اور دنیا ٹوٹ گئی

492

مریم شہزاد
احمد، یوسف اور علی بہت شرارتی ہوتے جارہے تھے اور جب وہ اپنی نانو کے گھر جاتے تو شرارتیں عروج پر پہنچ جاتی، سب سے زیادہ مزا تو ان کو ایمن خالا کو تنگ کرنے میں آتا تھا جن کو وہ من خالا کہتے تھے تینوں کی پوری کوشش ہوتی کہ کسی طرح من خالا کے کمرے میں چلے جائیں جس کو وہ ہر وقت لاک رکھتی ہیں وہ سوچتے کہ پتا نہیں من خالا نے کمرے میں کیا کیا چھپا کر رکھا ہوا ہے حالانکہ من خالا کے کالج کی کتابیں اور دوسرا ضروری سامان ہوتا تھا جس کے بارے میں ان کو پورا یقین تھا کہ اگر ان تینوں کے ہاتھ لگ گیا تو لازمی کسی قابل نہیں رہے گا۔
ایک دن ایمن کالج گئی ہوئی تھی اور ان تینوں کے اسکول کی چھٹی تھی تو وہ صبح ہی نانو کے گھر آگئے اور جب دیکھا کہ من خالا نہیں ہیں اور ان کا کمرا بھی کھلا ہی ہے تو وہ چپکے سے اندر چلے گئے اور کمرے کی تلاشی لینے لگے۔
’’ارے واہ، بال، من خالا بال سے بھی کھیلتی ہیں‘‘ علی نے پڑھنے کی میز سے بال اٹھا کر کہا۔
’’دکھاؤ مجھے،‘‘ احمد نے علی کے ہاتھ سے بال لی ’’یہ تو کچھ الگ طرح کی ہے، اس پر تو جگہ جگہ لکھا ہوا بھی ہے‘‘
’’ہاں واقعی، دیکھو الگ الگ رنگ بھی ہیں، اور ہلکی بھی کتنی ہے‘‘ یوسف نے بال کو اچھالتے ہوئے کہا۔
’’ہے اچھی نیلے دنگ کی، چلو باہر چل کر کھیلتے ہیں کہیں من خالا آہی نہ جائیں‘‘ علی نے کہا اور تینوں باہر لان میں آکر کھیلنے لگے۔
پہلے توآرام سے کیچ کیچ کھیلا، پھر وہ آہستہ آہستہ فٹبال بن گئی یوسف نے ایک کک لگائی تو اچانک ہی ہائے کی آواز آئی۔
’’یہ آواز کہاں سے آئی‘‘ احمد نے کہا۔
پھر علی نے کک لگائی تو دوبارہ آواز آئی اب احمد نے بال کو ہاتھ میں لیا اور چاروں طرف سے دیکھا ’’ارے یہ تو ٹوٹنے والی ہے‘‘
’’ہاں مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے، میں ٹوٹنے والی ہوں‘‘۔
ارے یہ تو بال بول رہی ہے، تینوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
’’ہاں تو تم نے مجھے اتنا زور سے مارا کہ مجھے بولنا پڑا، میں صرف بال نہیں ہو‘‘ بال نے کہا۔
’’پھر؟‘‘ احمد نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’میں تو دنیا ہوں‘‘۔
دنیا؟ وہ پھر حیران تھے۔
’’جس میں تم رہتے ہو، میں اس دنیا کا نقشہ ہوں،‘‘ بال نے بتایا۔
’’تم نے میرے رنگ بھی خراب کر دیئے‘‘
آپ کے اوپر یہ رنگ کیسے ہیں؟
یوسف نے پوچھا۔
یہ رنگ مختلف ملکوں کا بتاتے ہیں۔
’’اور یہ اتنا سارا کیا لکھا ہے‘‘۔
یہ سب ملکوں کے نام ہیں۔
’’اچھا اس کا مطلب، آپ بہت کام کی چیز ہیں‘‘۔
اور بتاؤں، یہ جو زیادہ تر بلو رنگ ہے نا وہ یہ بتاتا ہے کہ اس جگہ سمندر ہے، ابھی بال اور بھی بہت کچھ بتانا چاہتی تھی کہ خالا کی وین کا ہارن بجا تینوں نے اندر دوڑ لگائی، اس بھاگ دوڑ میں بال احمد کے ہاتھ سے گری، علی کے پاؤں سے ٹکرا کر سامنے دیوار سے لگی اور دو ٹکرے ہوگئی، اچانک ہی یوسف کے منہ سے نکلا۔
’’اف، دنیا تو ٹوٹ گئی‘‘۔
خالا من اسی وقت اندر داخل ہوئی اور پوچھا ’’کیا ٹوٹ گئی‘‘۔
تینوں بالکل خاموش ہو گئے۔
’’کچھ پوچھ رہی ہوں میں؟‘‘
انہوں نے دوبارہ کہاان کی نظر ابھی تک بال پر نہیں پڑی تھی۔
’’وہ دنیا‘‘ احمد ہکلایا۔
کیا ہوا دنیا کو؟ وہ حیران تھیں۔
’’ٹوٹ گئی‘‘ یوسف ڈرتے ڈرتے بولا۔
’’کیا مطلب دنیا کیسے ٹوٹ سکتی ہے‘‘ من خالا جھلا کر بولیں تو علی نے کہا ’’ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا مگر وہ خود ٹوٹ گئی‘‘ اور بال کی طرف اشارہ کیا انہوں نے ایک نظر بال کو دیکھا جو زمین پر دو ٹکرے ہوئی پری تھی انہوں نے غصے سے ان تینوں کی طرف دیکھا مگر وہ اب وہاں تھے کہاں، وہ تو بھاگ کر نانو کے پاس چھپ گئے تھے جہاں کوئی ان کو کچھ نہیں کہہ سکتا تھا خالا نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور اپنا ٹوٹا ہوا گلوب اٹھا کر کمرے کی طرف چلدیں ۔

مسکرائیے

* ایک کروڑ پتی کنجوس مرنے لگا تو ایک شخص نے کہا۔
سٹھ صاحب اب تو آپ کا آخری وقت ہے خدا کی راہ میں کچھ دیتے جاؤ۔
کنجوس: خدا کو جان تو دے رہا ہوں۔
***
* ایک بادشاہ نے اپنا مقبرہ تعمیر کرا لیا۔ تعمیر مکمل ہونے کے بعد بادشاہ نے مقبرے کا جائزہ لیا اس نے معمار سے پوچھا اب اس میں کوئی کمی تو نہیں۔
حضور بس آپ کی کمی ہے معمار نے مصومیت سے جواب دیا۔
***
* استاد نے علی سے پوچھا آپ کے والد کیا کرتے ہیں۔
علی نے جواب دیا میرے ابو وکیل ہیں۔
استاد عمر سے آپ کے ابو کیا کرتے ہیں۔
عمر نے کہا میرے ابو ڈاکٹر ہیں۔
استاد عمران سے آپ کے ابو کیا کرتے ہیں۔
عمران: وہی کرتے ہیں جو امی کہتی ہیں۔
***
* ایک دوست (دوسرے سے) جب سورج کی پہلی کرن پڑتی ہے میں اٹھ جاتا ہوں۔
دوسرا دوست تمہاری امی تو کہہ رہی تھیں تم پورا دن سوتے رہتے ہو۔
پہلا دوست ہاں میرے کمرے کی کھڑکی مغرب کی طرف ہے۔
***
* ایک دوست (دوسرے سے) جب سے تمہارے گھر آیا ہوں یہ مکھیاں پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہیں۔
دوسرا دوست: مکھیاں گندی چیز دیکھ کر ہی منڈلاتی ہیں۔
***
*پاگل خانے میں سارے پاگل خوشی سے ناچ گا رہے تھے۔
ایک پاگل ان کے پاس خاموش بیٹھا تھا۔
اسپتال کے ڈاکٹر نے اس سے پوچھا۔
’’تم ان سب کے ساتھ کیوں نہیں ناچ رہے۔‘‘
پاگل بولا: ’’بیوقوف! یہ شادی کی خوشی میں ناچ رہے ہیں، اور میں دولہا ہوں۔‘‘
***
* استاد (شاگرد سے ): ’’بتاؤ کا رپوریشن کسے کہتے ہیں؟‘‘
شاگرد : ’’جناب جہاں کاروں کا آپریشن ہوتا ہے۔‘‘

قربانی کا سبق

ارم فاطمہ
بقر ہ عیدآنے میں کچھ دن ہی رہ گئے تھے۔ احد بہت بے چین تھا کہ کب وہ ابو کے ساتھ بکرا منڈی جاکر اپنی پسند کا بکرا خریدے گا۔ اس کی کوشش ہوتی تھی ایسا بکرا خریدے جو محلے میں سب سے اونچا اور مضبوط ہو۔ جب محلے کے بچے اور اس کے کلاس فیلو بکرے کی تعریف کرتے تو وہ بہت فخرسے اتراتا اور کہتا ’’میرا بکرا سب سے اچھا ہے اور اللہ ہماری قربانی قبول کرتا ہے‘‘۔ بکرا خریدنے کے بعد وہ روز اسے لے کر گراؤنڈ میں جاتا اورخوشی خوشی سب کو بکرا دکھاتا۔ عید سے پہلے وہ اپنے امی ابو کے ساتھ عید کے کپڑے لینے جاتا۔ عید پر وہ دو یا تین سوٹ ضرور خریدتا تاکہ عید کے ہر دن نیا سوٹ پہنے۔ اس کے ابو اس کی ہر خواہش پوری کرتے تھے اس لیے وہ دوسرے بچوں کو اپنے سے کمتر سمجھنے لگا تھا۔
اسکول کا آخری دن تھا۔ کلاس ٹیچر مس رابعہ نے اسلامیات کی کلاس لیتے ہوئے قربانی پہ بات کرتے ہوئے کہنے لگیں، ’’10ذوالحج کو ہم عید الاضحی مناتے ہیں۔
اس دن اللہ کی خوشنودی کے لیے قربانی کرتے ہیں۔ اللہ کے نزدیک اس قربانی کی اہمیت زیادہ ہے جو خلوص نیت سے اور اس کی رضا کو سامنے رکھ کر کی جائے۔ اپنی قیمتی چیز اللہ کی راہ میں قربان کی جائے ۔ اللہ کو فضول خرچی کرنے والے لوگ پسند نہیں اور وہ لوگ بھی جو دکھاوا کرنے کے لیے قربانی کرتے ہیں۔ وہ ان لوگوں سے خوش ہوتا ہے جو اس کے بندوں کا خیال رکھتے ہیں اور انہیں اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں ۔اس لیے آپ لوگ کوشش کیا کریں کہ اپنی باتوں سے اور عمل سے کسی کا دل نہ دکھائیں اور سب کے ساتھ مل کر خوشی سے عید منائیں‘‘۔
ان شاء اللہ عید کے بعد جب کلاس ہوگی تو میں آپ سب سے پوچھوں گی کہ آپ نے میری باتوں پر کتنا عمل کیا۔ سب بچے بہت غور سے مس رابعہ کی باتیں سن رہے تھے۔ احد بہت خاموش تھا۔ سب بچے ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے کیوں کہ اب ان کی ملاقات عید کے بعد ہونی تھی۔گھر آکر بھی اس نے خاموشی سے کھانا کھایا اور اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔ اس کے ذہن میں مسلسل مس رابعہ کی باتیں آرہی تھیں۔ اسے یاد آیا جب پچھلے سال وہ بکرا لے کرگراؤنڈ میں گیا تھا ، اپنے دوستوں کو اور محلے کے بچوں کو بکرا بڑے فخر سے دکھاتا تھا۔ وہ بکرے کو رسی سے پکڑ کر گراؤنڈ کا چکر بھی لگاتے تھے۔ ان میں اسامہ بھی ہوتا تھا۔ وہ ایک غریب بچہ تھا۔ وہ بڑی حسرت سے بکرے کو دیکھتا تھا مگر احد اسے ہاتھ نہیں لگانے دیتا تھا۔ کیا میری قربانی اللہ کو پسند آتی ہوگی ؟ وہ سوچنے لگا، سوچتے سوچتے سوگیا۔
شام کو جب وہ بکرے کو گراؤنڈ میں لے کر گیا تو اس نے دیکھا آج بھی اسامہ بکرے کو دور سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے بکرے کی رسی لے جاکر اس کے ہاتھ میں دی تو وہ خوشی سے مسکرانے لگا۔ احد کو ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوئی۔
اس نے رات کو فیصلہ کیا کہ وہ کسی کو اپنی خوشیوں میں شریک کرے گا۔ وہ ابو کو ساتھ لے کر اسامہ کے گھر گیا۔اپنے عید کے کپڑوں میں سے ایک جوڑا اسے دیا اور کہنے لگا، ’’ کل ہمارے گھر آنا عید کی نماز پڑھنے چلیں گے اور پھر قربانی کریں گے ، مل کر کام کریں گے ‘‘۔ واپس گھر آتے ہوئے احد بہت خوش تھا۔ اس نے مس رابعہ کی باتوں سے قربانی کا اب اصل سبق سیکھا تھا۔ سب سے اچھی بات یہ تھی کہ اس نے نہ صرف اپنی اصلاح کی تھی بلکہ اس پر عمل بھی کیا تھا۔

روبینہ اعجاز

بڑی عید آرہی ہے
کیا سکھا رہی ہے
اللہ سے محبت کے
گر بتا رہی ہے
ابراہیم ؑ کی سنت پر
عمل کرا رہی ہے
بڑی عید آ رہی ہے
ہم کو سکھا رہی ہے
باپ کے حوصلے کی
داستان سنا رہی ہے
بیٹے کی اطاعت کا
سبق پڑھا رہی ہے
بڑی عید آرہی ہے
ہم کو سکھا رہی ہے
شیطان ہے ہر قدم پہ
بچنا ہے اس سے کیسے
اللہ کا سچا بندہ
سب کو بنا رہی ہے
بڑی عید آرہی ہے
ہم کو سکھا رہی ہے
کریں اطاعت کیسے
ممکن ہے یہ ایسے
قربانی ہے اصل جذبہ
یہ راز بتا رہی ہے
بڑی عید آرہی ہے
ہم کو سکھا رہی ہے

حصہ