زاہد عباس
’’پروفیسر صاحب! وسیم نے اپنی باتوں کے درمیان عمران خان کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسے خان صاحب کی آنکھوں میں نئے پاکستان کی چمک نظر آتی ہے۔ بقول وسیم کے عمران خان کے ارادے مضبوط ہیں اسی لیے انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو نہ صرف معاف کردیا بلکہ ہارنے والوں کو حلقے کھلوانے کی دعوت بھی دے دی۔ پروفیسر صاحب! وسیم کو حلقے کھلوانے اور سیاسی مخالفین کو معاف کردینے کی بات تو یاد رہی لیکن این اے 131 میں دوبارہ گنتی کے لیے خواجہ سعد رفیق کی جانب سے دی گئی درخواست کے خلاف عمران خان کا سپریم کورٹ سے لیا جانے والا حکمِ امتناعی یاد نہیں، یہ اپنی کہی ہوئی بات پر یوٹرن نہیں تو اور کیا ہے؟ جو شخص اپنی ہی کی ہوئی باتوں پر کھڑا نہ رہ سکے وہ کس طرح ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر بناکر دے سکتا ہے! اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کچھ نہیں کریں گے۔ اور تو اور جنوبی پنجاب صوبہ بنانا تو درکنار، اگر یہ ایک نیا ضلع بھی بنا لیں تو بڑی بات ہوگی۔‘‘
’’خالد! میں نے تم دونوں کی باتیں بڑے غور سے سنی ہیں۔ جو تم کہہ رہے ہو وسیم کی رائے بھی وہی ہے۔ تمہاری باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ تم اس گلے سڑے نظام کے خلاف ہو، تم بھی یہی چاہتے ہو کہ لوٹی ہوئی دولت واپس آئے، تم بھی کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہو، تمہاری خواہش بھی یہی ہے کہ غریب کو اس کی دہلیز پر انصاف ملے۔ اداروں کی بہتری تمہارا بھی خواب ہے، ملکی بیمار معیشت اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری تمہیں بھی بے چین کرتی ہے، ملک میں رائج دہرے تعلیمی نظام اور طبقاتی تفریق کو دیکھ کر تمہارا دل بھی پریشان ہوتا ہے، تمہارا مسئلہ عمران خان نہیں بلکہ وہ فرسودہ نظام ہے جو ترقی اور خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، یعنی تم کرپشن کے خلاف ہو لیکن عمران خان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں، جبکہ وسیم کی رائے کے مطابق یہ کام صرف عمران خان ہی کرسکتا ہے۔ میرے نزدیک تم دونوں کی سوچ ایک ہی ہے یعنی کرپشن مٹاؤ تبدیلی لاؤ۔ تم نے اپنی باتوں میں محکمہ زراعت کا ذکر کیا ہے، سب جانتے ہیں کہ محکمہ زراعت کا کام فصلوں کی بوائی سے متعلق آگاہی دینا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس محکمے کے لوگ درختوں کی کٹائی چھٹائی کاکام بھی خوب جانتے ہیں۔ سنو، پی ٹی آئی کو تبدیلی کے نام پر ملنے والے ووٹوں کی تاریخ نئی نہیں، پاکستانی عوام نے ہمیشہ ہی کرپٹ نظام کی تبدیلی اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا نعرہ لگانے والوں کو ووٹ دیے، یہ الگ بات ہے کہ ہر مرتبہ منتخب ہونے والوں پر خزانہ لوٹنے اور مزید کرپشن کرنے کے ہی الزامات لگے۔ اس نقطے کو سمجھنے کے لیے ماضی کی حکومتوں کی کارکردگی پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے پاکستان کی ساری سیاسی تاریخ پڑھنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنی بات کی ابتدا ضیاء الحق دور کے بعد آنے والی جمہوریت سے کریں۔ اُس وقت بھی لوگوں کی یہی سوچ تھی کہ سیاست دان بحال ہونے والی اس جمہوریت کا فائدہ اٹھاکر ملک سے کرپشن سمیت عوام کی تمام تکالیف دور کریں تاکہ پھر کبھی ملک میں آمریت یعنی فوجی حکومت نہ آسکے، مگر ہر مرتبہ ڈھائی تین سال بعد حکومت کرپشن کے نام پر توڑ دی جاتی، پھر الیکشن کروائے جاتے، پھر انہی دونوں جماعتوں میں سے کوئی ایک کرپشن کے خاتمے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا نعرہ لگا کر انتخابات میں حصہ لیتی اور عوام پھر دونوں بڑی پارٹیوں یعنی مسلم لیگ اور پی پی پی میں سے کسی ایک کو دوبارہ اس شرط پر کہ وہ اقتدار میں آکر عوام سے کیا گیا وعدہ پورا کریں گے، منتخب کرلیتے۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد ہارنے والی جماعت، جیتنے والی جماعت پر دھاندلی کا الزام لگا دیتی، پھر اسمبلیوں میں خرید و فروخت شروع ہوجاتی، فلور کراسنگ یا توڑ جوڑ سے حکومتیں بنتیں اور پھر توڑ دی جاتیں۔ کبھی سپریم کورٹ بحال کرتی تو کبھی ہائی کورٹ۔ اس ساری سیاسی کشمکش کا نتیجہ یہی نکلتا جو آج ہمارے سامنے ہے، یعنی ایک جماعت کی جانب سے دوسرے پر کرپشن کا ہی الزام لگایا جاتا۔ عوام کی جانب سے بار بار ان جماعتوں کو ووٹ دینے کا واحد مقصد لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانا تھا۔
تم یہ بتاؤ کہ میری بات تمہیں پہنچ رہی ہے کہہ نہیں؟‘‘
’’جی پروفیسر صاحب، آپ جاری رکھیں ہم پوری توجہ سے سن رہے ہیں۔‘‘
’’خیر اسی کھیل میں وقت گزرتا گیا اور دونوں بڑی جماعتوں کو تین تین ادوار ملنے کے باوجود بجائے بہتری آنے کے، کرپشن اپنے عروج تک جا پہنچی، اور ہمارا ملک دنیا بھر کے ممالک میں ہونے والی کرپشن کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر آن پہنچا۔ عین ممکن ہے کہ پہلے نمبر پر آجائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے سیاست دان کرپٹ ہیں یا ان پر فقط الزامات ہی ہیں؟ اور اگر واقعی یہ کرپٹ ہیں تو دیکھنا ہوگا کہ انہیں یہ عادت کس نے ڈالی؟ میرے نزدیک اس کی بنیاد سب سے پہلے جنرل ضیاء الحق نے 50 لاکھ روپے فی ایم این اے صوابدیدی ترقیاتی فنڈ کے نام پر رکھی جس کے تحت 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں کامیاب ہونے والے ارکان اسمبلی کو نہ صرف اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا بلکہ ہر بڑے منصب پر ریٹائرڈ جنرل لگا دیئے گئے، اُس وقت کے سیاست دان 50 لاکھ بجٹ کا25 سے 30فیصد حصہ کمیشن کے نام پر کھانے لگے۔ بعد میں یہ تمام غیر جماعتی سیاست دان مسلم لیگ میں شامل ہوتے گئے۔ کرپشن کی عادتیں بڑھتی گئیں، پھر 17 اگست 1988ء کو طیارہ حادثے کے نتیجے میں ضیاء الحق کی حکومت ختم ہوئی اور ملک میں انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات کے نتائج کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت کو واضح اکثریت نہ ملی، اسی لیے پیپلزپارٹی کو حکومت بنانے کے لیے بڑی جوڑ توڑکرنا پڑی۔ چونکہ نہ ہی اکیلے مسلم لیگ اور نہ ہی پیپلزپارٹی حکومت بنا سکتی تھی لہٰذا اس توڑ جوڑ کے نتیجے میں کرپشن مزید پروان چڑھی۔ ظاہر ہے کروڑوں روپے خرچ کرکے اسمبلیوں میں آنے والے کس طرح کرپشن اور لوٹ مار سے دور رہ سکتے تھے! لہٰذا انہوں نے الیکشن پر لگایا گیا پیسہ وصول کرنے کی ٹھان لی اور یہاں سے ہی سیاست میں بکنے بکانے یا فلور کراسنگ جیسے بدنام زمانہ کھیل کا آغاز ہوا، جس کی مثال آزاد حیثیت سے جیت کر آنے والوں کی صورت میں ہمیں آج بھی دیکھنے کو ملتی ہے جو مختلف خیالات رکھنے کے باوجود فقط کرپشن کے ایک نکاتی ایجنڈے کے تحت ہر آنے والی حکومت میں شامل ہوجاتے ہیں۔ خیر بات ہورہی تھی 1988ء کے انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار آنے والی پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت کی، جسے جلد ہی پیپلزپارٹی کے ووٹوں سے صدر بننے والے غلام اسحق خان نے کرپشن کا الزام لگاکر ڈھائی سال میں چلتا کرنے کے ساتھ ہی غلام مصطفی جتوئی کو ملک کا عارضی وزیراعظم بنا کر الیکشن کروا دیے گئے۔ اس طرح مسلم لیگ واپس آگئی۔ جتوئی صاحب پر بھی الزام لگا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کس نے دھاندلی کروائی اور کس نے منصوبہ بندی کی؟ اکثریت نے ایجنسیوں کو موردِ الزام ٹھیرایا اور مسلم لیگ کی حکومت بھی قبل از میعاد ختم کردی گئی۔ اس پر بھی کرپشن کا الزام لگا۔ دیکھ رہے ہو کس طرح مستقل ایک ہی الزام یعنی کرپشن کو بنیاد بناکر حکومتیں ختم کی جارہی ہیں! میں تم دونوں کو یہی تو سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ نعرہ نیا نہیں بلکہ خاصا پرانا ہے۔
چلیے آگے بڑھتے ہیں۔ حکومت کے خاتمے کے بعد اُس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی دائر کردہ درخواست پر سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور مسلم لیگ کی حکومت بحال ہوگئی۔ صدر غلام اسحق خان نہ مانے، آخرکار صدر اور وزیراعظم مستعفی ہوگئے۔ بعدازاں معین قریشی کو امریکا سے بلوا کر نگران وزیراعظم بنایا گیا۔ الیکشن کروائے گئے، الیکشن کا نتیجہ اب پیپلزپارٹی کے حق میں گیا۔ نئے صدر پھر پیپلزپارٹی کے ووٹوں سے سردار فاروق احمد خان لغاری بنے، مگر انہوں نے بھی اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو آدھی میعاد سے پہلے ختم کردیا۔ گویا پیپلزپارٹی کی حکومت دوسری مرتبہ اپنے لائے ہوئے صدر کے ہاتھوں ختم ہوئی، الزام وہی پرانا یعنی بدعنوانی کا تھا۔ اس مرتبہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو، ان کے شوہر آصف علی زرداری، تمام وزراء اور بیوروکریٹس سمیت تمام ہی لوگ زبردست کرپشن میں ملوث بتائے گئے۔
پھر الیکشن ہوئے۔ مسلم لیگ نے اگرچہ صرف 14فیصد ووٹ حاصل کیے، باقی جماعتوں نے 12فیصد ووٹ لیے، مگر دوتہائی اکثریت مسلم لیگ کو ملی جس کو تاریخ میں سب سے بڑے مینڈیٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس مضبوط مینڈیٹ رکھنے والی حکومت کے ساتھ کیا ہوا؟ وہی بدعنوانی اور کرپشن کا الزام اس کے حصے میں آیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ تمام حکومتیں کرپٹ تھیں جو کہ تھیں، تو پہلے نگران وزیراعظم غلام مصطفی جتوئی، اور دوسرے نگران وزیراعظم معین قریشی، سابق صدر غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری نے ان کرپٹ سیاست دانوں کا محاصرہ کیوں نہ کیا؟ انہیں کیوں کھلا رہنے دیا؟ محض الزامات سے کیا فائدہ ہوا؟ علاج کرنے کے بجائے مرض کو بڑھایا گیا جس سے ان کے حوصلے بلند ہوتے گئے۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پیسے جاتے رہے۔ وہ کیوں خاموش رہے؟ یا بات کچھ اور تھی جس کو چھپایا جاتا رہا۔ جو بھی تھا، مگر یہ بات اپنی جگہ سچ ہے کہ عوام نے ہمیشہ تبدیلی اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے نعرے کو ہی ووٹ دیا۔ اس وجہ سے وہ خاموش رہے اور کرپٹ سیاست دانوں کی باتوں میں آکر اپنے ملک کے وسائل کو بچانے کی خاطر بار بار انہیں ہی منتخب کرتے رہے۔ اس لیے جولائی میں ہونے والے الیکشن کے نتائج کا عمران خان کے حق میں آنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں، اور نہ ہی ان نتائج کو پی ٹی آئی کی کارکردگی سے نتھی کیا جاسکتا ہے۔ تبدیلی کے نعرے مارنے والوں کو کام کرنا ہوں گے۔ عمران خان نے پہلے ہی عوام کی امیدوں کو آسمان کی بلندی تک پہنچا دیا ہے۔ لوگوں کو نئے پاکستان کا خواب دکھا کر اُس جگہ پہنچا دیا ہے جہاں سے ناکامی جمہوری نظام کے لیے انتہائی خطرناک ہوگی۔ عمران خان کو اب کام کرنے ہوں گے، سو دن میں جنوبی پنجاب صوبہ بنانا ہوگا، اپنے اقتدار کے دوران ایک کروڑ نوکریاں دینا اور 50 لاکھ مکان بنانا ہوں گے، کرپشن سے پاک معاشرے کی تشکیل کے ساتھ ساتھ قومی خزانے سے لوٹے گئے تین ہزار کروڑ سمیت سوئٹزرلینڈ میں جمع اربوں روپے لانے ہوں گے، غریبوں کو ان کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے، اپنے وعدے کے مطابق معاشرے کی تربیت کرکے پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانا ہوگا، تبھی عوام کو اس تبدیلی کے ثمرات مل سکیں گے جس کا خواب بانیانِ پاکستان نے دیکھا تھا۔‘‘