اَلَستْ بِرَبِّکْم(کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں)۔

12942

سید مہرالدین افضل
سورۃ الاعراف کے مضامین کا خلاصہ
54 واں حصہ
سورۃ الاَعراف( حاشیہ نمبر :133 :134 :135 :136 :137)
سورہ الاعراف آیت172 تا174 میں اِرشاد ہوا : ’’اور اے نبی! لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا تھا اور اُنہیں خود اُن کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘ اُنہوں نے کہا ’’ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اِس پر گواہی دیتے ہیں۔‘‘ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ’’ہم اِس بات سے بے خبر تھے۔‘‘ یا یہ نہ کہنے لگو کہ ’’شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اُس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا۔‘‘ دیکھو! اِس طرح ہم نشانیاں واضح طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور اس لیے کرتے ہیں کہ یہ لوگ پلٹ آئیں۔‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے عام انسانوں کو خطاب کر کے انہیںبتایا ہے کہ تم سب اپنے خالق کے ساتھ ایک عہد میں بندھے ہوئے ہو اور تمہیں ایک روز جواب دہی کرنی ہے کہ تم نے اس عہد کی کہاں تک پابندی کی۔
اَلَستْ بِرَبِّکْم…’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ تخلیق ِآدم کے موقع پر پیش آیا تھا۔ اُس وقت جس طرح فرشتوں کو جمع کر کے پہلے انسان کو سجدہ کرایا گیا تھا اور زمین پر انسان کی خلافت کا اعلان کیا گیا تھا‘ اُسی طرح پوری نسلِ آدم کو بھی‘ جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی‘ اللہ تعالیٰ نے بہ یک وقت وجود اور شعور بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا تھا اور اُن سے اپنی ربوبیت کی شہادت لی تھی۔ اِس آیت کی تفسیر میں حضرت اْبَیّ بن کَعب نے غالباً نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کر کے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اِس مضمون کی بہترین شرح ہے۔ وہ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے سب کو جمع کیا اور (ایک ایک قسم یا ایک ایک دور کے) لوگوں کو الگ الگ گروہوں کی شکل میں مرتب کر کے اُنہیں اِنسانی صورت اور بولنے کی طاقت عطا کی پھر اُن سے عہد و میثاق لیا اور اُنہیں آپ اپنے اوپر گواہ بناتے ہوئے پو چھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اُنہوں نے عرض کیا ضرور آپ ہمارے رب ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر زمین و آسمان سب کو اور خود تمہارے باپ آدم کو گواہ ٹھیراتا ہوں تاکہ تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو اس کا علم نہ تھا۔ خوب جان لو کہ میرے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں ہے اور میرے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرانا۔ میں تمہارے پاس اپنے پیغمبر بھیجوں گا جو تم کو یہ عہد اور وعدہ‘ جو تم میرے ساتھ باندھ رہے ہو‘ یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا۔ اس پر سب انسانوں نے کہا کہ ہم گواہ ہوئے، آپ ہی ہمارے رب اور آپ ہی ہمارے معبود ہیں، آپ کے سوا نہ کوئی ہمارا رب ہے نہ کوئی معبود۔‘‘
قرآن اور حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن تمام انسانوں کو‘ جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا‘ ایک ساتھ زندگی اور شعور اور بولنے کی طاقت دے کر اپنے سامنے حاضر کیا تھا اور انہیں اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کر دیا تھا کہ ان کا کوئی رب اور کوئی الٰہ اُس کی ذاتِ اقدس و اعلیٰ کے سوا نہیں ہے اور ان کے لیے کوئی صحیح طریق زندگی اُس کی بندگی و فرماں برداری (اسلام) کے سوا نہیں ہے۔ اس اجتماع کو اگر کوئی شخص ممکن نہیں سمجھتا تو یہ اس کی سوچ کی تنگی اور کمزوری ہے ورنہ جو ہستی انہیں ایک، ایک کر کے پیدا کر رہی ہے، وہی ان کو آغاز میں ایک ساتھ جمع بھی کر سکتی ہے اور وہی حساب کتاب کے لیے آخر میں جمع کرے گی اور یہ بات عقل میں سماتی ہے کہ انسان کو عقل و شعور اور اپنی دوسری مخلوقات پر اختیارات دے‘ زمین پر اپنا خلیفہ بناتے وقت اللہ تعالیٰ اسے حقیقت کا علم عطا فرمائے اور اس سے اپنی وفاداری کا اقرار لے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو تعجب ہوتا۔ اِس کے پیش آنے پر تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اس سلسلے درج ذیل چند نکات قابلِ غور ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس ازلی عہد و میثاق کو اس بات پر دلیل قرار دیتا ہے کہ نوعِ انسانی میں سے ہر شخص انفرادی طور پر اللہ کے الٰہِ واحد اور ربِّ واحد ہونے کی شہادت اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی شخص بالکل بے خبری کی وجہ سے، یا ایک گمراہ ماحول میں پیدا ہونے اور پرورش پانے کی وجہ سے اپنی گمراہی کی ذمے داری سے بالکل بری ہو سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ انسانیت کے آغاز میں کیے گئے اِس عہد اور معاہدے کی یاد انسانی حافظے میں کیوں موجود نہیں؟ کیا ہم میں سے کوئی شخص بھی یہ جانتا ہے کہ آغازمیں وہ اپنے خدا کے سامنے پیش کیا گیا تھا؟ اور اس سے اَلَست بِرَبِّکْم کا سوال ہوا تھا اور اُس نے بَلیٰ کہا تھا؟ اگر نہیں تو پھر اُس اقرار کو‘ جس کی یاد ہمارے شعور اور حافظے سے مٹ چکی ہے‘ ہمارے خلاف حجت کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اُس عہد و معاہدے کی یاد انسان کے شعور اور حافظے میں تازہ رہنے دی جاتی تو اِنسان کا دنیا کی موجودہ امتحان گاہ میں بھیجا جانا ہی فضول ہو جاتا کیوں کہ اس کے بعد تو اس آزمائش اور امتحان کے کوئی معنی ہی باقی نہ رہ جاتے۔ اس لیے یاد کو شعور اور حافظے میں تو تازہ نہیں رکھا گیا لیکن وہ تحت الشعور (Sub-conscious mind) اور وجدان (Intuition ) میں یقیناً محفوظ ہے۔
تحت الشعوری اور وجدانی علوم :
ہمارا علم صرف اِتنا ہی نہیں جو ہمارے شعور میں ہے یا ہمیں یاد ہے بلکہ وہ بھی ہے جو ہمارے تحت الشعور اور وِجدان میں موجود ہے۔ تہذیب و تمدن اور اخلاق و معلاملات کے تمام شعبوں میں انسان سے آج تک جو کچھ بھی ظہور میں آیا ہے، اس کا پوٹینشل انسان کے اندر موجود تھا۔ انسانی ضرورت اور باہر سے ملنے والے مددگار عوامل اس پوٹینشل کو با ہر لے آئے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی تعلیم، کوئی تربیت، کوئی ماحولی تاثیر اور کوئی داخلی تحریک اِنسان کے اندر کوئی چیز بھی، جس کا پوٹینشل اس کے ا ندر موجود نہ ہو، ہرگز پیدا نہیں کر سکتی اور نہ ہی باہر کے ماحول میں یہ طاقت ہے کہ جو چیز انسان کے اندر موجود ہو اُسے ذہن سے بالکل مٹا دے… ہاںفطرت سے اِنحراف ہو سکتا ہے‘ اسے مسخ کیا جا سکتا ہے لیکن یہ اندر موجود رہے گی‘ اپنے اظہار کے لیے زور لگاتی رہے گی اور باہر سے اپیل کا جواب دینے کے لیے تیار رہے گی۔ یہ معاملہ ہمارے تمام تحت الشعوری اور وجدانی علوم کے ساتھ عام ہے۔ بالکل یہی کیفیت اُس وجدانی علم کی بھی ہے جو ہمیں کائنات میں اپنی حقیقی حیثیت اور خالقِ کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں حاصل ہے۔
نفس انسانی کی گواہی :
اس کے موجود ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ اِنسانی زندگی کے ہر دور میں زمین کے ہر خطے میں، ہر بستی، ہر پشت اور ہر نسل میں اُبھرتا رہا ہے… اور کبھی دنیا کی کوئی طاقت اسے انسانی ذہن سے مٹانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے اور اِس کے حقیقت ہونے کا ثبوت یہ بھی ہے کہ جب کبھی وہ اُبھر کر عملاً ہماری زندگی میں کرم فرما ہوا ہے‘ اُس نے صالح ا و ر مفید نتائج ہی پیدا کیے ہیں۔ اس کو اُبھر نے اور ظہور میں آنے اور عملی صورت اختیار کرنے کے لیے ایک خارجی اپیل کی ہمیشہ ضروت رہی ہے چناں چہ اَنبیا علیہم السلام اور کتبِ آسمانی اور اُن کی پیروی کرنے والے داعیانِ حق سب کے سب یہی خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔ اِسی لیے اْن کو قرآن میں مذکِّر(یاد دلانے والے) ذِکر (یاد) تذکرہ (یادداشت) اور ان کے کام کو تذکیر (یاد دہانی) کے الفاظ سے تعبیر گیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اَنبیاؑ اور کتابیں اور داعیانِ حق انسان کے اندر کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرتے بلکہ اسی چیز کو اُبھارتے اور تازہ کرتے ہیں جو اُن کے اندر پہلے سے موجود تھی۔
نفسِ انسانی کی طرف سے ہر زمانہ میں اِس تذکیر کا جواب لبیک کی صورت میں ملنا‘ اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ اندرکوئی علم چھپا ہوا تھا جو اپنے پکارنے والے کی آواز پہچان کر جواب دینے کے لیے اُبھر آیا۔ پھر اِسے جہالت اور جاہلیت اور خواہشاتِ نفس اور تعصبات اور شیا طینِ جن و انس کی گمراہ کن تعلیمات و ترغیبات نے ہمیشہ دبانے اور چھپانے اور منحرف اور مسخ کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں شرک، دہریت، الحاد ، زندقہ اور اَخلاقی و عملی فساد رونما ہوتا رہا ہے۔ لیکن ضلالت کی ان ساری طاقتوں کے متحدہ عمل کے باوجود اِس علم کا پیدائشی نقش انسان کی لوح دِل پر کسی نہ کسی حد تک موجود رہا ہے اور اسی لیے تذکیر و تجدید کی کوششیں اُسے اُبھارنے میں کامیاب ہوتی رہی ہیں۔ بلاشبہ دنیا کی موجودہ زندگی میں انسان حق اور حقیقت کے انکار پر مصر ہیں‘ وہ اپنی حجت بازیوں سے اِس پیدائشی نقش کے وجود کا اِنکار کر سکتے ہیں یا کم از کم اِسے مشکوک بنا سکتے ہیں۔ لیکن جب یوم الحساب برپا ہو گا‘ اُس روز اُن کا خالق اُن کے شعور اورحافظے میں روزِ ازل کے اُس اجتماع کی یاد تازہ کر دے گا جب کہ اُنہوں نے اُس کو اپنا واحد معبود اور واحد رب تسلیم کیا تھا۔ پھر وہ اس بات کا ثبوت بھی اُن کے اپنے نفس ہی سے فراہم کر دے گا کہ اِس عہد اور وعدے کا نقش اُن کے نفس میں برابر موجود رہا ا ور یہ بھی وہ ان کی اپنی زندگی ہی کے ریکارڈ سے کھلی آنکھوں دکھا دے گا کہ اُنہوں نے کس کس طرح اِس نقش کو دبایا… کب کب اور کن کن مواقع پر اُن کے دل سے تصدیق کی آوازیں اُٹھیں‘ اپنی اور اپنے گرد و پیش کی گمراہیوں پر اُن کے وِجدان نے کہاں کہاں اور کس کس وقت صدائے انکار بلند کی‘ داعیانِ حق کی دعوت کا جواب دینے کے لیے ان کے اندر کا چھپا ہوا علم کتنی کتنی مرتبہ اور کس کس جگہ اُبھرنے پر آمادہ ہوا… اور پھر وہ اپنے تعصبات اور اپنی خواہشات نفس کی وجہ سے کیسے کیسے حیلوں اور بہانوں سے اس کو فریب دیتے اور خاموش کرتے رہے۔ وہ وقت‘ جب کہ یہ سارے راز فاش ہوں گے‘ حجت بازیوں کا نہ ہوگا بلکہ صاف صاف اِقرار جرم کا ہوگا۔ اسی لیے قرآن مجید کہتا ہے کہ اُس وقت مجرمین یہ نہیں کہیں گے کہ ہم جاہل تھے یا غافل تھے بلکہ وہ کہیں گے ’’ہاں ! ہم اپنے خلاف خود گواہی دیتے ہیں‘‘ آج دُنیا کی زندگی نے اِن لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے، مگر اُس وقت وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔ (الاَنعام، 130)
اِنسان کا فرض یہ ہی ہے کہ معرفتِ حق کے جو نشانات اُس کے اَپنے نفس میں موجود ہیں‘ اُن کو اُبھارے ، پروان چڑھائے اور اللہ سے بغاوت کا راستہ چھوڑ کر بندگی اور اطاعت کے رویے کی طرف واپس آئے۔
اللہ سبحانہ و تعالٰی ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘آمین۔ وآخر دعوانا ان لحمدللہ رب العالمین۔

حصہ