ابنِ عباس
خبرکے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور تحریک انصاف کے چیئرمین، نئے پاکستان کے متوقع وزیراعظم جناب عمران خان نیازی جلد بغل گیر ہونے والے ہیں۔ سیاست میں کوئی چیز بھی آخری اور حتمی نہیں ہوتی، موسمی تبدیلیوں کے اثرات ہمارے ملک کی سیاست میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ آج کے دوست کل کے دشمن، اور کل کے مخالف آج مل بیٹھیں، کچھ نہیں کہا جا سکتا… اور پھر یہ بھی تو ہمارے ہی ملک کی سیاسی تاریخ رہی ہے کہ سیاسی طور پر بدترین مخالف بھی اپنے ذاتی مفادات کی خاطر جمہوریت کی بقا کے نام پر اپنے اپنے سیاسی دشمنوں سے جا ملتے ہیں، ان کے نزدیک عزتِ نفس اور نظریات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی… اور پھر زرداری صاحب کی مفاہمانہ طرزِ سیاست سے بھلا کون واقف نہیں! یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ سیاست میں لفظ ’مفاہمت‘ کو متعارف کرواکر پانچ سال اقتدار کے مزے لوٹنا ان کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ بدترین سیاسی مخالفین کو چند لمحوں کی ملاقات میں رام کرنے کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔ یہ زرداری صاحب کے سیاسی تدبر کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کی جماعت نے نہ صرف 2018ء کے انتخابات میں پہلے سے زیادہ کامیابی حاصل کی بلکہ اپنے سیاسی میدان صوبہ سندھ کو مسلسل تیسری مرتبہ فتح کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ یوں پیپلز پارٹی نے ماضی کے مقابلے میں سیاسی طور پر بہتر نتائج حاصل کیے۔ اس صورتِ حال میں جب سندھ کی وزارتِ اعلیٰ پیپلز پارٹی کے پاس ہو اور مرکز میں یہ جماعت تیسری بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھری ہو، زرداری صاحب کا احتجاجی سیاست کی راہ اختیار کرنے کے بجائے اُن کی خان صاحب سے سیاسی دوستی یا مفاہمت جیسی خبروں کا منظرعام پر آنا اچنبھے کی بات نہیں۔ یہ زرداری صاحب کا کمال ہے کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں دوست بنالیتے ہیں۔ ملک سے باہر ہوں تو غیر ملکی دوست، جیل جائیں تو مجرم دوست، یہاں تک کہ دو لمحوں کی ملاقات کے نتیجے میں بدترین سیاسی مخالفین سے بھی اچھی خاصی دوستی گانٹھ لیا کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ان کے دوستوں کی فہرست مرتب کی جائے تو شیخ رشید کا قلم دوات بھی جواب دے جائے۔ خیر بات ہورہی تھی عمران اور زرداری کے درمیان بڑھتی ہوئی قربتوں کی… یہاں پر بھی خان صاحب اور زرداری صاحب کے مشترکہ دوست نے ہی کمال دکھایا۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں، ورنہ ہم تو محلے کے نذیر صاحب اور ان کے بچپن کے دوست کرامت مرزا کے درمیان صلح کروانے میں اب تک ناکام ہی رہے ہیں۔ ہمارے ملک کے سیاست دانوں کے مشترکہ دوستوں کے پاس نہ جانے کون سی بوٹی ہے جسے سونگھنے سے انسان میں انکار کی گنجائش نہیں رہتی۔ رئیس بھائی کی دوستی کی صورتِ حال بھی ایسی ہی ہے، وہ دن رات اکبر خان سے لڑتے رہتے ہیں۔ کہنے کو یہ دونوں جگری یار ہیں، مگر لڑتے ہوئے کسی اسرائیلی سے کم نہیں۔ ہمیں تو ان کے درمیان ہونے والی تُو تُو میں میں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ دوستی بھی طبقاتی ہوا کرتی ہے۔ غریب دوستی میں سائیکل بھی مانگے تو پنکچر کہہ کر نہ ملے، امیر خاص کر نیا پاکستاں بنانے والا باتھ روم بھی جائے تو جہازوں کی لائن لگ جائے۔ تبھی تو کہتے ’’دوستی ایسا ناتا جو سونے سے بھی مہنگا‘‘… یہاں بھی ذکر سونے کا ہی ہے، یوں کُل ملا کے بات یہ ٹھیری ’’غریب کی دوستی جی کا جنجال، اور امیر کی دوستی آپس کا پیار‘‘۔
غریب کا دوست کسی کارخانے میں چوکی دار بھی نہ رکھوا سکے مگر ہمارے سیاست دانوں کے دوست ‘دوستی کے نام پر اقتدار کرسی پر بٹھادیں۔ قربان جائیں ایسی بے لوث دوستی پر ۔ آج کل ایک ایسے ہی دوست انیل مسرت کا منظر عام پر آنا حیران کن ہے جو نہ صرف میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں بلکہ انیل ہونے کی وجہ سے اس قدر انمول ہیں کہ ان کی بات کو ٹالنا کسی کے بس میں نہیں۔ یوں تو وہ گوروں کے ملک کے شہری ہیں لیکن عمران کی دوستی سے اس قدر مانوس ہوئے کہ اب تک آدھے پاکستانی بن چکے ہیں‘خان صاحب کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اقتدار دلوانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ وائر ل ہونے والی تصاویر کے مطابق الیکشن کی رات سے ہی پاکستانیوں کے لیے جو غیر معروف شخص عمران خان کے ساتھ نظرآرہا ہے۔ یہ برطانوی کاروباری شخصیت اور پراپرٹی ٹائیکون انیل مسرت ہی ہیں۔یہ وہ ہی انیل مسرت ہیں جن کی بیٹی کی شادی میں عمران خان سمیت بھارتی اداکاروں نے بھی شرکت کی۔
تحریک انصاف کے چیئرمین اور متوقع وزیراعظم کے ساتھ ہر وقت دوستوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر شخصیت پاکستانیوں کے لیے جانی پہچانی بن جاتی ہے۔ لیکن الیکشن کی رات سے جو غیر شناسا چہرہ عمران خان کے ساتھ نظرآرہا ہے یہی تو انیل مسرت ہے۔ جو برطانیہ میں پراپرٹی کا کا م کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر انیل مسرت اور عمران خان کی جو تصاویر شیئر ہوئی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا شمار عمران خان کے خاص دوستوں میں ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ عمران خان نے اپنی فاتحانہ تقریر اسی بزنس مین کی موجودگی میں کی۔جو بھارتی حکمران پارٹی بی جے پی سے وابستہ ایک بزنس مین کے بھی خاص دوست ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جنڈال اپنی ذاتی دوستی کی بنیاد پر کسی پاکستانی سے ملے تو وہ غدار ٹہرایا جائے جبکہ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے بزنس مین کا خاص دوست انیل مسرت پاکستان کے متوقع وزیراعظم کے ساتھ بیٹھے تو کسی کو بھی کوئی اعتراض نہ ہو جو کئی رازوں سے پردہ اٹھانے کے کا فی ہے، ویسے تو ہمارے ملک کی سیاست میں بزنس گروپس کی مداخلت یا بیرونی امداد کا آنا نئی بات نہیں ماضی میں اس قسم کے الزامات ملک ریاض جیسے پراپرٹی ٹائیکون پر بھی لگ چکے ہیں ایک زمانہ تھا جب ممبران اسمبلی کی خریداری کے لیے بولیاں لگائی جاتی تھیں اس وقت فی ممبر ایک کروڑ کی آواز سن کر کسی نے کہا کتنے شرم کی بات ہے یہ صورت حال تو ایسی ہے کہ اگر کسی دشمن کی جیب میں دو ارب روپے ہوں تو ممبران اسمبلی کو خرید کروہ بھی پاکستان کا وزیراعظم بن جائے اس قسم کی خبروں کے منظر عام پر آنے سے ہر پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ پاکستانی سیاست دان کوکیوں کر کبھی سعودی شہزادوں اور کبھی قطری خطوط کا سہارا لینا پڑتا ہے، لوگ یہ بھی سوچنے پر مجبور ہیں انیل مسرت اور عمران خان کے درمیان ایسا کون سا تعلق جس کی بنیاد پر موصوف ہمارے متوقع وزیر اعظم کے ساتھ گھل مل رہے ہیں ،ضروت اس امر کی ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان فوری طور سوشل میڈیا پر آنے والی ان خبروں کی وضاحت کریں وگرنہ یاد رکھیں کہ پاکستانی قوم کسی بھی ایسے اقدام کی حمایت نہیں کر تی جس کے پیچھے بیرونی ہاتھ ملوث ہو۔