فاطمہ خالہ ہمت اور حوصلے کی مثال

846

شگفتہ جیلانی امروہوی
فاطمہ خالہ کو ہم نے ہمیشہ سلائی مشین پر کپڑے سیتے دیکھا۔ اماں بتاتی تھیں کہ فاطمہ خالہ 28 سال کی عمر میں بیوہ ہوگئی تھیں جب ان کا بیٹا 9 سال کا اور بیٹیاں 7 اور 5 سال کی تھیں۔ محلے بھر کے بچے ان کے ہاں قرآن پڑھنے آتے تھے۔ ہم تینوں بہن بھائیوں نے بھی ان کے ہاں ہی قرآن پڑھا اور وہ سلائی کے دوران بچوں کا سبق سن کر آگے کا سبق دیتیں۔ لڑکیاں فارغ ہو کر ان کے گھر کا چھوٹا موٹا کام کر دیتیں۔
آج جب کسی کے بتانے پر ایک مشہور ڈاکٹر کے کلینک گئی تو اسے دیکھ کر ٹھٹھک کر رہ گئی۔۔۔ ارے یہ تو فاطمہ خالہ کا وجیہ ہے، اور ہاں نام بھی تو اس کا ڈاکٹر وجاہت ہے۔
’’جی بتائیں کیا مسئلہ ہے آپ کا؟‘‘ اس نے سلام کے بعد کہا۔ میں نے ہمت جمع کرکے پوچھا ’’کیا آپ فاطمہ خالہ کے وجیہ ہو؟‘‘
وہ بولے ’’جی جی۔۔۔ مگر آپ کون؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’سیمی باجی، زہرہ خالہ کی بڑی بیٹی۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ اچھا اچھا، کیسی ہیں آپ باجی، اور کہاں ہیں آپ لوگ؟ ہم تو جہاں تھے وہیں ہیں۔‘‘ پھر میں نے بتایا کہ آج کل ہم گلشن میں ہیں، اور فاطمہ خالہ اور سب ٹھیک تو ہیں ناں؟‘‘
’’جی الحمدللہ۔۔۔‘‘ خیر قصہ مختصر میں اپنی دوا اور کچھ ٹیسٹ لکھوا کر اور فاطمہ خالہ کا فون نمبر لے کر اپنے گھر آگئی، مگر آج وجیہ کو ڈاکٹر وجاہت کے روپ میں دیکھ کر میں ماضی میں کھو گئی۔ فاطمہ خالہ انتہائی حسین اور اچھے اخلاق کی خاتون تھیں۔ پڑھی لکھی تو نہ تھیں مگر عقل و شعور، شرم و حیا کا پیکر تھیں، اور سلیقہ تو ان کے درودیوار سے چھلکا پڑتا تھا۔ ہم نے کبھی ان کو کچن کا کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا مگر کھانے محلے بھر میں مشہور تھے۔ جب کوئی اچھا کھانا بنتا، وہ ضرور کسی نہ کسی گھر میں بھجواتیں، جب کوئی پوچھتا: آپ کھانا کب بناتی ہیں؟ چونکہ سب نے سلائی کرتے ہوئے ہی دیکھا، تو وہ کہتیں: اللہ نے صبح کے وقت میں برکت رکھی ہے، نماز سے فارغ ہوکر شام تک کا کھانا بنا لیتی ہوں اور پھر سارا دن لوگوں کے کپڑے سیتی ہوں، بچوں کو تعلیم بھی تو دینی ہے۔ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، اللہ سارے معاملات عزت کے ساتھ نمٹوا دے۔
جب میری شادی ہوئی تو وجیہ کالج جانے لگا تھا اور اس کی بہنیں اسکول میں تھیں۔ میرے دبئی چلے جانے کے بعد اماں نے بھی وہ محلہ چھوڑ دیا تھا۔ میرے بڑے بھائی ٹھیکیداری کرتے تھے۔ آج ہمیں وہ محلہ چھوڑے 25 سال ہوگئے۔
ٹرن۔۔۔ ٹرن۔۔۔ فون کی گھنٹی بجی۔ اماں کا فون تھا، طبیعت پوچھ رہی تھیں۔ میں نے خیریت بتاکر اُن کو بتایا کہ جس ڈاکٹر سے میرا علاج ہورہا ہے وہ فاطمہ خالہ کا بیٹا وجیہ یعنی ڈاکٹر وجاہت حسین ہے۔ اب حیران ہونے کی باری اماں کی تھی ’’مگر وہ کیسے ڈاکٹر بن سکتا ہے! ان کے حالات تو۔۔۔‘‘ ’’جی جی بالکل، وہ ڈاکٹر بن گیا ہے ماشاء اللہ‘‘۔ پھر اماں کچھ ٹھیر کر بولیں ’’محنت رنگ ضرور لاتی ہے جو حلال طریقے سے کی جائے، جیسی محنت فاطمہ نے کی ہے اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ بیٹا تمہاری شادی کے بعد تو اس نے آرڈر پر کھانے پکانے شروع کردیے تھے۔ چھوٹی موٹی تقریبوں کے کھانے اچھے بنا لیا کرتی تھی۔ تینوں بچوں کو پڑھنے کا شوق تھا، وقت کے ساتھ اخراجات بھی بڑھتے گئے۔ فاطمہ ہمیشہ کہتی تھی کہ اعلیٰ تعلیم صرف بیٹے کو دلوانی ہے، بیٹیوں کا تو اچھا رشتہ آتے ہی شادی کردوں گی۔ میں اکثر اس کے ہاتھ دیکھتی۔۔۔ جگہ جگہ سے کٹے ہوئے اور سلائی مشین چلا چلا کر ہاتھوں میں گٹے پڑے ہوئے تھے، میں اسے حوصلہ دیتی کہ تم نام کی ہی فاطمہ نہیں، کام کی بھی فاطمہ ہو جیسے حضرت فاطمہؓ شوہر اور بچوں کے لیے محنت کرتیں، چکی پیس پیس کر ان کے ہاتھوں میں بھی گٹے پڑ گئے تھے۔ فاطمہ بہن تم کو بھی اللہ ضائع نہیں کرے گا، ان شاء اللہ۔‘‘
آج میں اور اماں جان فاطمہ خالہ کے گیٹ پر کھڑے ہیں اور میں اس عالی شان گھر کو دیکھ کر سوچ رہی تھی، اور جیسے محلہ بھر کا کچا صحن والا ٹوٹے ہوئے دروازے والا گھر مجھ سے چیخ چیخ کر کہہ رہا ہو کہ جس گھر کی خوب صورتی اور مضبوطی کی بنیاد میں ایک خوب صورت جوانی، پاکیزہ کردار اور محنت کا پسینہ ہو وہ گھر ایسا ہی ہونا چاہیے۔ مکان کے ساتھ مکین بھی کسی مضبوط پلر سے کام نہیں۔
انٹرکام پر انگلی رکھی، آواز آئی ’’کون۔۔۔؟‘‘ دروازہ ایک کام والی نے کھولا۔ سلام کیا اور ڈرائنگ روم میں بٹھا کر چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ وہیل چیئر دھکیلتی ہوئی کمرے میں آئیں۔ ’’السلام علیکم، کیسے ہیں آپ لوگ؟‘‘
’’وعلیکم السلام فاطمہ، تم کیسی ہو؟‘‘ اماں نے پوچھا۔
’’آپ دیکھ رہی ہیں مجھے، اللہ کا شکر ہے، اس نے جوانی میں مجھے تندرست رکھا تو میں نے محنت کرلی، ہمت اور طاقت تھی غموں کو جھیلنے کی۔ وہ وقت اگر خدانخواستہ بڑھاپے میں ہوتا تو جھیل نہ سکتی تھی۔ اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔‘‘
میں نے پوچھا ’’آپ کو ہوا کیا ہے؟‘‘ بولیں ’’سلائی مشین چلاتے چلاتے میری ریڑھ کی ہڈی کے مہرے گھس گئے، اب کھڑی نہیں ہوسکتی، مگر بہت خوش ہوں۔ اللہ کا شکر بجا لاتی ہوں جس نے ساری ذمے داریاں بحسن و خوبی پوری کروا دیں۔ دونوں بیٹیوں کی شادی شریف گھرانوں میں ہوگئی، اپنے گھروں میں خوش ہیں، میری جیسی محنت اور غموں سے اللہ نے بچایا ہوا ہے۔ وجاہت کی بھی شادی ہوگئی ہے، بہو اچھی ہے، خدمت گزار ہے۔‘‘
’’بہو تو ڈاکٹر ہوگی؟‘‘ اماں نے پوچھا۔
’’نہیں نہیں وہ ڈاکٹر نہیں ہے، وجاہت نے ڈاکٹر سے اس لیے شادی نہیں کی کہ وہ بھی جاب کرتی تو مجھے کون دیکھتا! اس لیے اُس نے اپنے اسپتال میں داخل ایک غریب اور بیوہ کی بیٹی سے شادی کی ہے۔ ماشاء اللہ ایک بیٹا بھی ہے۔ سعادت نام ہے اُس کا۔ اللہ کرے اپنے باپ کی طرح سعادت مند ہو‘‘۔ اسی دوران ماسی ٹرالی سجائے کمرے میں داخل ہوئی تو فاطمہ خالہ نے کہا ’’نسیمہ کو بھی بلا لو‘‘۔ تھوڑی ہی دیر بعد ایک خوب صورت نوجوان لڑکی کے ساتھ فاطمہ خالہ کے برابر عمر کی ایک خاتون داخل ہوئیں تو فاطمہ خالہ نے تعارف کروایا کہ یہ میری بہو فائزہ ہے اور یہ اس کی امی ہیں، ان کی ایک ہی اولاد تھی فائزہ (بہو)، تو میں نے انہیں بھی اپنے پاس بلوا لیا۔ غم اکیلے مشکل سے جھیلے جاتے ہیں، مل کر غم آدھا ہوجاتا ہے اور پھر مٹ جاتا ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’فاطمہ خالہ آپ نے یہ محلہ نہیں چھوڑا‘‘۔ بولیں ’’اللہ نہ کرے کبھی ایسا ہو۔ اس محلے میں میرے شوہر کی یادیں ہیں، میری اپنی پوری زندگی گزری ہے۔ بچوں کی بنیادی ضرورتیں پوری نہ ہوتیں تو ہم مل کر روتے اور اللہ سے دعا کرتے، پھر میرے اندر ایک حوصلہ پیدا ہوتا اور میں اپنی محنت کو اور تیز کردیتی، اور وہ خوشیاں بھی جب بچے اچھے گریڈ سے پاس ہوتے۔ کامیابیوں نے قدم اسی گھر میں چومے۔ ہم نے فیصلہ کیا اِدھر سے نہ جانے کا۔ میرے بیٹے نے اپنا اسپتال بھی اسی محلے میں تعمیر کروایا ہے ۔ بھلے سے چھوٹا ہے مگر محلے بھر کا سہارا ہے۔‘‘
فائزہ نے ہمیں اسپتال کا دورہ کرایا، میں تو یہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ 75 روپے کی پرچی میں مریض کا معائنہ مع بلڈ پریشر و شوگر کے، اور 10 بیڈ والا صاف ستھرا اسپتال جو اُن کرپٹ سیاست دانوں کا منہ چڑا رہا تھا جو الیکشن میں عوام کو جھوٹے وعدے کا نشہ کراتے ہیں، جن کا علاج امریکا اور برطانیہ میں ہوتا ہے جبکہ غریب کو علاج کرانا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ ہر ماہ اس غریب پرور اسپتال کو فنڈ دیا کروں گی۔ اماں جان نے بھی میری بات کی تائید کی، یوں ہم بھی نیکی کے اس کام میں شریک ہوگئے۔
اسپتال سے نکل کر میں سوچ رہی تھی کہ فاطمہ خالہ کو کیا خطاب دوں؟ میری سمجھ میں اس بات کے سوا کچھ نہیں آرہا تھا کہ ان کو سلیوٹ کروں۔۔۔ اور پھر میں نے فاطمہ اسپتال کے سامنے کھڑے ہوکر کہا ’’السلام علیکم فاطمہ اسپتال۔۔۔‘‘

حصہ