پاکستان کا اک مقصد تھا، مقصد پاکستان نہیں تھا

1839

تنویر اللہ خان
۔1947ء ہجرت کا سفر محض ایک سفر نہ تھا بلکہ یہ قتل و غارت گری اور عزتوں کی پائمالی کی نہ بھلانے والی داستان ہے، مہاجرین قافلوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی لکھی ہوئی کہانیاں آج بھی موجود ہیں۔
انڈیا سے آنے والوں کی اولادوں نے اپنے پرکھوں کی قربانیوں کو بھلا دیا ہے اور تقسیم ہند کے موقع پر آج کے پاکستان میں رہنے والے یہ سمجھتے رہے ہیں کہ سنہ 47 میں ھجرت کا سفر عام سفر کی طرح تھا لہٰذا اب اسے بھلا دینا چاہیے، دونوں طرح کے لوگوں کی یاددھانی کے لیے کچھ واقعات حاضر ہیں ممکن ہے برصغیر کے مہاجر وانصار پاکستان کی قیمت کو سمجھ سکیں۔
تقسیم ہند کے اعلان کے فوراًبعد ہندوستان میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے، انسانی اور اخلاقی قدریں کئی نسلوں کا ساتھ رہنا محض قصہ ماضی بن کر رہ گیا، ہندو اور سکھ مسلمان مردوں کے خون اورخواتین کی عزت کے درپے ہوگئے۔
نوجوان لڑکیوں کو ان کے ماں باپ کے سامنے اجتماعی ہوس کا نشانہ بنایاگیا۔آج بھی خیال کی پرواز سے جب سنہ 47 میں جا پہنچتا ہوں تو دل پھٹا محسوس ہوتا ہے کیسی بے سروسامانی کیسی لاچارگی تھی۔
’’ میرا معصوم بھائی دوسرے بچوں کی طرح ڈرا سہما کھڑا تھا، جب اس نے چند حیوانوں کو میری طرف بڑھتے دیکھا جن پر میری منت سماجت کا کوئی اثر نہیں ہورہا تھا وہ بھاگ کر میرے سامنے آگیا اور مجھے اپنی پناہ میں لے لیا، ایک منحنی سے ہندو نے اپنی کلہاڑی کا زوردار وار اس معصوم کی گردن پر کیا جس سے اس کا سر تن سے جداہو کر دور جاپڑا، اس پر اس ظالم نے شیطانی ہنسی کے ساتھ کہا مجھے معلوم ہوتاکہ تمہاری گردن اتنی کمزور ہے تو اپنی کلہاڑی تمہارے گندے خون سے ناپاک نہ کرتا۔ ۔
وہ بوڑھی عورتوں کو قتل کرنے کے بعد تمام لڑکیوں کو وہ ایک حویلی میں لے گئے اورسوروں کی طرح قطار بناکر کھڑے ہوگئے اور باری باری لڑکیوں کی عزت کو تاراج کرنے میں جت گئے،آنے والا ہر وحشی قطار کے آخر میں اپنی باری کے انتظار میں کھڑا ہوجاتا، بربریت کے اس کھیل میں زندہ بچ جانے والی چند خوش نصیب یا بدنصیبوں میں بھی شامل تھی،اس کے بعد میں ایک کے ہاتھوں سے دوسرے تک پہنچتی رہی، آخر سوہن سنگھ نے مجھے اپنے گھر ڈال لیا اور شادی بھی کرلی، سات سال بعد سوہن سنگھ مرگیا تو اس کے چھوٹے بھائی مہندر نے مجھ سے شادی کرلی۔(1947 کے مظالم کی کہانی خود مظلوموں کی زبانی،از حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی)۔
مشکل وقت کا لمحہ بھی صدیوں برابر محسوس ہوتا ہے لہٰذا ہوشیار پور کی وہ رات بے حد طویل تھی،چوک سراجاں پر حملے کی دوسری رات، حملہ آوروں کی تعداد میں اضافہ ہورہاتھا، پہلے روز پچاس مسلمان نوجوان شہید ہوئے، دوسرے روز اس سے بھی زیادہ شام ہونے سے پہلے دوچار ایسے دلدوز واقعات ہوئے کہ مسلمانوں کی عزیمت اور جوش میں زبردست اضافہ ہوا۔ بزرگ اور نوعمر بھی میدان میں اترنے لگے۔ عصر کے وقت سے دست بدست لڑائی ہورہی تھی،گھر کا ایک چھوٹا بچہ لڑائی کا منظر دیکھ رہاتھا، خواتین کو ہوش نہ رہا اور بچہ ابا ابا کہتے ہوئے دروازے سے نکل کر بلوائیوں کی طرف بھاگا، سکھوں نے بچے کو پکڑ لیا اور چلا چلا کر اعلان کیا، دیکھو ہم آج مسلے کے بچے کے ساتھ کیا کرتے ہیں،اُنھوں نے بچے کو اوپر اچھالا اور اسے نیزے کی انی میںپرو دیا، بچے کی چیخ اس قدر دلخراش تھی کہ ہمارا رواں رواں کانپ اُٹھا (اردوڈائجسٹ 2016) ۔
ایک قافلے کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آنے والے ایک نوجوان نے دورانِ سفر دیکھا کہ ’’ راستے میں ملنے والی مسلمان عورتوں کے ساتھ سکھوں اور ہندوں نے درندگی کا جی بھر کر مظاہرہ کیا تھا، ہوشیارپور سے نکلتے وقت ایک عورت زخمی حالت میں پڑی ملی، والد صاحب نے اٹھا یا تو اس کی ٹانگیں اور سینہ کٹے ہوئے تھے وہ ایک مشہور خاندان کی خاتون تھی، ابا جی اسے اس حالت میں دیکھ ضبط نہ کرسکے، اس خاتون نے صرف اتنا کہا آپ جائیے چاچا جی،غم نہ کریں! اتنا سب کچھ ہوجانے پر پاکستان تو بن گیا، مجھے خوش ہوں کہ میں امت کے کسی کام آئی۔
نہر عبور کرکے ہم سب شدت غم سے کانپ رہے تھے کہ ایک طرف سے کراہنے کی آواز آئی، ایک بزرگ ڈاکٹر نصیرالدین آگے بڑھے۔ انہوں نے پوچھا کون ہے؟ نسوانی آواز آئی، وہ فورا لپکے ایک خاتون خون میں لت پت پڑی تھی، پانی پلاکر مرہم پٹی کرنے کی کوشش کی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا، اس نے مرتے وقت کہا شام چوراسی کی جنگ میں میرے والد اور سات بھائی، چچا اور ان کے چار لڑکے شہید ہوگئے، تین بہنیں اپنی عزت بچاتے ہوئے لڑتے لڑتے نہر میں ڈوب گئیں،والدہ کو انہوں نے قتل کردیا،میں چھپ گئی لیکن انہوں نے مجھے ڈھونڈ نکا لا جب قریب آئے تو میں نے چھرے اور ٹوکے سے دو کو زخمی کردیا، انہوں نے جھلا کر میرا یہ حشر کیا ہے،آخری سانس کے ساتھ اِس نے کہا پاکستان کو میرا سلام پہنچا دیجئے گا ۔
جالندھر کے مسلمانوں نے جس بے جگر ی، دردمندی اور زبردست قربانی سے تحریک پاکستان کے لئے کام کیا وہ تاریخ پاکستان کا روشن باب ہے۔ انہوں نے پاکستان کے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کیلئے تحریک پاکستان کو تاریخی قربانیوں سے ہمکنار کیا۔ مجھے یاد ہے ایک خاتون آخری دموں پر تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہم لوگ پاکستان جا رہے ہیں تو اس نے بابا جی کو بلا کر کہا، یہ میرے زیورات ہیں،خاندان کے سارے مرد شہید ہوچکے ہیں، ان زیورات کو قائد اعظم تک پہنچا دیں شاید پاکستان کے کام آجائیں۔(اردو ڈائجسٹ اگست 2016)۔)
پاکستان بننے پرخون کا جوسیلاب آیا اس کا اندازہ لندن ٹائمز کے نامہ نگار آین مورسن کی ذاتی مشاہدات پر مبنی ان تین رپورٹوں سے لگایاجاسکتاہے جو اس نے اگست اور ستمبر1947 کو جالندھر اور امرتسرسے اپنے اخبار کو ارسال کی تھیں۔
پہلی رپورٹ میں وہ لکھتا ہے سکھ مشرقی پنجاب کو مسلمانوں سے خالی کروانے میں سرگرم ہیں، و ہ ہرروز بے دردی سے سینکڑوں افراد کو تہِ تیغ کرتے ہیں اور ہزاروں کو تلوار کے زور پر مغرب کی جانب ھنکا دیتے ہیں، وہ مسلمانوں کے دیہات اور گھر وں کو نذرآتش کررہے ہیں، اس ظلم وتشدد کو سکھوں کی اعلی قیادت نے منظم کیا ہے اور یہ خوفناک کام بڑے متعین طریقے سے علاقہ بہ علاقہ کیاجارہاہے، دوسری رپورٹ میں لکھتا ہے امرتسر میں 8اگست کے بعد مسلمانوں کے محلوں کے محلے دھڑا دھڑجلناشروع ہوگئے تھے اور لوگ پناہ کے لئے بھاگنا شروع ہوگئے۔ 13اور 14اگست کو پورا امرتسر شعلوں کی لپیٹ میں آچکاتھا۔ 15اگست کو امرتسر میں ہندوستان کا یوم آزادی بڑے عجیب طریقے سے منایاگیا۔سہ پہر کو سکھوں کے ایک ہجوم نے برہنہ مسلمان عورتوں کا جلوس امرتسر کے گلی کوچوں میں نکالا۔ ان کی آبروریزی کی اور پھر بعض کو کرپانوں سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور بعض کو زندہ جلادیا۔ تیسری رپورٹ میں وہ مسلمانوں کے ایک بیس میل لمبے قافلے کے بارے میں ایک خبران الفاظ میں بجھواتاہے اس قافلے میں بیس ہزار سے زائد افرا د تھے اور ان میں سے اکثر پید ل ہی پاکستان کی جانب بڑھ رہے تھے۔ ایسے ہی کئی اور قافلے مشرق سے مغر ب کی طرف رواں دواں تھے۔ آبلہ پا، تھکان سے چور، بھوکوں کے مارے، سفر کی صعوبتوں سے نڈھال۔ دوماہ بعد وہ لکھتاہے 70لاکھ سے زائد مہاجرین گرتے پڑتے پاکستان پہنچ گئے ہیں، وہ بالکل بے سروسامان تھے، ان کے پاس تن کے کپڑوں کے سوا اور کچھ نہ تھا اور ان کپڑوں کی بھی اکثر دھجیاں اڑی ہوئیں تھیں۔ یہ وہ دردکشانِ بلا تھے جنہوں نے معصوم بچوں کا قتل،لاشوں کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا اور عورتوں کی بے حرمتی اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی،ان میں سے ہزاروں بھوک وبیماری سے راستے ہی میں جاں بحق ہوگئے یا بلوائیوں کے خون آشام جتھوں نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، بہت سے پاکستان کی سرحد پرپہنچتے ہی زخموں سے چور اپنے مالک سے جاملے (خونِ مسلم ارزاں ہے،ڈاکٹر سعید احمد ملک) راوی گنڈا سنگھ والا ریلوے سٹیشن کا اسسٹنٹ ریلوے ماسٹرکہتاہے، ایک مہاجر ٹرین فیروز پور کی طرف سے قصور آرہی تھی، گنڈا سنگھ والا سٹیشن پہنچ کر رکی، مجید یزدانی پلیٹ فارم پر اس کا استقبال کررہے تھے۔ گاڑی رکی تو انہوں نے دیکھا کہ سب بوگیا ں خون سے لت پت ہیں اور ڈبوں میں لاشوں کے انبار لگے ہیں۔ یہ منظر اس زمانے کا معمول تھا۔ آگے ایک اور قسم کا منظر آرہا تھا۔ سب بوگیوں میں جھانکتے ہوئے جب وہ آخری بوگی کے قریب پہنچے تو وہاں بچوں کے رونے پیٹنے اور کراہنے کی درد ناک آوازوں نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ جھانک کر دیکھا تو ایک روح فرسا منظر ان کے سامنے تھا۔ اس بوگی میں ایک سال سے پانچ سال تک کی عمر کے بے شمار بچوں کی زندہ لاشیں خون میں لت پت کلبلا رہی تھیں۔ ان بچوں کو ذبح نہیں کیاگیا تھا بلکہ ان کے ہاتھ پاں کاٹ کر زندہ لاشوں کی صورت میں پاکستان کی طرف دھکیل دیاگیا۔ کیا اس سے زیادہ بہیمیت اور درندگی کی مثال کہیں تاریخ میں مل سکے گی۔ (جدوجہد آزادی میں پنجاب کا کردار از ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار)۔
لند ن کے اخبار ڈیلی میل کے نمائندہ خصوصی مسٹر رالف نے انہی ایام میں کراچی سے دہلی تک کا سفر کیا۔ اس نے 27اگست 1947کے ڈیلی میل میں لکھا: میری کہانی صرف وہ لوگ سن سکتے ہیں جو بہت بڑا دل گردہ رکھتے ہوں۔ جب میں کراچی سے براستہ لاہور عازم دہلی ہوا تو کراچی سے لاہور تک راستے میں سفاکی کا کوئی منظر نظر نہ آیا،اور نہ ہی میں نے کوئی لاش دیکھی، لاہور پہنچ کر مشرقی پنجاب میں ہونے والی دہشت وبربریت کے آثار نمایاں نظر آنے لگے کیونکہ اسی دن لاہور میں خون سے لت پت ریل پہنچی تھی، یہ ریل 9ڈبوں پر مشتمل تھی جس پر آسانی سے ایک ہزار مسافر سماسکتے تھے۔ اس ریل کے مسافروں کو بٹھنڈا کے جنکشن پر بے دریغ تہِ تیغ کردیاگیاتھا۔ ہماری گاڑی اتوار کی صبح دہلی کے لئے روانہ ہوئی۔پاکستان کی سرحد عبور کرنے کے بعد جابجا ایسے مناظر بکھرے پڑے تھے جولاہور کی لٹی پٹی ٹرین سے کہیں زیادہ ہولنا ک اور دہلادینے والے تھے۔ گدھ ہرگاؤں کے قریب سے گزرنے والی ریلوے کی پٹری پر اکٹھے ہورہے تھے، کتے انسانی لاشوں کو بھنبھوڑ رہے تھے اور فیروز پور کے مکانات سے ابھی تک شعلے اٹھ رہے تھے۔ جب ہماری ریل بٹھنڈا پہنچی تو مجھے ریل سے ذرا فاصلے پر انسانی لاشوں کا ایک ڈھیر نظر آیا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے پولیس کے دو سپاہی وہاں مزید لاشوں سے لدی بیل گاڑی لائے جو لاشوں کے ڈھیر پر ڈال دی گئی۔ ا س ڈھیر پر ایک زندہ انسان کراہ رہا تھا۔ سپاہیوں نے اسے دیکھا لیکن وہ اپنی لائی ہوئی لاشیں ڈھیر پر پھینک کر سسکتے اور کراہتے انسان کو وہیں چھوڑ کر چلتے بنے۔ وہ مزید لکھتاہے: فیرو زپور سے ہجرت کرتے ہوئے ایک لٹاپِٹا قافلہ جب ایک جگہ سستانے کیلئے رکا تو اچانک سکھوں نے حملہ کردیا۔ ایک عورت کی گود میں پانچ چھ ماہ کا بچہ تھا۔ ایک وحشی درندے نے وہ بچہ ماں کی گود سے چھین کر ہوا میں اچھالا اور پھر اس کی کرپان ننھے معصوم کے سینے میں ترازو ہوگئی اور اس کا پاکیزہ خون اس وحشی درندے کے کراہت آمیز چہرے پر ٹپ ٹپ گرنے لگا۔ بچے کے تڑپتے جسم کو ماں کے سامنے لہراکر درندے نے کہالو! یہ ہے تمہارا پاکستان۔
جب ماں نے اپنے جگر گوشے کو نوکِ سناپہ سجے دیکھا تو اس کا دل بھی دھڑکنا بھول گیا۔ ڈیلی میل کایہ نمائندہ خصوصی آگے چل کر لکھتا ہے: بٹھنڈاسٹیشن پر ہم نے جو آخری نظارہ دیکھا وہ انتہائی کریہہ، گھنانا اور انسانیت سوز تھا۔ جونہی ہماری ٹرین چلی، ہم نے دیکھا کہ چار سکھ چھ مسلمان لڑکیوں کو انتہائی بے دردی سے زدوکوب کرتے ہوئے ان کی سرعام عصمت دری کررہے ہیں۔ دولڑکیوں کوتو انہوں نے ہماری آنکھوں کے سامنے ذبح بھی کرڈالا۔(خون مسلم ارزاں ہے۔ از ڈاکٹر سعید احمد ملک) ۔
دہلی میں بھی مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوچکاتھا۔ گلی گلی، محلے محلے مسلمانوں کی لاشیں بکھری ہوئی نظر آتیں۔ 5ستمبر کو قرول باغ میں امتحانی ہال کے باہر ان تمام مسلمان بچوں کو قتل کردیا گیا جو میٹرک کا امتحان دینے آئے تھے۔ ہر طرف مسلمان قتل کئے جارہے تھے، سامان لوٹا جارہاتھا اور مکان جلائے جارہے تھے۔ سبزی منڈی کے علاقے میں ولبھ بھائی پٹیل کے اشارے پر گورکھا فوج نے تین ہزار مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ایک عینی شاہدنے بتایا کہ 9ستمبر تک دہلی کے واٹر ورکس اور فیروز شاہ کوٹلہ کے درمیان کم از کم دس ہزار لاشوں کا ڈھیر لگ چکا تھا جو ٹرکوں میں بھر بھر کر وہاں لائی گئیں تھیں۔ شام کو سات بجے ان تمام لاشوں کو پٹرول ڈال کر جلادیاگیا۔ اس جلتے ہوئے انسانی جسموں کے الائو کی روشنی دور تک دیکھی جاسکتی تھی۔ چار اور چودہ ستمبر کے درمیان بیس سے پچیس ہزار تک مسلمان مارے جاچکے تھے۔ ایک مسلمان جو جان بچا کر پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوگیا، وہ اپنا چشم دید واقع بیان کرتے ہوئے کہتاہے کہ ایک جگہ اس نے دیکھا کہ ہندو بلوائی ایک ڈھیر کے گرد خوشی سے ناچ رہے تھے۔ کیا ہم سوچ سکتے ہیں کہ یہ ڈھیر کس چیز کا تھا؟ یہ مسلمان عورتوں کے جسموں سے کاٹے ہوئے سینوں کا ڈھیر تھا۔
(خونِ مسلم ارزاں، ڈاکٹر سعید احمد ملک)۔
قربانیوں کی اس داستان بیان کا مقصد اس کے بدلے کچھ طلب کرنا یا مایوسی پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ یاددھانی ہے کہ پاکستان صرف ان کا نہیں جو آج یہاں آرام کی زندگی بسر کررہے ہیں بلکہ پاکستان ان لاکھوں مرد اور خواتین کی خواہشات، مطالبوں، تمناوں کا مرکز بھی ہے جنہوں اپنی جان ومال عزت آبرو پاکستان پر قربان کی ہے۔

حصہ