محمد انور
کہا جاتا ہے کہ کسی معاشرے کو تباہ کرنا ہو تو اس کے تعلیمی نظام کو نقصان پہنچادو اور تعلیمی نظام کو خراب کرنے کے لیے میرٹ کا گلا گھونٹ دو، مقصد حاصل ہوجائے گا۔
سندھ حکومت ان دنوں بعض ایسے اقدامات کررہی ہے جن سے کراچی کے سرکاری کالجوں کے تعلیمی نظام کو نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔ ویسے تو پہلے ہی سے سرکاری تعلیمی اداروں کی پڑھائی سے طلبہ و طالبات مطمئن ہیں اور نہ ہی اُن کے والدین… مگر پھر بھی ان ہی کالجوں کی بدولت کراچی کا سستا تعلیمی نظام چل رہا ہے۔
میٹرک کے امتحانات کے نتائج 12 یا 13 اگست تک آنے کا امکان ہے، جس کے بعد کالجوں میں داخلوں کا سلسلہ شروع ہوگا۔ انٹرمیڈیٹ میں داخلے کے لیے حکومت ہر سال سندھ الیکٹرونک سینٹرلائزڈ کمپیوٹرائزڈ ایڈمیشن پالیسی کے تحت کیپ (CAP)کمیٹی قائم کرتی ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ داخلہ فارم چیک کرکے طلبہ و طالبات کو اُن کی پسند اور قابلیت کے مطابق داخلے کے لیے منتخب کرے۔ ماضی میں کیپ کمیٹی میں مقامی کالجوں کے پرنسپل اور اساتذہ بھی شامل کیے جاتے تھے۔ لیکن اِس سال اس مقصد کے لیے بنائی گئی کیپ کمیٹی میں حیرت انگیز طور پر اُن افسران کو شامل کیا گیا ہے جن کا کراچی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ محکمہ تعلیم سندھ کے افسران تو ہیں لیکن کراچی ریجن کا نہ تو یہ ڈومیسائل رکھتے ہیں اور نہ ہی کراچی کے کالجوں سے واقف ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ریجنل ڈائریکٹوریٹ کراچی میں ڈائریکٹر سمیت دیگر اہم اسامیوں پر اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے سفارشی تعینات ہیں، جن میں بیشتر پر کرپشن کے بھی الزامات ہیں، جبکہ ان کی کارکردگی ان کے اپنے ریکارڈ میں ناقص ہے۔
ریجنل ڈائریکٹوریٹ میں غیر مقامی افسران کی اجارہ داری کی وجہ سے کراچی کے کالجوں کا نظام روز بروز بگڑتا جارہا ہے۔ خدشہ ہے کہ غیر مقامی افراد کے چھا جانے سے ڈائریکٹوریٹ کراچی میں تعلیمی امور کے سوا سب کچھ ہوگا۔
6 اگست 2018ء کو کراچی کے کالجوں میں انٹرمیڈیٹ میں داخلوں کے لیے بنائی گئی کیپ کمیٹی جس کا نوٹیفکیشن سیکشن افسر محکمہ تعلیم نے جاری کیا ہے، چھ ارکان پر مشتمل ہے، جس کا چیئرمین ریجنل ڈائریکٹر کراچی معشوق علی کو مقرر کیا گیا ہے، جبکہ اس کے ارکان میں ڈپٹی ڈائریکٹر انسپکشن امیر حسین قادری، پرنسپل گورنمنٹ گرلز کالج گلزار ہجری ڈسٹرکٹ ملیر حمیدہ مسعود شاہ، ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس عبدالغفار بھٹو، اسسٹنٹ ڈائریکٹر فنانس فیاض سومرو اور منصور علی بھٹی شامل ہیں۔
سندھ ٹیچر فورم کے مرکزی کوآرڈی نیٹر پروفیسر عزیر مدنی اور اراکین پروفیسر اقبال خان اور پروفیسر رئوف نیازی نے ریجنل ڈائریکٹوریٹ کراچی میں مقامی اساتذہ اور افسران کو تمام ذمے داریوں سے فارغ کرکے غیر مقامی افسران اور اساتذہ کی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان پروفیسرز نے انٹرمیڈیٹ سالِ اول کے داخلے کے لیے کیپ کمیٹی میں کراچی کے مقامی کالجوں کے پرنسپل اور دیگر سینئر اساتذہ کو نظرانداز کرنے پر بھی احتجاج کیا ہے۔
پروفیسر عزیر مدنی کا کہنا ہے کہ غیر مقامی اساتذہ نہ تو کالجوں کی تعلیمی صورت حال سے واقف ہیں اور نہ ہی ان کی لوکیشن سے۔ ایسی صورت میں ان کا کیپ کمیٹی میں شامل کیا جانا غیر مناسب بات ہے۔ غیر مقامی افسران کی کیپ کمیٹی میں موجودگی سے خدشہ ہے کہ مقامی ذہین طلبہ و طالبات کو ان کی خواہش کے مطابق کالجوں میں داخلے نہیں مل پائیں گے۔
سرکاری کالجوں میں داخلہ پالیسی سے طلبہ و طالبات کو نقصان
کراچی کے سرکاری کالجوں میں خصوصی طور پر داخلہ پالیسی کے خراب نظام کی وجہ سے طالب علموں کی تعلیم شدید متاثر ہوتی ہے کیونکہ پرائیویٹ کالجوں میں نہم جماعت کی مارکس شیٹ کی بنیاد پر گیارہویں جماعت میں داخلے دے دیے جاتے ہیں، جبکہ سندھ گورنمنٹ کے محکمہ تعلیم کی عدم توجہی سے جہاں میٹرک کے امتحانات کے نتائج میں ہمیشہ ہی تاخیر ہوتی ہے وہیں ڈائریکٹر کالجز کی ناقص داخلہ پالیسی کے نتیجے میں داخلوں کا عمل مکمل ہونے تک تعلیمی سیشن میں تاخیر ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے طالب علموں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ نجی کالجوں کے مقابلے میں سرکاری کالجوں میں فرسٹ ایئر کا سیشن تین سے چار ماہ کی تاخیر سے شروع ہوتا ہے جس کے نتیجے میں پرائیویٹ کالجوں کے طلبہ و طالبات سرکاری کالجوں کے طالب علموں سے تعلیم میں آگے نکل جاتے ہیں۔
اندرون سندھ کے اساتذہ کی کراچی کے کالجوں میں تقرری!
حکومتِ سندھ کے کرتا دھرتائوں کی تعصب پسندی سے کراچی کے تعلیمی اداروں کا ماحول روز بروز خراب ہورہا ہے۔ کراچی کے تقریباً تمام کالجوں میں اندرون سندھ کے اسکولوں کے اساتذہ سمیت نااہل اساتذہ کی تقرری کے عمل سے شہر کے سرکاری کالجوں میں تعلیمی نظام بری طرح متاثر ہونے لگا ہے۔ شہر کے اسٹیڈیم روڈ اور یونیورسٹی روڈ پر واقع کالجوں کے مقامی سینئر اساتذہ نے شکایت کی ہے کہ غیر مقامی اساتذہ کی تقرریوں کی وجہ سے مقامی اساتذہ میں تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ مقامی اساتذہ کو غیر مقامی اساتذہ کے بدلے میں اندرون سندھ تعینات کیا جارہا ہے۔ جبکہ کراچی کے کالجوں میں تعینات کیے جانے والے غیر مقامی اساتذہ تعلیمی لحاظ سے نااہل ہیں، اس لیے وہ کلاس لینے سے گریز کرتے ہیں۔ ماہر تعلیم و مقامی نجی یونیورسٹی کے پروفیسر اقبال احمد خان نے اس ضمن میں اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کسی بھی شہر کے مقامی اساتذہ کو ان کی مرضی کے خلاف دوسرے شہروں میں تعینات کرنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ خصوصاً کراچی سے کسی کو دیہی علاقوں میں مقرر کرنا اُس کے ساتھ ناانصافی ہے، اسی طرح کراچی کے تعلیمی اداروں میں دیہی علاقوں کے اساتذہ کی تقرری یہاں کے طالب علموں کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ کیونکہ اندرون سندھ کے تعلیمی معیار کا کراچی کی تعلیم سے آج بھی کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کسی بھی جماعت کی ہو، اسے چاہیے کہ کم ازکم تعلیمی اداروں اور تعلیمی نظام کے ساتھ انصاف کرے۔ تعلیمی نظام تعصب کا شکار ہوا تو پورے معاشرے کو متعصب ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔