بند کرو یہ سوشل میڈیا۔۔۔!۔

569

سلمان علی
کیا تماشا لگا رکھا ہے ۔حد ہو گئی ۔اخبارات، فلم، ریڈیو،پھر حد ِتفریح بڑھاتے ہوئے ٹیلی ویژن،اُس کے مقامی چینل کم پڑے تو پھر لگائی لیڈ، بوسٹر ، ڈش اینٹینا، کیبل ، سیٹلائٹ ٹی وی کی بھرمار کردی، انٹرنیٹ ویب سائٹس کا سمندر حدیں پھلانگتا ہوا آگیایوٹیوب، نیٹ فلکس کلچر اور اتنا گرے کہ ’ڈارک ویب ‘تک بات پہنچ گئی،مگر ان سب میںسوشل میڈیا (پلیٹ فارمز)نے تو انسانی آنکھ اور اسکرین کے تعلق کو لازم و ملزوم کردیا۔کیا بچے ،کیا بڑے ۔کیا بوڑھے ،کیا جوان ،مرد ہوں کہ خواتین سب اپنے اطراف سے بے خبر اسکرین کے اٹوٹ رشتے سے جڑ ے نظر آتے ہیں۔
کوئی اسے ٹیکنا لوجی کا سفر کہتا ہے، کوئی جدیدیت کے تقاضے، کوئی ماڈرن ازم، کوئی مشین ایج، گلوبل ولیج کے ضمن میںاس سفر کو گردانتا ہے توکوئی حصول معلومات کا آسان ذریعہ کہتا ہے۔اسی طرح کوئی بد تہذیبی ،اخلاقی گراوٹ ،گلوبلائزیشن بھی قرار دیتا ہے ۔ مگر بنانے والوں کے نزدیک جو میں اب تک سمجھ سکاہوں وہ صرف ایک ہی بڑامقصد ہے ۔وہ ہے پیسہ کمانا،یعنی دولت کا حصول ہی اَوّل و آخر ہے اور اس کے لیے اُن کے نزدیک کوئی یا کسی قسم کی حد نہیں۔اس لیے اس پورے نظام کو سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں۔ کیونکہ ان سب کے پیچھے اُنہیں حقیقت میں ’مال کمانے ‘ سے مطلب ہے، میڈیا اُن کے نزدیک ایک انڈسٹری ہے جس پر وہ ایک لگا کر سو کمانا چاہتے ہیں،اُس کی نئی نئی راہیں نکالتے ہیں۔اس لیے یہ کوئی ایسی فحاشی عریانی پھیلانے کی منظم سازش نہیں ہے، اگر اُن کو یہ سمجھ آجائے کہ یہ پیسہ کپڑے پہنانے سے ملے گا تو وہ آپ کو افریقہ کے صحرا میں بھی سوئیٹر اور جیکٹ پہنا دیں گے ۔ویسے سرمایہ دارانہ نظام کو ہلکا مت لیجیے گا یہ جگہ کے حساب سے اپنارنگ و روپ بدل لیتا ہے، کیسے ؟ وہ بعد میں تفصیلی مثالوںسے سمجھائیں گے۔فی الحال یوں سمجھیں الیکٹرانک میڈیا میں جس طرح ریٹنگ کی دوڑ لگی ہوتی ہے ،لوگ زیادہ دیکھیں تو اشتہار زیادہ ملیں گے ، اُسی سے وہ چینل پیسہ کمائے گا،جیسے حالیہ الیکشن کے دنوں میں پاکستانی نجی ٹی وی چینلز پر پانچ لاکھ روپے فی منٹ کااشتہار چلا ہے ۔اسی طرح انٹرنیٹ کی دنیا میں اب لائکس، سبسکرائبر ، ویوز کی دوڑ لگی ہے۔یہ سب شہرت کے لیے تو ہوتا ہی ہے کیونکہ جب لوگ دیکھیں گے تب ہی لایک کریں گے اور اُ ن کو دیکھنے پر مجبور کر دینے والی ویڈیوز جب آپ اُس سائٹ پر ڈالیں گے تو ہی اُسے ویوز ( ناظرین )ملیں گے ۔ سنا ہے 25بلین ڈالر میں گوگل نے فیس بک کے بڑے حصص خریدے ۔
یہ جو یو ٹیوب کی وڈیوز کے اکثر شروع میں آپ لوگ دیکھتے ہوں گے ’بیل آئیکون پر کلک کریں‘ ، سبسکرائب کرنے پر زور دیا جاتا ہے ، اُس سب کے پیچھے گوگل کی جانب سے آفر کردہ ڈالروں کی آفر ہوتی ہے جناب ،جو آپ کو نہیں بلکہ ویڈیو ڈالنے والے کو دی جاتی ہے ، سادہ لفظوں میں انٹرنیٹ اشتہار کاری ہے ۔جو انٹرنیٹ کی دنیا میں ہر سوپھیل کر سرایت کر چکی ہے۔جو لوگ ٹی وی اشتہارات سے بچ کر مکمل ڈرامہ یا کوئی پروگرام یو ٹیوب پر دیکھنا چاہتے تھے اب وہ بھی یو ٹیوب پر کئی اقسام کے اشتہارات دیکھنے پر مجبور ہیں ( مگر پانچ سیکنڈ بعد اسکپ کرنے کی سہولت کے ساتھ) ۔
یہ معاملہ اب صرف معاشی نہیں ، بلکہ اس کے خطرناک پنجوں نے ہماری سیاست، معاشرت ،تعلیم سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔اب چونکہ سارے معاملات انسانی ہیں، اس لیے دھڑا دھڑ نت نئے سنگین مسائل بھی وقت کے ساتھ سامنے آتے ہیں ۔یہ بھی جان لیں کہ فی زمانہ ، حصول مال کے ساتھ سیاسی اقتدار و قوت کے تانے بانے بھی مضبوطی سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔اس کی کئی مثالیںاگلی کسی تحریر میں جمع کر کے پیش کریں گے۔ویسے اب یہ تو آپ جان ہی گئے ہونگے کہ سماجی میڈیا ،پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے مقابلے میںبے شمار قدغنوں (پالیسی سنسر )سے آزاد ہوتا ہے ۔ جس کا جو جی چاہے اپ لوڈ کر دے۔طنز و مزاح پر مبنی میمز سے لے کر وی لاگ تک لائیو ویڈیو سے لے کر فوٹو شاپ امیج تک خود ساختہ یا فارورڈ شدہ مواد تک سب کچھ پوسٹ کیا جا سکتا ہے ۔اسی میں جب معاملہ سیاسی ہوجائے یا اہل اقتدار کے لیے مسائل پیدا کرے تو سب کی نیندیں اُڑجاتی ہیں،خصوصاً الیکشن مہمات میں یا کسی سیاسی مہم کے دوران جیسا کہ ہم نے حالیہ دنوں پاکستان میں دیکھا۔
ابھی کچھ دن قبل ہی بھارت نے واٹس ایپ کو دوسری مرتبہ قانونی نوٹس جاری کر کے جعلی خبروںکے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کہا ہے بصورت دیگر سخت قانونی کارروائی کی دھمکی بھی دی ہے۔یہ معاملہ ایک ارب سے زائد آبادی والے پڑوسی ملک کا ہے ، جہاں اس سماجی میڈیا کے صرف ایک پلیٹ فارم (واٹس ایپ)کے استعمال سے شدید سیاسی، سماجی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ واٹس ایپ پر ڈالی گئی خبر درست ہے یا نہیں اس کا فیصلہ واٹس ایپ کیسے کرے گا؟بک وقت اربوں ،کھربوں ٹیکسٹ ، امیج، ویڈیو ،آڈیو پیغامات کی ترسیل میں سے کیسے درست یا غلط خبر کا فلٹر لگائے گا؟ویسے گذشتہ دنوں واٹس ایپ نے نئے فیچر متعارف کراتے ہوئے ’فارورڈ شدہ میسیج ‘کی نشاندہی کرنا شروع کر دی ہے۔اسی طرح گروپس میں صرف ایڈمن کو پوسٹ کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے ۔مگر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ بھارت کی ریاست جھاڑ کھنڈ کے ایک شہر سے پوسٹ شدہ خبر اصلی ہے یا جعلی اس کا فیصلہ امریکہ میں بیٹھی ہوئی واٹس ایپ انتظامیہ کیسے اور کتنی دیر میں کرے گی؟اسی طرح فیس بک کی جانب سے صارف کاڈیٹا ( معلومات)لیکیج کے خلاف 2013سے آئر لینڈ کے شہری میکس نے مقامی عدالت میںفیس بک کے خلاف ایک کیس داخل کیا تھا،جسے اب ’آئرش سپریم کورٹ ‘اس ماہ فیس بک کی اپیل پر سماعت کرے گی۔
آج کا تازہ موضوع سماجی میڈیا پر سنسر شپ کے حوالے سے رکھا تھا مگر طوالت کی وجہ سے اس کو تفصیلی صفحات لے کرآئندہ کسی ہفتے دہرائیں گے ۔فی الحال آپ کو بتاتے ہیںکہ اب سماجی میڈیا پر سنسر کی باتیں ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ویسے پاکستان میں بھی اس ( جھوٹی خبروں)کا کلچر تیزی سے پھیل رہا ہے۔تازہ مثال ( نواز شریف این آر او والی ہے جو کہ صرف ایک غیر مصدقہ واٹس ایپ کو ٹی وی اسکرین پر بتانے سے شروع ہوئی )۔اسی طرح نواز شریف کے فلیٹ کی مالیت کے حوالے سے اور کیس کی غلط تفصیلات و اعداد و شمار جان بوجھ کر سماجی میڈیا پر پھیلائی جاتی رہیں۔خود الیکشن کی شب نتائج کے موقع پر یقیناً سب نے دیکھا کہ ایک جانب تمام سیاسی جماعتیں نتائج نہ ملنے پر چلا رہی ہیں،دوسری جانب ٹی وی اسکرین پر نتائج نشر ہو رہے ہیں۔اس حوالے سے ہمارے استاد نعمان انصاری لکھتے ہیںکہ ’’تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ میڈیا (دونوں سوشل اور مین سٹریم میڈیا) اور ان پر پھیلنے والی جعلی خبریں ملک میں انتخابی عمل کو متاثر کر سکتی ہیں۔ جعلی خبریں دنیا بھر میں نئی بات لگتی ہیں جس کا سنہ 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں انکشاف ہوا اور اس کے بعد سے اس پر بحث جاری ہے۔پاکستان میں تمام سرکردہ سیاسی پارٹیوں کے سرگرم سوشل میڈیا سیل ہیں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ اپنی سوشل میڈیا حکمت عملی کے طور پر اپنی پالیسیوں کی اشاعت اور اپنے بیانیہ کو پیش کرنے کے لیے سینکڑوں جعلی فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹس چلاتی ہیں۔سارہ خان کہتی ہیں: ’غلط معلومات بطور خاص سوشل میڈیا پر گمراہ کن ہو سکتی ہیں۔ اس لیے یہ میں سٹریم میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ جعلی خبروں کی تردید کرے اور ووٹرز کی مناسب رہنمائی کرے۔‘
لیکن مین سٹریم میڈیا میں صحافت کی کوالٹی کو دیکھتے ہوئے کیا وہ ایسا کرنے کی اہل ہے؟ اس کے جواب میں سہیل ورائچ کہتے ہیں کہ یہ خاصا مشکل کام ہے۔
انھوں نے کہا: ‘مین سٹریم میڈیا منقسم اور گروہوں میں بٹا ہوا ہے۔ وہ جانبدار ہیں۔ اس لیے اس بات کی توقع بہت کم ہے کہ وہ جعلی خبروں کا مقابلہ کر سکیں گے۔‘
احمد بلال محبوب کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا کی رسائی دس سے 15 فیصد لوگوں تک محدود ہے اس لیے مین سٹریم میڈیا ہی آنے والے انتخابات میں رائے عامہ بنانے اور موڑنے کا کام کرے گا۔‘
چلیں ایک تازہ مثال سے بتاتے ہیں ۔ ہوا یوں کہ ایک ہوتے ہیں ’الیکس جونز‘، جن کا بنیادی تعارف ، امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر آسٹن سے نشر ہونے والے ایک ریڈیو پروگرام کے میزبان کا ہے ، مگر وہ ’سازشی نظریہ ابلاغ ‘کے ایک گرو کے طور پر بھی جاتے ہیں ۔ اس کے لیے انہوں نے اپنی ایک ویب سائٹ ’انفو وارز‘ بھی بنائی ہے ،( جو بنیادی طور پر اب ایک بڑے ویب ٹی وی کا درجہ پا چکی ہے )،اس میڈیم سے وہ اپنے ’خود ساختہ ‘نظریات کا بھر پور پرچار کرتے ہیں۔مختلف امریکی ویب سائٹس نے ان کے ناظرین کی تعداد 70 سے80 لاکھ بتائی ہے ۔آسان لفظوں میں سمجھانا چاہوں تو یہ بالکل ایسا ہی شو ہے جیسا ہمارے ملک میں ’عامر لیاقت ‘ کا کرنٹ افیئرز پر سو لو شو آتا ہے ۔ان کے نظریات کے مطابق امریکہ نے خود ہی اوکلاہوما شہرمیں 1995میں بمباری اور نائن الیون کا ڈرامہ رچایا تھا۔اس کے علاوہ وہ اور کئی ایشوز پر اپنی ایک خاص رائے رکھتے ہیں۔امریکہ میںگن رائٹس کے وہ بڑے ایڈووکیٹ ہیں،مسلمان ،سیاہ فام پر تنقید سے وہ کبھی باز نہیں آتے ۔بہر حال فیس بک اور ایپل نے بتایا کہ موصوف کی مستقل ’ ہیٹ اسپیچ‘یعنی کسی خاص فرد،گروہ کے خلاف نفرت آمیز اور عوام کو بھی نفرت پر اُبھارنے والا مواد نشر کرنے کے باعث ’جونز ‘ کے کئی پیجز کو اس ہفتہ بند کر دیا ہے ۔اُن صاحب نے ایپل اسٹور پر اپنی موبائل ایپلی کیشن لانچ کر دی اور ایک ہفتے میں ہی وہ وائرل ہو گئی ۔
اب اس پابندی ، جھوٹی خبروں کی اشاعت وغیرہ کے تناظر میںفیس بک کی کیا کہتا ہے یہ دیکھ لیں۔مونیکا بکرٹ، فیس بک کی عالمی پالیسی مینیجمنٹ کی ہیڈ اس حوالے سے کہتی ہیںکہ،
“We don’t allow hate speech on Facebook because it creates an environment where people feel personally attacked, where they won’t feel comfortable coming and sharing themselves.The one thing that we don’t remove is where someone simply asserts something false,” Facebook tries to counter the virality of such content or tries to promote or make visible other views.Facebook, also considers local regulations while blocking content on the platform.”And we also block the speech where countries have told us, ‘this is illegal in our country’, then we will remove that speech in that country alone”.
فیس بک کے اس موقف کے ساتھ اس موضوع سے آگے بڑھتے ہیں۔اس ہفتہ پاکستان میںالیکشن کے بعد ہونے والی مبینہ دھاندلی پر الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے غیر جانبداری کا مظاہرہ نہ کرنے پر خوب لعن طعن کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا فضل الرحمٰن کا انٹرویو نشر نہ کرکے ،پھر بعد میں اُن کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے بلکہ یون کہیے کہ ملکی سیاسی اپوزیشن کے ساتھ میڈیا کا بھی اپوزیشن والا رویہ سامنے آیا۔ٹوئٹر پر اس حوالے سے جے یو آئی کی جانب سے پہلی بار ’’کنٹرولڈّمیڈیاّنامنظور‘‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ایک بھر پور مہم دیکھنے کو ملی ۔یہ سلسلہ اس ہفتہ مزید زور پکڑے گا کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن کے جشن آزادی منانے کے ایک بیان کو جس طرح سے الیکٹرانک میڈیا پیش کر رہا ہے وہ خود مولانا اور حزب اختلاف سمیت مذہبی قوتوں کو کو یکجا کرنے کا سبب بنے گا۔عمران خان کی جانب سے اس ہفتہ مزید ایک تقریر نے سماجی میڈیا پر توجہ بنائی ۔پروٹوکول کے بغیر پشاور کی سڑکوں پر گھومنے کی ویڈیو بھی خاصی وائرل رہی جس پر ناقدین نے چن چن کر پروٹوکول والوںکو نشان زدہ کرکے دکھایا۔باوجود تمام اعتراجات کے عمران خان سماجی میڈیا پر اپنے مداحوں کی وجہ سے ٹرینڈ لسٹ پر چھائے رہے۔

حصہ