زاہد عباس
یار اسلم جب سے رستم لاپتا ہوا ہے رانی کے تو آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے اب تو اس نے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا ہے ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ علاج میں کوئی کمی نہیں حیران ہوں دوائیاں بھی اپنا اثر نہیں دکھا رہیں اگر یہی صورت حال رہی تو رانی کا بچنا مشکل ہے خوراک زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے جب کھانا پینا ہی چھوٹ جائے تو ڈاکٹر کیا کرے تھوڑا بہت کھائے گی تو ہی دوائیاں بھی اثر کریں گی اس کی حالت پر سارا ہی گھر پریشان ہے دادی اماں تو رانی کے پاس سے اٹھنے کو بھی تیار نہیں۔ ثاقب اور حسّان کی کیفیت کو تو تم جانتے ہی ہو کیسے باؤلے ہو گئے ہیں دونوں۔
اکبر بھائی جس کا گبرو جوان بچہ گم ہو جائے تو اس کی حالت ایسی ہی ہو جایا کرتی ہے اس کی تو دنیا ہی اندھیری ہو جاتی ہے اس کا دکھ ناقابل بیان ہوتا ہے”بھائی”جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے یہ بچاری بھی کس سے اور کہاں جا کر اپنا دکھ بیان کرے جو کچھ بھی کرنا ہے وہ آپ ہی نے کرنا ہے رانی کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے زندگی سے مایوس ہو گئی ہو میری تو یہی دعا ہے کہ اس کا بچہ مل جائے تاکہ اس کی مامتا کو چین مل جائے،
بس اسلم بھائی ہماری بھی یہی دعا ہے لڑکے ڈھونڈ رہے ہیں مجھے پوری امید ہے کہ رستم ضرور مل جائے گا،
اکبر بھائی رستم کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی ہے؟
نہیں اسلم بھائی رپورٹ کیا درج کرواؤں پولیس کا تو تمہیں پتا ہی ہے بات بات پر پیسوں کا تقاضا ہی کرتے ہیں معمولی شناختی کارڈ کی گمشدگی پر ایف آئی آر کٹوانے کے لیے منہ مانگی رقم ادا کرنی پڑ جاتی ہے اور یہ تو رستم کی گمشدگی کا معاملہ ہے ناجانے موبائل میں پیٹرول دلوانے کے نام پر کتنے پیسے مانگ بیٹھیں اسی ڈر سے تھانے جانے سے گریز کیا ہے۔
اکبر بھائی گمشدگی کی شکایت درج کرنا بھی تو ضروری ہے ایسے ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہ کر بیٹھنے سے مسائل حل نہیں ہوتے اور پھر بچے بھی آخر کب تک رستم کو تلاش کرتے رہیں گے آخر کا دل برداشتہ کر بیٹھ جائیں گے پھر کیا ہو گا میری بات مانو حالات ٹھیک نہیں ہیں اس سے پہلے کہ رستم غلط ہاتھوں میں چڑھ جائے اور وہ لوگ اسے کسی دوسرے شہر لیں جائیں ہمیں قانون کی مدد لے لینا چاہیے،
اسلم اکبر بھائی کو ابھی اپنے قانونی مشورے دے ہی رہا تھا کہ گلی سے رستم مل گیا رستم مل گیا کا شور سنائی دینے لگا،گھر کے باہر سے آتی آوازوں نے دادی اماں میں ایک نئی توانائی بھر دی، کہاں تھا رستم ،کون لایارستم کو ،کہاں ہے رستم، ایک ہی سانس میں کئی سوالات کرتی دادی ثاقب کے پیچھے پیچھے گلی کی جانب آگئیں،رستم کو دیکھتے ہی رانی کو تو جیسے دوسری زندگی مل گئی ہو،اس کی خوشی کی انتہا نہ تھی وہ کبھی رستم کے گرد چکر لگاتی تو کبھی اپنا سر اوپر اٹھاتی اسے دیکھ کر ایسا لگتا جیسے اپنے رب کا شکر ادا کر رہی ہو رانی کی حرکتیں دیکھ کر ہمارا ایمان اس بات پر مزید پختہ ہو گیا کہ انسان ہو یا جانور مامتا کا پیار لازوال ہوتا ہے،رانی رستم کے مل جانے پر اس قدر موج میں تھی کہ قریب رکھے چارے سے بھرے ٹپ میں منہ مارنے لگی،دودن سے بھوکی رانی کو چارہ کھاتے دیکھ کر بچے زوردار تالیاں بجانے لگے،واضع رہے کہ اکبر بھائی نے اپنے گھر میں شوقیہ طور پر جانور پال رکھے ہیں اسی لیے گھر والوں نے گائے کا نام رانی جب کہ بچھڑے کا نام رستم رکھا ہے،اسی لیے اکبر بھائی کے گھر والوں کا رستم کی گمشدگی پر افسردہ ہونا فطری عمل ہے،سوچیے ہم سال میں ایک مرتبہ وہ بھی عیدالاضحی پر قربانی کے لیے جانور لاتے ہیں حال آں کہ ہمیں اس بات کا اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ لایا گیا بیل چند دن بعد قربان کر دیا جائے گا،لیکن جتنے دن بھی وہ جانور آپ کے گھر میں رہتا ہے اس کی خدمت کی جاتی ہے سارے ہی گھر والے اس کے نخرے برداشت کرتے ہیں شاید اسی کو قربان کیے جانے والے جانور کی خدمت کہا جاتا ہے جو بھی ہو لیکن اس مبارک تہوار پر دیکھا یہی گیا ہے کہ گھر کے چھوٹے چھوٹے بچے جو قربانی کے جانوروں کی خدمت میں مصروف نظر آتے ہیں انہیں بھی ان جانوروں سے انس ہو جاتا ہے اور عید کے دن جب یہ جانور قربان کیے جاتے ہیں تو ان بچوں کے چہروں پر اداسی طاری ہو جاتی ہے یوں بچوں کو جہاں عید کی خوشی ہوتی ہے وہیں اپنے پیارے جانوروں کے بچھڑنے کا غم بھی ہوتا ہے یہی کچھ صدیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے،
اکبر بھائی کے گھر سارا سال ہی کوئی نہ کوئی جانور بندھا نظر آتا ہے لیکن میں نے انہیں کبھی بھی قربانی کرتے ہوئے نہیں دیکھا ان کا پیار جانوروں سے تو بہت زیادہ ہے لیکن سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے قربانی کرنا ان کی لغت میں نہیں، وہ یہ تو مانتے ہیں کہ عیدالاضحی مسلمانوں کے لیے اللہ سے قرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، لیکن ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم سنت ابرہیمی کی اصل روح سے دور اور ریا کاری، جھوٹ،فریب اور دکھلاوے کے زیادہ قریب ہو گئے ہیں، ان کے بقول ہم قربانی اللہ کی رضا کے لیے نہیں بلکہ محلے داروں اور عزیزوں کو اپنی حیثیت بتانے کے لیے کرتے ہیں، اس کے لیے ہم نہ صرف مہنگے سے مہنگا جانور خریدتے ہیں بلکہ وہ گوشت جس پر مستحقین کا حق ہوتا ہے اس سے اپنے ڈیپ فریزر بھر لیتے ہیں، ان کا سوال ہے کہ کیا ہمیں یہی سبق سنت ابرہیمی سے ملتا ہے، ان کاکہنا تھاکہ ہے کہ عیدالاضحی وہ مذہبی تہوار ہے جو ہمیں اپنے پیدا کرنے والے کی رضا کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا درس دیتا ہے، مگر افسوس کہ آج ہم اس کی محبت دل سے نکال کر دنیاوی جال میں اس قدر پھنسے ہوئے ہیں کہ باپ کو بیٹے کی فکر نہیں بھائی کو بہن کا جبکہ ماں کو اپنی بیٹی تک کا کوئی خیال نہیں، ہر ایک کو مال و زر کی ہوس نے اندھا کر رکھا ہے، اس سے پہلے بھی تو قربانی ہوا کرتی تھی لوگوں میں اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے جنون کا جذبہ پایا جاتا تھا، مگر اب کیا ہو رہا ہے سب کے سامنے ہے عید کا چاند نظر آتے ہی چھریوں پر دھار لگائی جانے لگتی ہے، قربا نی کے نام پر گوشت سے فریزر بھرے جاتے ہیں کسی کو اپنے ہمسایوں، رشتے داروں اور دوستوں کا خیال تک نہیں رہتا، ہمارے نزدیک قربانی اپنے گھر والوں کے لیے جانور ذبح کرنے کا نام ہے، لوگ ذاتی طور پر نمائش کے لیے قربانی کرنے لگے ہیں۔
جبکہ اسوہ ابراہیمؑ کی پیروی کا مقصد جانور ذبح کرنا نفسانی خواہشات کی تکمیل اور دکھلاوا نہیں بلکہ طلب رضائے الٰہی ہے۔ قربانی کے ذریعے انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت انبیائے کرام سے محبت اور خلوص و ایثار کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ اکبر بھائی کی منطق اپنی جگہ ٹھیک ہوسکتی ہے لیکن باتوں سے احکام خداوندی پورے نہیں ہو سکتے اس کے لیے عملی مظاہرے کی ضرورت ہوتی ہے یہ ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ لوگ باتوں باتوں میں اپنے تئیں عالم فاضل بن جاتے ہیں جبکہ عملی طور پر ان کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا غریبوں، پڑوسیوں اور حق داروں میں قربانی کے گوشت کی تقسیم اسی صورت ممکن ہے جب سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے جانور کی قربانی کی جائے تب ہی اپنی کہی ہوئی باتوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے بہ صورت دیگر کیے جانے والے اقدامات لفاظی کے سوا کچھ نہیں۔ الحمدللہ ہم مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں یہ اللہ کا انعام ہے کہ اس نے ہمیں مسلم معاشرے اور کلمہ گو گھرانے میں پیدا کیا۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم مذہبی تہواروں کو عقیدت اور احترام سے منانا خوب جانتے ہیں ہمارے معاشرے میں ہر بات کو تنقید کی نگاہ سے دیکھنے کا رواج نیا نہیں آپ اپنے اطراف دیکھ لیں نماز نہ پڑھنے والا صلوٰۃ کے مکمل مفہوم کو بیان کرتا دکھائی دے گا جبکہ جھوٹا صادق و امین کہلوانے میں فخر محسوس کرتا ہے شاہانہ زندگی گزارنے والے سادگی کا درس دیتے دکھائی دیں گے یعنی خود عملی طور پر کچھ نہ کرو اور باتیں بھگارتے رہو۔ یہی کردار اکبر بھائی کا بھی ہے جنہیں اپنا فلسفہ بیان کرنے سے پہلے سوچنا ہو گا کہ ان کی جانب سے کی جانے والی باتیں، باتوں کی حد تک تو خاصی وزنی ہیں پر دوسری طرف انہیں یہ بات بھی سوچنی ہو گی کہ دو دن سے غائب ان کا پالتو بچھڑا رستم سہی سلامت کیوں آگیا ورنہ اس ملک میں حلال جانور تو ایک طرف گدھوں کی بھی صرف کھالیں ہی ملا کرتی ہیں۔