ادبی تنظیم اردو مجلس کراچی کی روح رواں بیگم نادرہ آفتاب نبی گزشتہ 35 برسوں سے اپنے والد خواجہ محمد شفیع مرحوم کی یاد میں ہر ماہ ایک شعری نست کا اہتمام کر رہی ہیں۔ ایک زمانے میں ان کے مشاعروں کی بڑی دھوم تھی وقت اور حالات کی تبدیلی کے باعث ان مشاعروں کی رونقیں کم ہوگئی ہیں تاہم یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ مشاعرہ ہر مہینے کے آخری سنیچر کو ہوتا ہے۔ شعرائے کرام کو آمدورفت کی سہولت فراہم کی جاتی ہے گزشتہ ہفتے منعقدہ مشاعرے میں حامد علی سید (صدر مشآعرہ) علی اوسط جعفری‘ انور جاوید ہاشمی‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ طاہر سلیم سوز‘ سعدالدین سعد (ناظم مشاعرہ) الحاج نجمی‘ ہما بیگ‘ قمر جہاں قمر‘ علی کوثر‘ عاشق شوکی اور مہتاب صدیقی نے اپنا اپنا کلام پیش کی۔ بیگم نادرہ آفتاب نبی نے تلاوتِ کلام مجید اور نعت رسولؐ کی سعادت حاصل کی اس موقع پر انھوں نے کہا کہ مشاعرے اردو زبان و ادب کی ترقی میں بہت اہمیت کے حامل ہیں ہر زمانے میں یہ ادارہ موجود ہوتا ہے تاہم ادبی سرگرمیوں کا تعلق سماجی روّیوں سے ہے اب ہماری نوجوان نسل کی ترجیحات میں مشاعرہ شامل نہیں ہے۔ اب فیس بک‘ یو ٹیوب‘ گوگل اور دیگر الیکٹرانک میڈیا نے کتب بینی کو ڈسٹرب کیا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی ادبی روایات کو نوجوان نسل تک منتقل کریں صاحب صدر نے کہا کہ خواجہ محمد شفیع دہلوی ہمہ جہت انسان تھے وہ اردو کے معتبر قلم کاروں میں شامل تھے جب تک وہ زندہ رہے اردو ادب کی پرورش میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ان کی رہائش گاہ پر باقاعدگی سے ادبی تقریبات منعقد ہوتی رہیں۔ انھوں نے مزید کہ اکہ مشاعرے ہماری ضرورت اس پُر آشوب دور میں ذہنی نشوونما کے لیے مشاعرے کسی جن کا کام کر رہے ہیں مشاعروں میں ہر طبقۂ زندگی کے لوگ شریک ہوتے ہیں ہم ایک دوسرے کے مسائل اور حالات سے واقف ہوتے ہیں گیٹ ٹو گیدر ہوتی ہے اور ادب کی خدمت بھی ہوتی ہے جو لوگ مشاعرے کرا رہے ہیں وہ قابل مبارک باد ہیں۔
اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کا مذاکرہ و مشاعرہ
اکادمی ادبیات پاکستان کی زیر اہتمام بلوچی زبان کے صوفی شاعر حضرت مست توکلی کی یاد میں محفل مشاعرہ اور خصوصی لیکچر کا انعقاد اکادمی کے کراچی دفتر میں کیا گیا جس کی صدارت اردو زبان کے معروف کالم نگار‘ دانشور‘ ادیب‘ شاعر سرور جاوید نے کی۔ مہمان خاص پشتو زبان کے معروف شاعر مردان سے آئے اقبال نذر تھے۔ اعزازی مہمان سید صغیر احمد جعفری‘ شگفتہ شفیق‘ ذیشان الطاف لوہیہ تھے۔ صدر محفل سرور جاوید نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین پر جابجا صوفیائے کرام کے مزار ہیں لوگ صدیوں سے بڑی تعداد میں ان کی زیارت کو آتے ہیں اور لافانی نغمے بھی گاتے ہیں جو ان کے دلوں کو تسکین پہنچاتے ہیں۔ شاہ لطیف بھٹائی ہو‘ حضرت قلندر شہباز ہو‘ بابا بلھے شاہ ہو یا رحمن بابا ہو اسی طرح بلوچستان میں بھی بلوچی زبان کے معروف شاعر حضرت مست توکلی کا مزار موجود ہے۔ مست توکلی بلوچی زبان کے صوفی شاعر ہیں اور برصغیر میں تصوف کی بنیادی روایت کے ساتھ بہت مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں صوفیائے کرام کے کلام کی طرح متنوع اور وسیع ہے۔ مست توکلی کے کلام کا امتیاز یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنے زمانے کے بلوچستان میں بلکہ آج بھی اپنے عوام کے لیے رجائیت کا نقیب ہے اور مثبت اقدار کے فروغ کے سلسلے میں اس کی تاثیر بے حد مؤثر اور طمانیت بخش سمجھی جاتی ہے۔ مہمان خاص پشتو زبان کے معروف شاعر اقبال نذیر نے خصوی لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ مست توکلی کے پاس الفاظ کا ذخیرہ اتنا بڑا ہے کہ وہ کسی دوسرے بلوچ شاعر کے پاس نہیں ہے یہ الفاظ بغیر محنت کے بھی اترتے ہیں اور دروزہ میں مبتلا کرکے بھی نازل ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے ایسے بے شمار الفاظ ملتے ہیں جو شاعر پہ بہت دبائو ڈال کر خلق ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے بلوچی زبان کی ادب میں ایسے لافانی نقوش چھوڑے ہیں جن کی آب و تاب آج بھی نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے کہا کہ مست توکلی کے کلام میں جمالیاتی عناصر ایسے رچے بسے ہیں کہ انھیں کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مست توکلی کے ہاں ایک او امتیازی وصف توجہ طلب ہے کہ انھوں نے اپنے معاشرے کی مجبور و مظلوم عورت کو نجات کی راہ دکھائی یہ پہلو مست توکلی کو اس روایت کے دوسرے شعرا سے جداگانہ اور بلند مقام عطا کرتا ہے۔ مست توکلی نے وصیت کی تھی کہ انہیں ٹکیل پہاڑ پہ دفن کیا جائے مگر جس اونٹ پر میت رکھی تھی وہ میدان گرمی نامی ہموار جگہ پر جا کر بیٹھ گیا لوگوں نے تمام جتن کیے کہ اسے ٹکیل پہاڑی کی جانب جانے پر آمادہ کی اجائے مگر اونٹ وہاں سے نہ اٹھا چنانچہ وہیں ان کی تدفین عمل میں لائی گئی قبر جو کھودی گئی اور میں اس میں رکھی گئی تو مٹی جتنی ڈالتے قبر بھرتی نہ تھی مجبوراً موجودہ سردار خیر بخش مری کے والد سردار مہراس خان کو بلوایا گیا (یا ان کی چادر ان پر ڈالی گئی) تو قبر خاموش ہوئی اور تدفین مکمل ہوئی۔ آخر میں مشاعرہ منعقد کیا گیا جس میں ملک کے نامور شعرا نے اپنا کلام سنا کر مست توکلی کی عظمت کو خراج عقیدت پیش کیا۔ قادر بخش سومرو نے آخر میں ادکامی ادبیات پاکستان کی جانب سے شکریہ ادا کیا۔