ڈاکٹر نثار احمد نثار
کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی نے 21 جولائی 2018 کی شام نوجوان شاعر شبیر نازش کے پہلے شعری مجموعے ’’آنکھ میں ٹھیرے ہوئے لوگ‘‘ کی تقریب پزیرائی کا اہتمام کیا جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر قاسم رضا صدیقی نے کی۔ مقررین میں ڈاکٹر آفتاب مضطر‘ اکرم کنجاہی‘ خرم سہیل اور حنیف عابد شامل تھے۔ نظامت کے فرائض آئرن فرحت اور موسیٰ کلیم نے انجام دیے‘ تلاوت کلام مجید کی سعادت آصف الیاس نے اور نعت رسول کی سعادت صغیر احمد جعفری نے حاصل کی۔ سید منیف اشعر نے منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ صاحبِ صدر نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ شبیر نازش ادبی منظر نامے میں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں یہ بڑے بھرپور انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں ان کے موضوعات زندگی سے جڑے ہوئے واقعات‘ مسائل کا احاطہ کرتے ہیں لیکن ان کے ہاں ’’عشق‘‘ ایک توانا استعارہ ہے جس کو شبیر نازش نے مختلف زاویوں سے استعمال کرکے لوگوں کو چونکا دیا ہے۔ ان کی غزلیں اور نظمیں ادب کی فنی و جمالیاتی آداب سے آراستہ ہیں یہ نئے اسلوب اور نئے مضامین کی تلاش میں مصروف رہتے ہیں‘ انھیں لفظوں کی نشست و برخاست کا ڈھنگ آتا ہے۔ اکرم کنجاہی نے کہا کہ شبیر نازش کے کلام کا مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ شاعری میں پوری توانائی کے ساتھ ’’In‘‘ ہیں۔ یہ غزل کی بنیادی تہذیب سے وابستگی کے ساتھ ساتھ معاشرتی مسائل پر بھی اشعار کہہ رہے ہیں ان کے ہاں متنوع فکریات کی حامل جدید حسیت سے مزین نظمیں پائی جاتی ہیں۔ انھوں نے کسی کا لب و لہجہ نہیں چرایا بلکہ ان کا اپنا انداز فکر ہے جو انھیں اپنے ہم عصر شعرا سے ممتاز کررہا ہے ان کا مستقبل روشن ہے۔ حنیف عابد نے کہا کہ شبیر نازش کا انداز بیاں دلفریب اور جان دار ہے‘ یہ ہمارے عہد کا ابھرتا ہوا شاعر ہے اس کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ یہ بڑی بڑی باتیں نہیں کرتا بلکہ اپنے کلام سے لوگوں کے دلوں میں گھر بنا رہا ہے اس کی شعری عوامی شاعری ہے یہ مشاعروں میں بھی خوب داد وصول کرتا ہے اس نے مشکل بحروں میں بھی اشعار کہے ہیں اور سہل ممتنع میں بھی اس کی نظمیں میں جدیدیت ہے اس کے وضع کردہ استعارے اس کی ذہنی سطح کو اجاگر کر رہے ہیں۔ زبان و بیان پر بھی شبیر نازش کی دسترس ہے۔ خرم سہیل نے کہا کہ شبیر نازش نے غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں کمال کے اشعار نکالے ہیں اس نے کم لکھا ہے لیکن معیاری کلام کہا ہے۔ اس کی شاعری میں زندگی اپنی گوناں گوں صفات کے ساتھ جلوہ گر ہے‘ اس کے یہاں نظم مُعّرا‘ آزاد اور نثری نظمیں موجود ہیں جو قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتی ہیں اس نے دل کش پیرائے میں شعری محاسن کے ساتھ شاعری کی ہے۔ ڈاکٹر آفتاب مضطر نے کہا کہ شبیر نازش کی شاعری مثبت جذبوں کا اظہار ہے اس کی غزلیں جدید لفظیات و استعاروں سے منور ہیں کتاب کے ہر صفحے پر کوئی نہ کوئی شعر آپ کی توجہ کا مرکز و محور بن جائے گا۔ علاء الدین خان زادہ نے خطبۂ استقبالی پیش کرتے ہوئے کہا کہ کراچی پریس کلب ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کا حصہ لیتا ہے ہم بلا تفریقِ رنگ و نسل ادب کی آبیاری میں مصروف ہیں ہمارا مقصد ادب کی ترویج و اشاعت ہے اسی تناظر میں ہم تسلسل کے ساتھ ادبی تقریبات ترتیب دے رہے ہیں۔ ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ شبیر نازش نے اپنا کلام سنا کر سامعین سے خوب داد و تحسین حاص کی اس موقع پر انھوں نے کراچی پریس کلب کے عہدیداران و اراکین کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے ان کے لیے تقریب پزیرائی کا اہتمام کیا۔ تقریب میں کراچی کے ہت سے اہم قلم کار شریک تھے راقم الحروف کے نزدیک یہ ایک کامیاب تقریب تھی جس کا کریڈٹ کراچی پریس کلب کے نام ہے۔
دُعا علی شاعری میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے‘ پروفیسر انوار احمد زئی
دُعا علی میرپور خاص میں رہائش پزیر ہیں ان کے تین شعری مجموعے ’’روشنی بھی فریب دیتی ہے‘‘ ، ’’دسمبر کی کی اداس شامیں‘‘ اور ’’مجھے بارش سے کہنے دو‘‘ منصۂ شہود پر آچکے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب راقم الحروف کل سندھ مشاعرہ میں شرکت کے لیے میرپور خاص گیا تھا تو ان سے ملاقات ہوئی ان کے فن اور شخصیت کے بارے میں پروفیسر انوار احمد زئی نے لکھا ہے کہ جب نوید سروش نے دعا علی کا پہلا شعری مجموعہ ’’روشنی بھی فریب دیتی ہے‘‘ مجھے دیا تو مجھے ایسا لگا کہ جیسے فکر کی جانب کھلنے والی کھڑکی سے دھوپ کی نئی کرن اپنے ساتھ تازہ ہوا وہ جھونکا لائی ہو جس میں بیلے‘ چنبلی اور موگرے کی زندگی آموز خوشبو گندھی ہوئی ہو اور جس کے عنوان ہی میں تازگی ہو۔ روشنی کا فریب عجب مشاہداتی استعارہ ہے جو مطالعاتی حوالے پر غالب محسوس ہوتا ہے۔ دعا علی کی بنیادی شناخت نیا پن ہے۔ قرینے اور سلیقے کے اہتمام کے ساتھ ندرتِ اظہار کے باعث یہ بات ترقی کریں گی۔ میرے نزدیک یہ بنیادی طور پر نظم کی شاعرہ ہیں ان کی نظموں میں ان کے سن و سال کے تقاضوں کے تحت ہجر و وصال‘ خواب و خیال‘ نشاط و ملال اس طرح ملے جلے چلتے ہیں کہ خوبخود پاتال و کمال سے ہم آہنگ زندگی آمیز ہچکولوں کی تصویر بن جاتے ہیں ان کے ہاں خواب اور ہجر کا بڑا گہرا حوالہ ہے جو بار بار زندگی کی سچائیوں کے رنگوں کو بے رنگ و بارِ خزاں آمادہ کرتا ہے اور امید و رجا کی رعنائیوں کے متضاد رنگوں سے گوندھی گئی سعیٔ جمیل کا گوشوارہ اور میزانیہ دونوں نظر آتے ہیں۔ انھوں نے کہیں کہیں انگریزی زبان کے ایسے الفاظ کو جو کہ اب نئی نسل کے ڈکشن کا حصہ بن چکے ہیں مثلاً ایک جگہ انھوں نے بزی Busy کو نظم کی روانی کے حوالے کیا تو یہ اسی دیار میں گم صدف کا موتی بن گیا۔ نظم کی وسعتوں میں اس بات کی گنجائش رہتی ہے کہ صنفِ نازک کھل کر اپنے جذبوں کا اظہار کرسکیں جس میں قدیم روایات کے تحت چاہے جانے کی لذت سے زیادہ چاہنے کی آسائش کا خمار ملتا ہے۔ دعا علی اسی قبیل کی شاعرہ ہے جو اپنی ذات میں واشگاف‘ پیار کرنے ‘ چاہنے اور چاہتے رہنے اور اپنی چاہت کے جدا ہونے پر ہجر کی صدیوں کو وصل کے لمحوں سے بدلنے پر آمادہ رہتا ہے۔ یہ طرز ذات اندرون کا سچا اظہاریہ ہے اور اس رعایت سے دعا علی سچ کی آنچ ہی کو حدت اور شدت سمجھتی ہے۔ ڈاکٹر جاوید منظر کے نزدیک دعا علی کی شاعری دبستان شاعری کو خوب صورت نظمیں دیتے ہوئے نئے فکری رویے کی بنیاد رکھی ہے دورِ حاضر میں نئی نسل نے غزل کو اپنی فکر کا محور بنایا ہے جہاں لہجوں کی یکسانیت کے باعث غزل کے منفرد لہجے نایاب ہو گئے ہیں۔ دعا علی کی نظمیں پڑھنے کے بعد مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ وہ نظم کہنے کا ہنر جانتی ہے مجھے یقین ہے کہ آنے والا دور نظموں کے حوالے سے دعا علی کو فراموش نہیں کر سکے گا۔ نوید سروش نے راقم الحروف کو بتایا کہ دعا علی کی نظموں میں ہمیںخاندان ایک اکائی کی صورت میں نظر آتا ہے مگر یہ نظمیں رشتوں کی محبت اور بے اعتباری کی تصویریں بھی ہیں۔ خواہشات کا پورا نہ ہونا‘ عدم تحفظ اور ہر قدم پر اپنے کم تر ہونے کا احساس تلخیوں کو جنم دیتا ہے شاعرہ نے انہی روّیوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے ان کی نظموں کا تاثر دیرپا ہے ان کے ہاں قنوطیت نہیں ہے بلکہ تمام تر مشکلات اور نامساعد حالات کے باوجود زندگی سے پیار کی فضا نظر آتی ہے۔ ان کی تخلیقات میں پختگی ہے موضوعات کا تنوع ہے اور لفظوں کو برتنے کا سلیقہ ذرا مختلف ہے ان کی رومانی نظمیں دل میں اتر جاتی ہیں کیونکہ ان کی شاعری زندگی سے جڑی ہوئی ہے۔ دعا علی کی غزلوں میں زندگی سے براہ راست وابستہ مثبت اور منفی رویے‘ رشتوں کا تقدس اور پامالی اور بہتری زندگی کی مسلسل کوشش نمایاں طور پر دیکھی جاسکتی ہے جب کہ ماضی کو فراموش کیے بغیر مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے لمحۂ موجود میں خواہشات کی تکمیل کی امید کے ساتھ زندگی بسر کرنا ان کا نظریۂ فن ٹھہرتا ہے وہ شعوری طور پر کوشش کرتی ہیں کہ کسی بھی موضوع پر لکھیں اسلوب عام فہم ہو تاکہ باآسانی ابلاغ ہو سکے میں سمجھتا ہوں کہ دعا علی ایک کامیاب شاعرہ کے طور پر سامنے آئی ہیں امید ہے کہ یہ آگے بڑھیں گی۔