آسیہ پری وش
ہمارا پیارا وطن پاکستان جس کے وجود کو زمین کے خطے پر منوانے کے لیے اس کے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی بیماری اور اس سے ہونے والی بے تحاشا تکلیف سے لڑتے اور بیماری کو چھپاتے اپنی تمام تر توانائیاں اس پہ صرف کردیں۔ پاکستان کے قیام کے سال بعد ہی جن کے اس بیماری کے باعث انتقال پہ انگریز حکمرانوں نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کچھ یوں کہا تھا کہ اگر ہمیں قائداعظم کی اس بیماری کا پتا ہوتا تو ہم قیام پاکستان کو ابھی ٹالتے رہتے۔ ہمارے قائد نے اپنی بیماری کی رازداری صرف اس لیے رکھی کہ ہمیں اپنی پہچان مل سکے۔ ہمیں اپنے آزادانہ حقوق مل سکیں۔
ایک الگ آزاد ملک کا مفہوم صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے کسی قوم کی غلامی کی صعوبتیں سہی ہوں۔ جنہیں صرف اپنی ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کی بھی جانی، مالی اور دوسری قربانیوں کا بھی شدت سے احساس ہو۔ جنہوں نے صرف آزاد فضا میں سانس لینے کے لیے ایک بڑی اور پْرخطر ہجرت کی۔ دراصل انہیں ہی آزادی کی قدر و منزلت کا پتا ہوگا۔
بیشمارتکلیفوں اور قربانیوں سے وجود میں آنے والی اس پاک سرزمین کو ہم پاکستانیوں نے اس دوراہے پہ لاکھڑا کیا ہے کہ اپنے قائد کے اپنی ہی زندگی پہ لاگو کیے اصولوں کو بھلائے خود کو تکلیف میں مبتلا دیکھ کر یا اپنے مفاد کی خاطر اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے اور پھیلائے پاکستان کے نظام کی بْرائیاں کھول کھول کے بیان کرنے لگتے ہیں، کبھی دوسروں پہ الزام لگاتے، کبھی انہیں برائیوں کو برا کہتے ہوئے بطور پاکستانی ان برائیوں میں ہاتھ ڈالنے پہ خود کو مجبور سمجھ کر تو کبھی کسی اور طریقے سے۔
پاکستان کی برائیاں کرتے ہم دشمن ممالک کو یہ باور کرارہے ہوتے ہیں کہ ہم ایک کمزور قوم ہیں۔ آؤ ہم پہ مسلط ہوجاؤ۔ وہ غیرممالک جن کی نظر میں ہماری پاک سرزمین کی مضبوطی بے مثال تھی۔ 1965 کی جنگ میں ہماری قوم کی اسی مضبوطی کی وجہ سے ہمیں ملی غیبی امداد کی کئی مثالیں ہمارے اردگرد بکھری پڑی ہیں اور وہی ہمارا مضبوط ملک اب ان غیرممالک کی نظر میں کیا اور کیوں ہے۔ ذرا سوچیے۔
درحقیقت پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کوئی جیتا جاگتا سانس لیتا وجود نہیں ہے بلکہ یہ ہماری پہچان، ہماری ذات، ہمارا کردار ہے۔ جسے سب لوگوں سے منوانے کے لیے ہم ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں لیکن پاکستان کے نظام کو برا بھلا کہتے دراصل ہم اپنے اصل کو بْھلائے اپنی پہچان، ذات اور کردار کی نفی کرتے ہیں۔
پیدائشی آزاد فضاؤں میں سانس لینے والے غیرممالک کی غلامی کو ترجیح دیتے پھر سے آزادی سے غلامی میں جانے پہ خود کو خودساختہ مجبور پاتے ہیں۔ آخر کیوں؟ اگر ہمارے ملک کے ٹھیکیدار اس کی تعمیر و ترقی میں صحیح کارکردگی نہیں دکھارہے تو کیا اس میں رہتے ہم پہ یہ فرض عائد نہیں ہوتا کہ جس سرزمین نے ہمیں رہنے کے لیے اپنا سائبان دیا ہوا ہے اس کی ناقص تعمیر پہ بجائے حکمرانوں پہ واویلا کرنے کے، اس کی مضبوط تعمیر و ترقی کے لیے اپنے طور پہ اپنے کردار کو فعال بنائیں؟ یا یہ بہتر ہوگا کہ اس کی صرف فکر میں مبتلا جلتے کڑھتے اور دوسروں پہ الزام دھرتے خود ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے ایک طرف بیٹھ جائیں یا پھر اپنے سائبان کو کمزور جان کر اسے چھوڑ کے غیروں کے در پہ بھٹکا جائے؟
اگر ہم چاہیں تو پورے پاکستان کی فکر میں غلطاں رہنے اور دوسروں کو دیکھنے کے بجائے خود آگے بڑھ کر اپنے گھر اور آس پاس کے علاقے کے ہی مسائل کو حل کرکے انہیں صاف ستھرا، اخلاقی لحاظ سے ترقی یافتہ اور امن کا گہوارہ بنا کر اپنے پاکستان کو خوش حالی کی طرف گامزن کر سکتے ہیں۔ اگر ہم پورے پاکستان کو سنوار نہیں سکتے تو اپنے حصے میں ملے پاکستان کو ہی خوشحال بناکر اور اس کی حفاظت کرکے اپنی پاک سرزمین سے صرف زبانی سچائی اور ایمانداری دکھانے کے بجائے اپنی عملی سچائی اور ایمانداری کا ثبوت دے کر یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسبان اس کے۔