نون۔ الف
انتخابات ہو چکے ہیں مگر گرد بیٹھنے میں کچھ وقت لگے گا۔ نیا پاکستان اور پرانا پاکستان بالآخر ہم آہنگ ہو ہی جائیں گے۔ تاہم اس بارے میں کچھ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اس میں کتنا وقت صرف ہوگا۔ رواں ماہ کے وسط تک قومی و صوبائی اسمبلیوں کے کامیاب امیدواران اپنا حلف پاکستانی آئین پر اٹھا چکے ہوں گے۔ کون دیکھتا ہے کہ ان اراکین نے اور ان کے پشت پر موجود قوتوں نے پاکستان کے آئین کی کس قدر دھجیاں اڑائیں ہیں؟ مگر یہ بھی کیا کم ہے کہ اب اسی پیوند لگے اور رفو کردہ آئین پر حلف اٹھانے کی توفیق میسر آنے والی ہے۔
موجودہ انتخابات کے حوالے سے تبصرے اور تجزئیے آ چکے ہیں۔ مزید کی بھی گنجائش موجود ہے۔ لیکن اصل بات جو غور کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ان انتخابات میں کس کے ایجنڈے پر عمل ہوا ہے ؟
پاکستان اور پڑوسی ملک ہندوستان میںیہ خیال کیا جاتا ہے کہ انتخابات عوام کے ایجنڈے پر ہوتے ہیں۔ یہ محض خام خیالی ہے۔ اگر حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو سب عالمی قوتوں کے ایجنڈے ہیں جن پر عمل درآمد مقامی افراد اپنی اپنی رائے دیکر کرتے ہیں۔ سب سے پہلے دیکھیں کہ روس کے کئی حصوں میں منقسم ہوجانے کے بعد طاقت کا توازن ایک ہی ملک کے حق میں چلا گیا اور یوں امریکانے 1992 میں باوجود اپنے اقتصادی بحران کے ” نیو ورلڈ آرڈر ‘ کا نعرہ لگا کر درحقیقت تیسری دنیا کے ممالک اور باا لخصوص مسلم ممالک کو اس ایجنڈے پر چلنے کی تلقین بزور طاقت کی۔ اس نیو ورلڈ آرڈر کا اصل ٹارگٹ یہ تھا کہ تمام دنیا امریکاکی سپرمیسی بالادستی تسلیم کرتے ہوئے امریکی نظام میں آجائے یا اسی طرز پر اپنے مذہبی و خاندانی نظام کو اپنالے۔ جس قدر گھن گرج کے ساتھ امریکاکی جانب ” نیو ورلڈ آرڈر ” کا حکم آیا تھا اسی قدر تیزی کے ساتھ تیسری دنیا میں اس کی تعمیل اور سر تسلیم خم کردینے کا عمل ہوا۔ ماسوائے چند ایک ممالک کے جن میں ترکی سر فہرست تھا۔
جن ممالک میں نیو ورلڈ آرڈر کے خلاف عوامی آواز بلند کی گئی ان سب کو داخلی بحران میں مبتلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ جن میں اقتصادی پابندیاں اور داخلی خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا کی گئی۔ پاکستان میں پرویز مشرف نے سب سے پہلے امریکی حکم پر سر تسلیم خم کیا۔ جس کے بعد خلیجی ممالک اور پھر آہستہ آہستہ سعودی عرب بھی امریکاکی غلامی میں داخل ہوگئے۔
نیو ورلڈ آرڈر تو محض عنوان ہے, مگر اس کی ذیل میں بہت سا ری خواہشات تھیں جن پر عمل درآمد یقینی بنانا مقصود تھا۔ جن پر اب تک کام کیا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر
1- سب سے پہلے نیو ورلڈ آرڈر کے تحت دنیا بھر میں اسلامی فنڈامنٹل ا زم ( بنیاد پرستی ) جسے دوسرے الفاظ میں مذھب سے دیوانہ وار رغبت یا لگاؤ کہا جاسکتا ہے۔ کا مکمل خاتمہ
2- مہذب معاشرے میں equity مساوات برابری کا برتاؤ ہونا چاہیے چنانچہ اس آڑ میں مرد اور عورت کے درمیان تفریق ختم کی جانی چاہیے
3- خاندانی نظام اور بزرگوں کا احترام جیسے قدامت پسند رویوں سے جتنا ہوسکے اجتناب برتا جائے۔
4- دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی کو ختم ہونا چاہیے
5- دنیا ایک گلوبل ولیج ہے۔ لہٰذا نظام اور مملکت کا انتظام بھی ایک ہی ایجنڈے پر چلنا چاہیے
مندرجہ بالا نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب جائزہ لیں کہ آخر ہمارے ساتھ کھیل کیا کھیلا جارہا ہے ؟
دہشت گردی کا جس قدر تسلسل کے ساتھ جو شور مچایا گیا اور مسلم قوم کو بحثیت مجموعی دہشت گردی کا لیبل لگا کر جس طرح بدنام کیا گیا میڈیا کے ذریعے سب سے زیادہ ” مولوی اور مدارس ‘ کو ہدف بنا یا گیا یہ سب بلاوجہ نہیں تھا۔ سرکاری و غیر سرکاری وسائل کی بدولت مستقل بنیادوں پر ہونے والی میڈیائی لہر نے مولوی اور دینی مدارس کے خلاف ایک بھرپور فضا بنائی۔ اور نیو ورلڈ آرڈر کی مخالفت کرنے والے مولوی کو مذہبی جنونیت کے لبادے میں دکھا یا گیا۔
equity یعنی مساوات و برابری میں عورت مرد کے برابری کے حقوق کے نام پر جنسی بے راہ روی اور با ہم اختلاط کو مسلم معاشرے کے لیے قا بل قبول بنانے میں بھرپور کوششیں کی جاتی رہیں جو بالآخر خاصی حد تک قبول عام بھی حاصل کرتی جارہی ہیں
صدیوں سے قائم خاندانی نظام کو کس قدر زک پہنچائی گئی ہے اس کا اندازہ ہر فرد کو اچھی طرح ہے۔ ڈراموں اور میڈیا کے ذریعے ایک یا دو بچے کا نعرہ اور مہمات کی حکومتی سطح پر پذیرائی اور ان کے لیے بیرونی فنڈنگز کا انبار بھی بلآخر اپنا رنگ دکھانے لگا ہے۔
اب آتے ہیں اصل نکتے کی جانب کہ موجودہ انتخابات میں جو نتائج سامنے آئے ہیں ان میں درحقیقت کس کا ایجنڈا کامیاب ہوا ہے۔ ؟؟؟
بہت سے سادہ لوح یہ سمجھ رہے ہیں کہ ” تبدیلی ” اور” نیا پاکستان” واقعی پاکستان میں حقیقی تبدیلی لانے کا ضامن ہوگا۔
اصل بات یہ ہے کہ امریکاکے پاس عمران خان کی شخصیت کے کرزمے (کرشماتی شخصیت ) کو کیش کروانے کے لیے ان سے بہتر کوئی چوائس تھی ہی نہیں۔ یہ ہی وہ پودا تھا جس کی پچیس سال آبیاری کی گئی۔
نیو ورلڈ آرڈر کے تحت دے گئے پروگرام اور چارٹر پر عمران خان کی بدولت خاصی حد تک عمل درآمد کروادیا گیا- ” پرانا پاکستان ‘ کی جگہ نیا پاکستان اصل میں اس جدوجہد کی نفی تھی جو پاکستان کے لیے کلمہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر چلائی گئی تھی۔ اس کے مقابلے پر ” نیا پاکستان ” مدر پدر آزادی اور جنسی بے را ہ روی کا ماڈل بنا کر پیش کیا گیا اور پھر اس کے جو مظاہر کھلے بندوں ان کے سیاسی جلسوں میں اور اندرونی محافل میں دیکھنے اور سننے کو ملے ایشیا کی تاریخ میں آج سے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں ہوا تھا۔
اسلام آباد کے دھرنوں میں جس طرح کے حقائق سامنے آئے وہ لکھتے ہوئے قلم کپکپا جا تا ہے۔ تحریک انصاف کے اندر کی گواہیاں ہی ان کو بیان کرنے کے لیے بہت کافی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اسی طرح اب تک جو خفیہ داستانیں زبان زد عام ہیں اللہ معاف کرے ، سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اب معاشرے نے ان داستانوں اور بے رہ روی کی کھلی نشانیوں کو برا سمجھنا بھی ترک کردیا ہے۔
مولوی جس کو پہلے ہی بدنام کیا جا چکا تھا ، ان انتخابی نتائج کے ذریعے اسے یہ پیغا م پہنچایا گیا ہے کہ اب آپ معاذ اللہ ” قصہ پارینہ ‘ بن چکے ہیں۔
مولویوں کے مقابلے پر جس طرح کے امیدواروں کی سلیکشن کی گئی ہے وہ بھی ایک پیغا م ہے کہ اس معاشرے میں قبولیت کا درجہ ” ہم جنس پرست ، اداکار ، زانی ، شرا بی اور چور اچکوں کو تو مل سکتا ہے مگر شریف ، پاکباز اور اللہ کی سپرمیسی ماننے والوں کے لیے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں بنتی !
2018 کے انتخابات کے نتیجے کو کسی سیاسی جماعت کے ایجنڈے کی کامیابی سمجھنے والے ” نیکو کار” لوگوں اور جماعتوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ موجودہ کامیابی تحریک انصاف کی نہیں بلکہ ” امریکی ایجنڈے” کی کامیابی ہے۔
پہلے تو شان رسالت میں گستاخی اور ختم نبوت کے قانون کو ختم کرنے میں اس جماعت کا صرف نام ہی آیا تھا جو ” لٹمس ٹیسٹ ” تھا۔ جس میں پی ٹی آئی نے سو نمبروں سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اب باری ہے قادیانیوں کو مسلمان تسلیم کروانے اور اسکولوں کی سطح ” ناچ گانے ” کی کلاسز کی آزادی کی۔ اور اس کے بعد ” ہم جنس پرستی ” کو قانونی کور فراہم کرنے کی۔
انشاللہ اگلے کالم میں بات کریں گے کہ ہمیں ان حالات میں کرنا کیا چاہیے؟ اللہ حافظ۔ آپ کا نون۔الف