بزم یاور مہدی کی 134 ویں تقریب ’’آزادی کا سورج‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے مشیر صوبائی محتسب اعلیٰ سندھ سید قمر رضی نے کہا ہے کہ پاکستان ایک طویل جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا جس میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے طلباء کا کردار بہت اہم ہے‘ ان طلباء نے ہندوستان کے چپے چپے میں جا کر مسلمانوں کے شعور کو بیدار کیا اور ایک عظیم تحریک شروع ہوئی وہاں کے لوگوں نے اس لیے تحریک پاکستان کے لیے جدوجہد نہیں کی کہ انھوں نے وہاں سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہونا ہے بلکہ اس لیے جدوجہد کی کہ پاکستان کا بننا بہت ضروری ہے۔ تحریک پاکستان کی کارکن پروفیسر راشدہ حسین نے کہا کہ انہوں نے آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھا ہے‘ اس وقت جو جوش و جذبہ تھا اب ناپید ہے۔ ہمیں اپنی تہذیب اور تمدن کو بحال کرنا ہوگا۔ قیام پاکستان کے بعد صرف چند برسوں تک مخلص سیاست دان ہمارے رہنما رہے بعد میں مفاد پرستوں نے ان کی جگہ لے لی۔ معروف براڈ کاسٹر قاسم جلالی نے کہا کہ قائداعظم نے ہمیں جو اصول دیے تھے وہ ہم نے فراموش کر دیے جس کی وجہ سے دوسری قومیں ہم سے آگے نکل گئیں۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ ہمارا آئین تو 1,400 سو سال پہلے بن چکا ہے ہمیں اب اسے صرف نافذ کرنا ہے اس کے نفاذ کے لیے اب ہمیں حرکت میں آجانا چاہیے۔ پروفیسر اوج کمال نے یاور مہدی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ قائداعظم نے بڑی حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کی ہمیں اس جدوجہد کی کہانی نئی نسل تک منتقل کرنا ہوگی۔ معروف ادیب صحافی عبدالصمد تاجی نے یوم آزادی کے حوالے سے اپنی نظم پرچم کی پکار پیش کی۔ تقریب میں بڑی تعداد میں مہمانوں کے علاوہ ہارون جعفری‘ نثار میمن‘ تنویر اقبال‘ شگفتہ آفتاب‘ سرفراز خان‘ عابد رضوی‘ اویس ادیب انصاری‘ شگفتہ فرحت‘ عبدالباسط‘ شعیب ناصر‘ زاہد علی جعفری‘ مشعل حسن‘ وجیہ الحسن عابدی‘ آصف انصاری اور دیگر ارباب دانش نے شرکت کی۔ یاور مہدی نے تمام مہمانوں کو گلدستے پیش کیے تلاوت کلام پاک کی سعادت سلیم احمد نے حاصل کی جب کہ تقریب کی خوب صورت نظامت کرتے ہوئے ندیم ہاشمی نے کہا کہ بزم یاور مہدی حالات و واقعات کی مناسبت سے محفلیں سجاتی ہے اور آج جشن آزادی کے حوالے سے یہ تقریب ’’آزادی کا سورج‘‘ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
قیام پاکستان میں اسلام اور اردو کا کردار اہم ہے‘ طاہر مسعود
تحریک پاکستان اور قیام پاکستان میں دو چیزیں بڑی اہم تھیں ایک اسلام اور دوسری اردو زبان۔ پوری تحریک میں یہ دونوں چیزیں تحریک کا سبب رہیں اسی لیے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد اسلامی نظام اور اردو کے نفاذ پر سب سے زیادہ زور دیا۔ یہ بات یوم آزادی کے موقع پر قائد اعظم اکادمی میں ’’تحریک پاکستان میں اردو کا کردار‘‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے سابق سربراہ اور ممتاز محقق و دانشور ڈاکٹر طاہر مسعود کہی۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کا کہنا تھا کہ قومی زبان کے طور پر اردو کے نفاذ میں تاخیر کا سبب دراصل ہماری مخلوط ثقافتی صورت حال رہی اور اردو کے نفاذ کو سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا جب کہ قائداعظم محمد علی جناح نے واضح طور پر کہا تھا کہ کوئی بھی قوم ایک قومی زبان کے بغیر سالمیت‘ یکجہتی اور باہمی ہم آہنگی تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کے عملی نفاذ کے لیے عوامی اور سرکاری سطح پر سنجیدگی سے کوششیں کی جائیں۔ تقریب سے معروف شاعر اور دانشور فراست رضوی نے خطاب کرتے ہوئے برصغیر پاک و ہند میں اردو کے ارتقا اور ترویج پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اردو ہماری ملی اور ثقافتی ورثہ ہے اس میں ہمارا علمی سرمایہ محفوظ ہے اور ہمارے آبا و اجداد نے اس کی بطور زبان آبیاری کے لیے طویل جدوجہد کی ہے اور اس زبان کی تحریکِ پاکستان کے فرو غ میں بھی حصہ تھا آج بھی یہ زبان ہماری قومی تشخص کی علامت ہے۔ اس مذاکرے سے قائداعظم اکادمی کے ڈائریکٹر اور معروف محقق خواجہ رضی حیدر نے بھی خطاب کیا اور تحریک پاکستان کے دوران اردو کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے ہمیشہ اردو کو عزیز رکھا اور اپنی تقاریر میں فرمایا کہ کوئی بھی قوم ایک قومی زبان کے بغیر ملکی سالمیت اور یکجہتی کوفروغ نہیں دے سکتی۔
تعلیمی اداروں میں مشاعروں کی ضرورت ہے‘ سعیدالظفر صدیقی
ممتاز شاعر سعید الظفر صدیقی نے کہا ہے کہ تعلیمی اداروں میں مشاعروں کے انعقاد سے زبان و ادب کو فائدہ ہوتا ہے‘ بزم ادب کا قیام ہر تعلیمی ادارے میں لازمی ہے‘ بیت بازی اور مشاعروں کو ہم نصابی سرگرمیوں کا حصہ ہونا چاہیے‘ کسی بھی زبان کی ترویج و ترقی میں ٹیچرز بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے الفاء سیکنڈری اسکول بوہرہ پیر کراچی میں جشن آزادی کے پروگرام میں بہ حیثیت مہمان خصوصی کیا اس موقع پر طلباء و طالبات کے درمیان ملی نغمات و تقاریر کے مقابلے بھی ہوئے اور الفا گروپ آف اسکولز کے ٹیچرز نے اپنے اپنے اشعار بھی پیش کیے۔ سعیدالفظر صدیقی نے کہا کہ آج مجھے بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ اسکول کے ٹیچرز نے اچھی اچھی نظمیں اور غزلیں سنائیں تاہم ان اشعار میں اصلاح کی گنجائش نکلتی ہے کیونکہ شاعری میں لازمی ہے کہ آپ کے اشعار بحر میں ہوں۔ شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے یہ ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ مشاعرے ہماری روایات کے آئنہ دار ہیں جب تک ہم اردو ادب کو آئندہ نسلوں تک منتقل نہیں کریں گے زبان و ادب کی ترقی نہیں ہوسکتی اس ادارے کے ایڈمنسٹریٹر قابل مبارک باد ہیں کہ انھوں نے یہ تحریک شروع کر رکھی ہے۔ یونیورسٹی اور کالجز میں ادبی سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن ثانوی تعلیمی مدارس میں یہ Excercise ہونی چاہیے۔ انھوں نے تجویز پیش کی کہ آئندہ اس اسکول میں کراچی کے اہم شعرا کو بھی دعوت دی جائے اور ایک بڑا مشاعرہ ترتیب دیا جائے تاکہ طلباء و طالبات میں شعر فہمی پیدا ہو۔