے ہوئے ’برقی اشاروں‘ پر کام کرتے ہیں،ان کے ذریعہ بہت سارے غیر اِختیاری اوراِضطراری افعال جاری ہیں جن کاہم شعوری طور پر بالکل احساس بھی نہیں رکھتے ،بلکہ ان کی تو ہم کو بیسویں صدی سے پہلے کچھ خبر بھی نہیں تھی ۔مثلاً جیسے خون کا دباؤ کم یا زیادہ کرنا،سانس کی رفتارتیز و آہستہ کرنااور دل کی دھڑکن تیز یا آہستہ کرنا،خون کی رگوں کو پھیلانا سکیڑنا ۔ جیسے ہماری کھائی ہوئی غذا کو ہاضمے کے بہت سے مراحل سے گذارتے ہوئے منہ سے آخری سرے تک لے جانا ۔یہ سب کام ’غیر اِختیاری‘ ہیں،یہ ہمارے جسم میں ہماری اطلاع و مرضی کے بغیرخود بخودہو رہے ہیں ، اور یاد رہے ، یہ اَفعال ہم کو زندہ رکھنے کیلئے نہایت ضروری ہیں۔
’اِضطراری‘ اَفعال وہ ہیں جو ہماری حفاظت کیلئے اللہ ربّ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا احسان ہیں،اگر وہ یہ احسان نہ کرتا توحادثات میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا، مثلاً؛
جب ہم اپنا ہاتھ کسی برداشت سے زیادہ تیز گرم یا ٹھنڈی چیز کو ہاتھ لگادیں یا لگ جائے تو یکایک ہم اپنے کسی اِرادے کے بغیر اضطراری طوربڑی تیزی سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اور زیادہ نقصان سے بچ جاتے ہیں۔
ہماری آنکھ میں کچھ پڑجائے تو آنسو آورغدّے کام شروع کر دیتے ہیں اور پلکیں ان کو صاف کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں،آنکھ کی پتلی اور عدسہ بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہے،پتلی تیز یا ہلکی روشنی کے مطابق خود چھوٹی بڑی ہوتی ہے۔عدسہ،جب ہم قریب دیکھنا چا ہیں یا دور اس کے مطابق خود موٹا یا پتلا ہوتا ہے۔
گرمی لگے تو پسینہ آور غدّے پسینہ بناے لگتے ہیں،سردی لگے تو حرارت پیدا کرنے کیلئے دانت بجنے لگتے ہیں،وغیرہ وغیرہ۔
تیسرے عُضلات وہ ہیں جن کے ذریعہ ہم اپنے اِرادے اور مرضی سے اختیاری کام انجام دیتے ہیں۔
تواس کی مثال یہ ہے کہ جیسے ہم کہیں جارہے ہیں ، اپنی مرضی سے جارہے ہیں،ہم کو کوئی چیز زمین پر پڑی نظر آتی ہے، اب اس وقت ہمارااتنااختیار ہے اس کو نظر انداز کرکے گزر جائیں یا رُک کر اِسے اُٹھا لیں۔ اگر ہمارا فیصلہ اُس کو اُٹھانے کاہوتب بھی ،اس کیلئے ہمارے علم کے بغیرہمارا’ دماغ‘ ایک ترتیب سے بہت سارے عُضلات کو برقی اشاروں کے ذریعہ حکم دیتا چلا جائے گا۔ پہلے پیروں کے عضلات کو رُکنے کیلئے کئی برقی اشارے بھیجے گا،پھر کمر کو جھکنے کیلئے کسی عُضلے کو سکڑنے اور کسی کو آرام کرنے کا حکم دے گا ، پھر ہاتھوں کو آگے بڑھانے کیلئے، انگلیوں کے عُضلات کو صحیح وقت پر بند کرکے چیز کو گرفت میں لینے کیلئے، ایک خاص ترتیب خاص وقت میں بہت سارے خاص برقیرے بھیجے گا، تب جاکر یہ عمل مکمل ہوگا۔
یعنی ہم تو صرف اِرادہ کرتے ہیں۔ہم کو اتنے سارے برقی احکامات کا ،نہ علم ہوتانہ احساس بلکہ بیسویں صدی سے پہلے تو انسان اس برقی پیغام رسانی کے اعصابی نظام کو جانتا بھی نہیں تھا۔
اس کا مطلب یہ مسئلہ کہ انسان کتنا آزاد ہے اورکتنا مجبور،کتنی آسانی سے یہیں حل ہو گیا انسان اپنے ہی اندر دیکھ لے کہ وہ اپنے ہی جسم پرکتنا اختیاررکھتا ہے یعنی کتنا آزاداور بااختیار ہے اور کتنا ساری کائنات کے ساتھ، واحد القہار اللہ غالب و قوی کاعملاًبندہ اور غلام ہے ۔
غور فرمائیے!ہم تو صرف فیصلہ کر سکتے ہیں یعنی نِیّت کر سکتے ہیں،کام تو اللہ کے کارندے ہی کرتے ہیں،یعنی ہمارے اعضاء اور عُضلات دماغ کے فیصلوں اور برقی ہدایات پر کام کرتے ہیں۔
روزِ محشر ہم کو اسی نِیّت کا حساب دین ہو گا۔
توجہ کیجیئے ! سائنس کے علم نے ’ جبر و قدر‘ کے مؤلے کو کس قدر آسانی سے سلجھا دیا ہے!
اس سلسلے میں ایک بڑی دلچسپ مثال ،برطانیہ کے ایک مرحوم سائنسدان ’اسٹیفن ہاکینگ‘ کی ہے۔وہ اِرادہ کرنے میں توآزادتھا مگراللہ نے اس کے’دماغ‘ کوافعال کیلئے برقیرے (Electrical Impulsis) ،عُضلات (muscles)کو بھیج کرکام کروانے سے روک دیا تھا۔ وہ اِرادہ کر کے بھی کچھ نہیں کر سکتاتھا،انگلی بھی نہیں ہلا سکتا،بات بھی نہیں کر سکتا۔
بے چارہ بصیرت کا بھی اندھا گونگا اور بہرا ہے ، پھر بھی کہتا اور لکھتاتھاکہ’’میں اس ساری تخلیقات کیلئے کسی مافوق الفطرت ہستی ’اللہ‘ کی مداخلت کی ضرورت محسوس نہیں کرتا،یہ کائنات حادثاتی طور پر،اپنے آپ، خودبخود بن گئی ہے۔‘‘نعوذ باللہ!
*۔۔۔*۔۔۔*

حصہ