ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا!۔

978

’’یکم ذی الحج سے قبل اپنے بال اور ناخن ترشوا لیں۔‘‘
یہ میسج سوشل میڈیا پر کثرت سے گردش کرتا رہا، یقینا آپ کو بھی کئی بار مل چکا ہوگا۔
مسلمان اس سنت کا احترام کرتے ہیں۔
کوئی فرد سوچ سکتا ہے کہ شریعت کو ہمارے بالوں اور ناخنوں سے کیا لینا دینا…؟
اصل میںیہاں ایک لطیف پیغام دینا مقصود تھاکہ اگر حج پر جانے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی تو کم از کم حاجیوں کی سی مشابہت ہی اختیار کرلو، ایک چھوٹی سی مشابہت یہ کہ بال اور ناخن نہ تراشو، جب ناخنوں پر نظر پڑے گی فوری خیال آئے گاکہ نہیں تراشنا، کیونکہ حاجی نہیں تراش رہے۔ بال بے ترتیب بڑھ بھی گئے ہیں تو ہیئر کٹنگ سیلون کا رخ نہیں کرنا کیونکہ حاجی بھی یہ کام نہیں کررہے۔
حاجی تو بال اور ناخنوں کو نہ تراشنے کے علاوہ بہت کچھ کر بھی رہے ہیں، شریعت چاہتی ہے کہ ان معمولی ظاہری اعمال سے ہمارا اصل فوکس حج پر رہے۔
حاجی تو ایسے پاک ہوجائیں گے جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا بچہ۔ حاجی تو سچی توبہ کریں گے، میدانِ عرفات میں گڑگڑائیں گے، اپنے اگلے پچھلے گناہوں کی معافی مانگیں گے… سابقہ زندگی کی نافرمانیاں فلم کی طرح جب ان کی نگاہوں کے سامنے آئیں گی تو کیسے کیسے وہ نادم ہوں گے، ملامت کریں گے اپنے نفس کو، جو گناہوں کی لذت میں ڈوبا رہا۔ آہ! میدانِ عرفات کیسے اٹھاتا ہے اب حجاب نظروں کے سامنے سے… اسی لیے تو اس جگہ کو میدانِ عرفات اور اس دن کو یومِ عرفہ کہاگیا کہ اس دن انسان کو اپنی ذات کا عرفان عطا ہوتا ہے، وہ اپنے نفس کو ’’اے نفس‘‘ کہہ کر مخاطب کرنے کے قابل ہوجاتا ہے… تبھی تو حاجی بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہے ہوتے ہیں عرفات کے میدان میں۔ کیا یاد آتا ہے انہیں، بلکہ کیا کیا نہیں یاد آتا ہوگا انہیں…! گناہ چھوٹے تھے یا بڑے، بات یہ نہیں ہے… بات تو یہ ہے کہ نافرمانی کس عظیم ہستی کی کی گئی۔ اللہ نے اپنے مہمانوں کو اسی لیے یہاں بلایا ہے کہ خود کو پاک کرنے کی فکر کریں۔ سچی توبہ کرکے رخصت ہوں۔ شیطان لعین کو شعوری کنکر مار کر جائیں۔ اسی لیے تو وہ پکار رہے ہیں لبیک اللھم لبیک…اپنے حاضر ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔
وہ مسلسل دیوانہ وار طواف کرکے اپنی محبت کا ثبوت دیں گے، بندگی کے عزم کو بیدار کریں گے۔
دس دن وہ عہدِ الست کی یاد تازہ کریں گے۔ ایک نیا انسان جنم لے گا اُن کے اندر۔ اس دوران نہانے، دھونے، بال اور ناخن تراشنے کا انہیں ہوش ہی کہاں ہوگا! بس ایک ہی سودا سر میں سمایا ہوگا کہ حاضری لگ جائے، حاضری قبول ہوجائے، درماندہ نہ لوٹا دیے جائیں، کہیں لبیک کے جواب میں آسمانی ندا نہ آجائے کہ لا لبیک ولا سعدیک… نہیں تم حاضر نہیں ہو، تم سعادت سے محروم ہو۔ اسی لیے تو خاک آلود بکھرے بالوں، دو سفید کپڑوں میں ملبوس دیوانہ وار پکار رہے ہیں کہ لبیک اللھم لبیک… مولا حاضر ہوگیا ہے تیرا بندہ… تیرا مہمان ترے در پر۔
اس کی گناہ گار پیشانی ترے در پر جھکی ہوئی ہے، وہ بے بسی سے ناک رگڑ رہا ہے، دل شکستہ لے کر حاضر ہوا ہے… اسی وارفتگی اور آہ وبکا کے سبب تو وہ پاک ہوجائیں گے جیسے ابھی ولادت ہوئی ہو۔
ہم بھی دن میں پانچ بار حاضری دیتے ہیں۔ حی علی الفلاح… فلاح کے طالب دوڑ دوڑ کر جاتے ہیں فلاح کی طلب میں۔ روز کی حاضری لگ رہی ہے، مگر اس حاضری کو کب ہم جی جان سے محسوس کرتے ہیں، کب اس ذات کی عظمت سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں…؟ جس جائے نماز پر نماز پڑھتے ہیں اس پر خانہ کعبہ بنا ہوا ہوتا ہے، پھر بھی کب خود کو اس گھر میں محسوس کرتے ہیں…!
ان دس دنوں میں ہی کچھ مماثلت حاجیوں کے ساتھ ہوجائے کہ وہ کس درجہ انہماک کے ساتھ حاضری کی جستجو میں ہیں… ان کا رواں رواں لبیک پکار رہا ہے۔
ان دس دنوں میں بال اور ناخن تراشنے سے روکنے کے حکم کی حکمت حاجیوں سے حقیقی مشابہت کی فکر ہے، نہ کہ کسی ظاہری فعل کی ضرورت۔
ظاہری فعل میں تو روزہ بھی مطلوب نہیں… اگر جھوٹ بولنا اور اس پر عمل نہ چھوڑا تو روزہ بھی بھوک اور پیاس کی مشقت ہی ٹھیری… یا ایمان و احتساب کی روح کے بغیر شریعت کہتی ہے کہ یہ ایک لاحاصل مشق ہے۔ کہہ دیاگیاکہ قربانی کے جانور کا نہ خون مطلوب ہے نہ بال، فقط تقویٰ مطلوب ہے… نیت کی پاکیزگی سے غرض ہے۔
یہ نظام عبادات تو ایک نیا انسان بنانا چاہتا ہے… وہ بندۂ مومن جس کی ہر لحظہ نئی آن، نئی شان ہوتی ہے… جو کردار اور گفتار میں اللہ کی برہان ہوتا ہے۔
دوسری صورت میں اگر دین کے غلبے کی نہ اپنی ذات پر فکر ہو نہ نظام پر تو اقبال کا شکوہ ہم ہی سے ہے کہ
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام
حج کا مہینہ روح کی پاکیزگی کا مہینہ… نئی نسل بھی اپنی روح کی بالیدگی کی طرف متوجہ ہے… اور اس وقت…
یہ NED یونیورسٹی کا آڈیو وژول سینٹر ہے جو طالبات سے بھرا ہوا ہے۔ انجینئرنگ پڑھنے والی بچیاں اس وقت بھاگتی دوڑتی یہاں پہنچ رہی ہیں۔ کچھ کے ہاتھ میں پانی کی بوتلیں ہیں، کسی کے ہاتھ میں کتابیں، کوئی چپس کا پیکٹ تھامے ہوئے ہے… پتا نہیں ان لاابالی لڑکیوں میں کون سویرے ڈھنگ سے ناشتا کرکے آتی ہوگی۔
میرے بچوں کی صبح تیاری میں آخری ترجیح میز پر پڑا ناشتا ہوتاہے۔ فریج کھولا، سیب اور پانی کی بوتل لے کر ’’امی سوری، ناشتے کا وقت نہیں، خداحافظ‘‘ کہہ کر رخصت…
اس عمر کی اپنی ہی ادائیں ہوتی ہیں۔ اپنی خوابوں و خیالوں کی دنیا… مگر آج یہ الہڑ سی لڑکیاں ایک انتہائی سنجیدہ موضوع پر غوروفکر کرنے کے لیے… کچھ کلاس لے کر،کچھ لیب سمیٹ کر،کچھ اسائنمنٹ ادھورا چھوڑ کر… یہاں پہنچی ہیں۔
سامنے بورڈ پر تحریر ہے Healing the soul..
تو گویا اس کم عمری میں یہ محسوس کرتی ہیں کہ بھاگتے دوڑتے جسموں نے روحوں کو شاید کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے لہٰذا کچھ وقت روحوں کی بالیدگی پر بھی صرف کیا جائے!!
ماقبل بڑی سی اسکرین پر لمحہ لمحہ منظر بدل رہے تھے اور دورانِ ورکشاپ یہ سوچ رہی تھیں کہ مردِ مومن کیسے غوطہ زن ہوتے ہیں قرآن میں۔
میں نے ان چمکتی پیشانیوں اور روشن چہروں سے سوال کیا کہ کیا تشخیص ہوگئی ہے کہ روح پر کیا گھاؤ لگے ہیں؟ درد کو درماں درکار ہے تو درد سے آگہی لازمی ہے۔
اس ذہین اور سرمایۂ افتخار نسل نے بتایا کہ وہ healing کس چیز کی چاہتی ہیں؟
یہ سوچتے ذہین، حساس بچے… ان کا حق تھا کہ ان کی رہنمائی کی جاتی۔ درجنوں ٹی وی چینلز کی رات دن کی نشریات… نہ معلوم کس کا ماؤتھ پیس ہے یہ میڈیا!
ٹی وی چینلز پر کتنا وقت ہم اس ذہین نسل کو دیتے ہیں؟ ان کے ایشوز پر بات کرتے ہیں؟
کب شکوہ، جوابِ شکوہ پر ہم ان سے بحث کرتے ہیں… ان سولہ برسوں میں کبھی ان کو کلیاتِ اقبال پڑھائی گئی ہوگی؟
معذرت کے ساتھ، استاد کمرۂ جماعت میں آتے بھی ہیں تو اپنے نصاب، امتحانی پرچہ، مضمون اور ڈگری سے آگے کوئی بات ہی نہیں کرتے۔
اس نسل کو ہم چھوڑ چکے انٹرنیٹ کی دنیا میں… ان کے کیرئیر کو ہم نے روزی روٹی کے حصول تک محدود کردیا…
نیٹ کی جس دنیا کے یہ باسی ہیں وہ انہیں تنہائیوں میں دھکیل رہی ہے یا سرابوں کے حوالے کررہی ہے…
ان کے پاس وقت بھی نہیں اپنے بڑوں کے پاس بیٹھنے اور انہیں سننے کا…
یہ ذہین دماغ، کلام کرتی آنکھیں… یہی تو اصل اثاثہ ہے، ہمارا روشن مستقبل…
ان سے بہر صورت دوستی کرنا ہوگی… ان کی روحوں میں جھانکنا ہوگا… کیونکہ یہ فکرمند ہیں اور پکار رہی ہیں کہ ہم آگے بڑھیں` ان کی healing the soul کے لیے اپنا کردار پہچانیں۔

حصہ