ڈاکٹر نثار احمد نثار
اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیراہتمام جشن آزادی مذاکرہ اور مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت ظفر محمد خان ظفرنے کی جب کہ مہمان خصوصی فیروز ناطق خسرو تھے۔ اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں ظفر محمد خان ظفر نے کہا کہ تحریک پاکستان کے حوالے سے اہل قلم کی تخلیقات کچھ کم قدر و قیمت کا حامل نہیں ہے اس میں ہر لحاظ سے اہمیت‘ مقصدیت اور افادیت کی روح کار فرما ہے۔حصول پاکستان کی جدوجہد کے دوران اہل قلم کا طقبہ بھی سرگرم عمل رہا ہے اور ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جن کی نظر تاریخ عالم میں خال خال نظر آتی ہے جس طرح تحریک پاکستان کی حرف بہ حرف کہانی قلم کاروں کی جدوجہد سے عام ہوتی اسی طرح آج استحکام پاکستان کے لی بھی قلم کار اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ مہمان خاص فیروز ناطق خسرو نے کہا کہ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ پاکستان کے بچے بچے کے دل پر تخلیق پاکستان کی جدوجہد کی تاریخ نقش کر دی جائے‘ انہیں بتایا جائے کہ مسلمانوں نے کن قربانیوں اور مصیبتوں سے ملک حاصل کیا۔ جن میں مندرجہ نقاط انتہائی ضروری ہیں مسلم لیگ کا پس منظر قیام اور اغراض مقاصد مسلم لیگ کی ابتدائی دہائیاں محمد علی جناح کی قیادت میں تنظیم نو پاکستان کا مطالبہ اور حصول مندرجہ نقاط اگر نئی نسل کو سمجھ میں آگئے تو وہ استحکام پاکستان کے لیے یقیناًاپنے آپ کو وقف کر دیں گے۔ قادر بخش سومرو نے کہا کہ آئیں ہم سب مل کر ملک سنواریں قائداعظم محمد علی جناح کے قول کو سچا کر دکھائیں اور تجدید عہد کریں۔ جدوجہد آزادی میں ادیبوں اور شاعروں کا اہم کردار رہا ہے شاعر ادیب اپنی ذاتی زندگی میں خواہ کیسا بھی ہو مگر جب وہ فن کی بات کرتا ہے اور جس ملک میں مختلف قسم کی تحریکیں چل رہی ہوں وہاں ادب ان سے متاثر نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں۔ انسانیت کی ناقدری‘ ناانصافی‘ رنگ و نسل کی امتیاز جیسے مسائل جہاں موجود ہوں وہاں ادیب‘ شاعر کیسے چپ رہ سکتا ہے۔ حب الوطنی‘ سماجی مسائل اور ترقی جنگ اور امن رنگ اور نسل یہ ایسے موضوعات ہیں جن سے کسی نہ کسی سطح پر ہمارا تعلق ضرور رہتا ہے۔ انسانیت کے خلاف جب جب ظلم ہوگا تو ادیب اپنی آواز ضرور بلند کرے گا۔ آخر میں مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جن میں عرفان علی عابدی‘ ظفر محمد خان ظفر‘ فیروز ناطق خسرو‘ اوسط علی جعفری‘ صغیر احمد جعفری‘ ہدایت سائر‘ گل افشاں‘ حنا علی‘ طاہرہ سلیم سوز‘ سیف الرحمن سیفی‘ عرفانہ پیرزادہ‘ عارف شیخ عارف‘ اقبال افسر غوری‘ عشرت حبیب‘ شگفتہ شفیق‘ دلشاد احمد دہلوی‘ قمر جہاں قمر‘ ثنا شاہد‘ تاج علی رعنا‘ سیما ناز‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ فرح دیبا‘ محمد رفیق مغل‘ اقبال سیہوانی‘ فرح کلثوم‘ ڈاکٹر رحیم‘ غفران احمد غفران‘ الحاج یوسفی اسماعیل‘ محمد علی زیدی‘ دل نواز‘ محمد اسلم بھٹی‘ جمیل ادیب سید‘ نوشابہ صدیقی نوش‘ پروفیسر سید ابرار شرقی نے اپنا کلام پیش کیا۔ قادر بخش سومرو نے اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے شکریہ ادا کیا۔
جمعیت الفلاح میں آزادی مشاعرہ
سال ہائے گزشتہ کی طرح امسال بھی یوم آزادی کی تقریبات نہایت جوش و خروش کے ساتھ منائی گئیں۔ ادبی انجمنوں نے بھی جشن آزادی مشاعروں کا اہتمام کیا اسی تناظر میں جمعرات 17 اگست 2018ء کو جمعیت الفلاح ہال کراچی میں مجلس فلاح ادب کے تحت آزادی مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس میں اعجاز رحمانی صدر تھے جب کہ نظر فاطمی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اقبال یوسف نے کلام مجید کی تلاوت کی اور سورہ کوثر کی تفسیر بیان کی انھوں نے کہا کہ عیدالاضحی مسلمانوں کی عید ہے حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو اللہ کی راہ میں قربانی کے لیے پیش کیا تھا ان کا یہ عمل اللہ کو بے حد پسند آیا اب قیامت تک مسلمان سنت ابراہیمی کا اعادہ کرتے رہیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ قربانیاں رائیگاں نہیں جاتیں ہم نے پاکستان بنانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا جس کے نتیجے میں آج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں لیکن ضروری ہے کہ ہم اس آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے متحد ہو کر اپنے دشمنوں کا مقابلہ کریں۔ جہانگیر خان نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمیں مظفر ہاشمی بہت یاد آرہے ہیں جن کی سربراہی میں جمعیت الفلاح نے ترقی کی منازل طے کیں انھوں نے ادبی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہم ان کے نقش قدم پر عمل پیرا ہیں ان شاء اللہ ہم زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں مصروف عمل رہیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم نے ہندوستان میں رہ کر ہندوؤں اور انگریزوں کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی تھی ہم نے تحریک پاکستان کے لیے دن رات کام کیا تھا ہم آج بھی جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے پاکستان کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں ہم ہر ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں کیونکہ یہ زندہ لوگوں کی روایت ہے۔ قمر محمد خان نے کلماتِ تشکر ادا کیے اور امید کی کہ آئندہ بھی لوگ ان کی آواز پر لبیک کہیں گے۔ صاحب صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کے مشاعرے میں پاکستان کے حوالے سے جو کلام پڑھا گیا اس میں قیام پاکستان کے محرکات نہایت عمدگی کے ساتھ بیان کیے گئے خدا کا شکر ہے کہ ہمارا شمار آزاد قوموں میں ہوتا ہے لیکن جب سے ہم نے قائداعظم کے زریں اصولوں سے رو گردانی شروع کی ہے ہم بہ حیثیت پاکستانی قوم مشکلات کا شکار ہیں‘ ہمارے دشمن ہماری آزادی کے درپے ہیں لہٰذا وقت و حالات کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے آپس کے اختلافات بھلا کر ایک ہو جائیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ شعرائے کرام پر یہ ذمے داری ہے کہ اپنے اشعار کے لیے ذریعے جذبۂ حب الوطنی کا پرچار کریں۔ کسی بھی ملک کے عروج و زوال میں شعرا بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ مشاعرے میں صاحبِ صدر اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ پروفیسر عنایت علی خان‘ سرور جاوید‘ ڈاکٹر جاوید منظر‘ محمود شام‘ علاء الدین خانزادہ‘ اختر سعیدی‘ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)‘ محمد علی گوہر‘ عبدالمجید محور‘ سعدالدین سعد‘ الحاج نجمی‘ عتیق الرحمن‘ عبدالصمد تاجی‘ نعیم الدین نعیم‘ عطا محمد تبسم‘ عدنان عکس‘ غازی بھوپالی‘ اخلاق درپن‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ فخر اللہ شاد‘ قمر جہاں قمر اور چاند علی نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ پروفیسر عنایت علی خان نے دعائیہ کلمات ادا کیے جس کے بعد شعرا و سامعین کو عشائیہ پیش کیا گیا۔