’’جبران سے ملیے‘‘ کی تقریبِ رونمائی۔۔۔

442

ظہیرخان
نام عزیز جبران‘ شاعری اور افسانہ نگاری ان کی پہچان اور ’’بے لاگ‘‘ ان کی جان۔ ابھی صحیح طریقہ سے موصوف جوان بھی نہ ہونے پائے تھے شاعری کا روگ پال لیا اور ایسا پالا کہ ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یا کافر لگی ہوئی‘‘ دن ہو یا رات خواب ہو یا بے داری۔۔۔ ہر دم رواں ہے ان کی شاعری ۔۔۔ شاعری ایسی باکمال کرتے ہیں کہ سننے والا لاجواب اور پڑھنے والا سیراب ہوجائے۔ سنجیدہ اور مزاح دونوں میدانوں کے شہسوار ہیں اب یہ ان کے ارد گرد کے ماحول پر منحصر ہے‘ جیسا ماحول ویسی آمد۔۔۔ کیونکہ ’’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں‘‘۔۔۔ واٹس اپ کیا ایجاد ہوا جبران بھائی کے مزے آگئے۔۔۔ جیسے ہی کوئی آمد ہوئی جھٹ واٹس اپ کی نذر کر ڈالی اور لمحوں میں احباب تک حالِ دل پہنچا دیا۔۔۔ اب یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہی کہ ’’امیرؔ جمع ہیں احباب دردِ دل کہہ لے‘‘ اب تو یہ کہا جائے گا کہ ’’امیرؔ واٹس اپ پہ ہیں احباب دردِ دل لکھ دے‘‘۔ یہ تمہید کیوں باندھی گئی۔۔۔ اسلیے کہ پچھلے دنوں ادبی دنیا میں ایک نئی کتاب کا اضافہ ہوا ’’جبران سے ملیے‘‘۔۔۔ بقول ہمارے دوست معراج جامی کُل ڈھائی افراد کی محنت اور کوششوں کا نتیجہ یہ کتاب ہے۔ لفظ ’’ڈھائی‘‘ کی وضاحت کرتا چلوں کہ مرتّبین میں دو مرد حضرات اور ایک خاتون ہیں۔۔۔
جیسا کہ اوپر بیان کر چکا ہوں کہ کتاب کا عنوان ہے ’’جبران سے ملیے‘‘۔۔۔ اب اگر کسی بندۂ خدا کو ان سے ملنے کا اتنا ہی اشتیاق ہے تو تھوڑی سی زحمت کرے اور اردو بازار کا رخ کرے۔۔۔ کسی کتب فروش سے ملے اور پھر ’’جبران سے ملیے‘‘ خرید کر واپس آجائے۔ عموماً کسی سے ملاقات کے بعد یہی کہا جاتا ہے کہ ’’آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی‘‘ لیکن وہ بندۂ معصوم جو ایک ہزار روپے کی قربانی دے چکا ہے ’’جبران سے ملیے‘‘ پڑھنے کے بعد اپنے دل میں یہی کہے گا کہ ۔۔۔’’جبران صاحب آپ سے مل کر میری جیب خالی ہوگئی‘‘ کیونکہ کتاب کی قیمت مبلغ ایک ہزار روپیہ سکّۂ رائج الوقت ہے۔
جب کوئی کتاب شائع ہوتی ہے تو اسکی رسمِ اجرا یا پھر رونمائی عمل میں آتی ہے‘ یہ ایک رسم بن چکی ہے۔۔۔ ’’جبران سے ملیے‘‘ کی بھی رونمائی عمل میں آئی۔۔۔ جگہ کا تعیّن بہت سوچ سمجھ کر شجاء الدین غوری کا دولت کدہ کیا گیا کیونکہ گلشنِ اقبال شہر کے وسط میں ہے اور ہر کسی کو پہنچنے میں آسانی ہے۔
گیارہ بجے دن کا وقت مقّرر کیا گیا تھا مگر حسبِ روایت تھوڑی تاخیر سے تقریب کا آغاز ہوا۔ صفدر علی انشاء نے نظامت کی مشکل ذمہ داری اپنے سر لی۔ محترمہ وضاحت نسیم صاحبہ کے بار بار انکار کرنے کے باوجود احباب اپنی ضد پر اڑے رہے اور صدارت کا تاج آخرکار انہیں کے سر پہنا کر چھوڑا۔۔۔ ہم بھی وہاں موجود تھے۔ ہم نے بھی اپنا فتویٰ دے ڈالا کہ اسلام میں عورت کی امامت جائز نہیں ہے مگر صدارت کا کہیں ذکر نہیں ہے لہٰذا اُن کی صدارت قابلِ قبول ہے۔
اس طرح وضاحت نسیم صاحبہ کی صدارت میں تقریب کا آغاز ہوا صفدر علی انشاء نے قرآن کریم کی تلاوت کی۔۔۔ بعدازاں اپنے مزاحیہ کلام سے سامعین کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیردیں۔ ان کا ایک قطعہ حاضرِ خدمت ہے۔۔۔
لب پہ ہے نامِ وطن دل میں ہے مودی مودی
ایسے لیڈر کو کہا کیا نہیں جا سکتا ہے
اپنے شوہر کو صفدر نہ سمجھتی ہو میاں
ایسے مریم کو نوازا نہیں جا سکتا ہے
اس تقریب میں نامی گرامی شاعر اور ادیب موجود تھے۔ ہر کسی نے عزیز جبران کی شاعری‘ ان کی شخصیت اور افسانہ نگاری پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ معراج جامی نثر نگار بھی ہیں اور اچھے شاعر بھی‘ قوی امید تھی کہ وہ کچھ منظوم پڑھیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے کافی طویل نثری اظہارِ خیال کیا۔ اس کے بعد کلیم چغتائی نے بھی بڑی تفصیل سے عزیز جبران کی شاعری اور ان کی شخصیت پر روشنی ڈالی ان کے ہر جملے سے عزیز جبران سے بے پناہ محبت اور عقیدت کا اظہار نمایاں تھا۔ انور احمد علوی کا اندازِ بیان پُر مزاح ہوتا ہے۔ جب تک وہ پڑھتے رہتے ہیں ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ رقصاں رہتی ہے اور سامعین بڑے غور سے ان کے جملوں کو سنتے ہیں کیونکہ ان کے جملے بہت ہی پُر مزاح اور معنی خیز ہوتے ہیں۔ انور احمد علوی نے اپنی ایک پرانی تحریر جو عزیز جبران کی کتاب ’’چھیڑ خوباں سے‘‘ کی اشاعت کے موقع پر لکھی گئی تھی‘ اپنے مخصوص انداز میں پڑھ کر محفل کو زعفران زار بنادیا۔ راقم الحروف کو بھی اظہارِ خیال کا موقع ملا سو جو کہہ سکا وہ کہہ دیا۔۔۔
آج کے مہمانِ خصوصی عزیز جبران انصاری تھے جن کے لیے یہ محفل سجائی گئی تھی۔ صفدر علی انشاء نے بہت ہی ادب و احترام سے انہیں دعوتِ خطاب دی۔ عزیز جبران نے اپنی ایک غزل پڑھی اور سامعین سے خوب داد وصول کی۔۔۔ چند اشعار حاضرِ خدمت ہیں۔۔۔
ترا خیال اندھیروں کا جگمگاتا ہے
بھٹکنے لگتا ہوں تو راستہ دکھاتا ہے
بدن کا زخم تو اک روز بھر ہی جاتا ہے
زباں کا گھاؤ مگر عمر بھر ستاتا ہے
وہ جس سے ترکِ تعلق کیے زمانہ ہوا
وہ شخص آج بھی شدّت سے یاد آتا ہے
آخر میں وضاحت نسیم صاحبہ نے صدارتی کلمات ادا کیے اور عزیز جبران کی فنِّ شاعری ان کی شخصیت اور ان کی علمی اور ادبی خدمات کو سراہا۔ شاعرہ ہونے کے ناطے شاعری کا حق ادا کیا اور اپنی ایک غزل پڑھ کر محفل کو غزل کے ماحول میں لے گئیں۔۔۔ چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔۔۔
وہ آہ آسمان جو سر پر اٹھا سکے
شاید مری دعا میں اثر بھی دکھا سکے
کیا ایسے آسمان کو تانے گا کوئی اور
وہ کون ہے جو ایسے زمیں کو بچھا سکے
چپ ہوگئی نسیمؔ یہ تھا بات کا جواب
اب بھی اگر یہ بات سمجھ میں نہ آسکے
ان کی غزل ختم ہوئی‘ تقریب ختم ہوئی۔۔۔ مگر نہیں ابھی ایک اہم مرحلہ باقی ہے۔۔۔ اس کا بھی احوال سنتے جائیے۔۔۔ شجاء الدین غوری کے گھر جب بھی کوئی تقریب ہوئی ہے۔۔۔ مہمان حضرات کبھی خالی پیٹ واپس نہیں گئے۔ لہٰذا مہمان نوازی کی اس روایت کو برقرار رکھا گیا اور مہمان حضرات کی تواضع چکن نہاری سے کی گئی۔۔۔
تقریب تو صحیح معنوں میں اب ختم ہوئی
اب اس خاکسار کو بھی اجازت دیجیے ’’پھر ملیں گے اگر خدا لایا‘‘

اطہرعباسی

آنسوؤں کی کتاب آنکھوں میں
بن گئی ہے شراب آنکھوں میں
حُسن کو دیکھ کر حجاب میں خود
مُسکرایا حجاب آنکھوں میں
کتنا روشن ہے درد کی صورت
زیست کا انتساب آنکھوں میں
ہے شفق روشنی محبت کی
سُرخ دل کا گلاب آنکھوں میں
جاگتے ہیں ترے شبستاں میں
روشنی بن کے خواب آنکھوں میں
دل کی دنیا جو دیکھنا چا ہو
دیکھنا ان سراب آنکھوں میں
اک جہانِ خراب کیا کہیے
ہائے خانہ خراب آنکھوں میں
بندگی میں کروں رقم یارب
ر ت جگے بے حساب آنکھوں میں
لوحِ دل پر دیے جلاتے ہیں
ظلمتوں کے عذاب آنکھوں میں
یاد میں آپ کی رسا بھائی
اشک ہیں بے حساب آنکھوں میں
غم کی صورت سجا لیے اطہر
ہم نے تازہ گلاب آنکھوں میں

حصہ