شریکِ مطالعہ

1154

نعیم الرحمن
افسانہ نگار، شاعر اور دانشور مبین مرزا کے ’’مکالمہ‘‘ کا شمار اردو کے صف ِ اوّل کے ادبی جرائد میں کیا جاتا ہے۔ ’’مکالمہ‘‘ تین دہائیوں سے باقاعدہ شائع ہورہا ہے۔ چند سال قبل مکالمہ کے دو جلدوں میں شائع ہونے والے افسانہ نمبر نے دھوم مچائی تھی۔ یہ بلاشبہ اردو کے بہترین افسانہ نمبروں میں سے ایک تھا۔ پھر گزشتہ سال مبین مرزا نے مکالمہ کو ماہنامہ بنادیا۔ ادبی جریدے کا تین ماہ بعد باقاعدگی سے شائع ہونا دشوار ہوتا ہے، لیکن مبین مرزا نے مکالمہ کو بخوبی ہر ماہ شائع کرکے قارئین کی بھرپور داد حاصل کی۔ بارہ شمارے مکمل ہونے پر مکالمہ کا ضخیم اور مجلد سالنامہ شائع کیا ہے جو 576 صفحات پر مشتمل ہے۔
حرف ِ آغاز میں مبین مرزا نے ’’ادب کی سماجیات اور ہمارا عہد‘‘ پر اداریہ تحریر کیا ہے، لکھتے ہیں کہ ’’وجہ خواہ کچھ ہو، لیکن یہ سچ ہے کہ ہمارے یہاں فی زمانہ ادب سے زیادہ ادب کی سماجیات پر زور صرف کیا جارہا ہے۔ بعض اوقات تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ادب کی سماجیات کو بجائے خود ادب سمجھ لیا گیا ہے، اُس نے مقصد کا درجہ اختیارکرلیا ہے۔ ویسے تو سچ یہ ہے کہ ہم اب ایک عجیب دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ التباس اور مخمصے کا دور ہے۔ ایجادات، ترقی اور سہولتوں کی فراوانی کے اس سفر میں انسان اب ایک ایسے مرحلے سے گزر رہا ہے کہ جب اُس کی راہ میں آنے والے مناظر نے اُس کے اندر التباس کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ اصل اور نقل، جھوٹ اور سچ، کھرے اورکھوٹے میں فرق اِس حد تک مشکل ہوگیا ہے کہ بہت سے معاملات میں فوری طور پر اور وثوق سے کچھ طے کرنا ممکن نہیں رہا‘‘۔ بہت فکر انگیز تحریر ہے جو سوچ کے دَر وا کرتی ہے۔
سالنامے کا افسانوی حصہ تقریباً پچاس صفحات پر مشتمل ہے جس میں سات افسانہ نگاروں کی 9 تخلیقات دی گئی ہیں۔ اسد محمد خان نے ’’ٹکڑوں میں کہی کہانی‘‘ میں اپنے دادا کے پیر بھائی کا منفرد اور انتہائی دل چسپ واقعہ بیان کیا ہے۔ مسعود اشعر کا افسانہ ’’اندھیرے کا سفر‘‘ یورپی ممالک میں پاکستانیوں کے دیگر مذاہب کے لوگوں سے اچھے روابط کے بارے میں ہے، اب وہاں بھی انتہا پسندکس طرح ان تعلقات کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ بہت عمدہ افسانہ ہے۔ رشید امجد مختصر افسانہ ’’کچے چاک کا نشان‘‘ لے کر آئے ہیں۔ فاروق خالد نے ڈچ ناولوں کے بہت عمدہ اورخوب صورت تراجم کیے ہیں اور اردو ادب کے قارئین کو ایک نئے لطف سے متعارف کرایا ہے۔ ان کے افسانے کا عنوان ’’رشوت‘‘ ہی سب کچھ ظاہر کردیتا ہے۔ اس موضوع پر فاروق خالد نے بہت عمدہ افسانہ تحریرکیا ہے جس میں قاری کے لیے پیغام بھی موجود ہے۔ حالیہ کچھ برسوں میں اخلاق احمد بہت اچھے افسانہ نگارکے روپ میں سامنے آئے ہیں۔ حال ہی میں ان کے افسانوں کا پانچواں مجموعہ ’’جانے پہچانے‘‘ شائع ہوا ہے۔ اخلاق احمد کے کردار ہمارے آس پاس ہی بستے ہیں۔ ’’کہانی باؤلے خالو کی‘‘ بھی ایسی ہی تحریر ہے۔ طلعت حسین پاکستان کے مشہور اور سینئر صداکار و اداکار ہیں جنھوں نے ریڈیو، ٹی وی، فلم اور تھیٹر ہر شعبے میں اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔ مکالمہ کے سالنامے میں طلعت حسین افسانہ نگارکے طور پر سامنے آئے ہیں۔ تین مختصر اور اچھے افسانوں میں وہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہیں۔ یہ سلسلہ قائم رہنا چاہیے۔ حمیرا اشفاق کا ’’حصار‘‘ بھی عمدہ افسانہ ہے۔
شاعری کا حصہ سینئر شاعر ظفر اقبال کی آٹھ غزلوں سے شروع ہوتا ہے۔
کسی کو یاد رکھنا بھی، کسی کو بھول جانا بھی
بہانے زندہ رہنے کے یہی دو چار ہیں میرے
میں اِن لوگوں کی ہاں میں ہاں ذرا کم ہی ملاتا ہوں
سو یوں ہی تو نہیں یہ در پئے آزار ہیں میرے
محمد سلیم الرحمن کی نظم اور توصیف تبسم کی غزل بھی دل میں اترتی ہیں۔ خورشید رضوی کی 9 غزلیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ ان کا انتخاب کرنا مشکل ہے۔ لیکن چند اشعار پیش ہیں:
سخن وری بھی، فقیری بھی، پادشاہی بھی
سب ایک آگ میں جھونکے گئے بچا نہیں کچھ
یہ گرد بادِ حوادث ہے، کس کو چھوڑتی ہے
یہ تند سیلِ زمانہ ہے، دیکھتا نہیں کچھ
خواجہ رضی حیدرکی 6 اور جلیل عالی کی 4 نظمیں بھی دامنِ دل کھینچتی ہیں۔ اکبر معصوم کی غزلیں بھی بہت عمدہ ہیں۔ عطا الرحمن قاضی کی ایک نظم ’’یادِ فراموش‘‘ انتظارحسین کے نام ہے جس کاایک بند بطور نمونہ درج ہے:
آئی یہ کس کی یاد کہ منظر بدل گیا
دیوارِ ہجر دیکھی گُل پوش ہو گیا
اِک بجھتی لالٹین حویلی کے صحن میں
کن آہٹوں کی یاد میں خاموش ہو گئی
اور جمیل ادیب سید کی نظم… غرض شاعری کا پورا حصہ بہترین ہے۔ اس کے بعد نجم الحسن رضوی، جنہیں مرحوم لکھنا بہت مشکل لگتا ہے، کے ناول ’’مٹی کا درخت‘‘ کے دو باب دیے گئے ہیں، اور نجیبہ عارف کی تصوف پر مبنی منفرد تحریر ’’راگنی کی کھوج میں‘‘ کی آخری قسط ہے۔ ’’راگنی کی کھوج میں‘‘ بہت جلد کتابی صورت میں شائع ہورہی ہے۔
خصوصی مطالعہ میں چھ مصنفین کے سات مضامین ہیں۔ پروفیسر فتح محمد ملک نے یاسمین حمید کے طرزِ احساس پر بہت خوب صورت مضمون لکھا ہے۔ اکادمی بازیافت نے حال ہی میں یاسمین حمید کی فکر انگیز نظموں اورغزلوں کا عمدہ انتخاب ’’ہم دو زمانوں میں پیداہوئے‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ زاہدہ حنا نے ہاجرہ مسرور کی تحریروں کا عمدہ تجزیہ ’’آخری اسٹیشن آگیا‘‘ کے عنوان سے کیا ہے، جب کہ ڈاکٹر ضیا الحسن نے اختر رضا سلیمی کے مختصر ناول ’’جندر‘‘ کا جائزہ پیش کیا ہے۔ اختر رضا سلیمی نے پہلے ناول ’’جاگے ہیں خواب میں‘‘ سے ہی اپنے فن کا لوہا منوا لیا تھا۔ ’’جندر‘‘ ان کا مختصر، منفرد اور یادگار ناول ہے جو قاری کو جکڑ لیتا ہے۔ ڈاکٹر امجد طفیل نے جنوبی افریقی نوبیل انعام یافتہ ناول نگار جے ایم کوٹسی کے ناول ’’وحشیوں کا انتظار‘‘ سے اردو قارئین کو متعارف کرایا ہے، اور کیا خوب تعارف ہے کہ ناول کی جستجو شروع کردیتا ہے۔ صدیق عالم نے اس کا ترجمہ کیا ہے، ایک شان دار ناول جسے قارئین کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ خوب صورت شاعر سلمان صدیقی نے احفاظ الرحمن کی نظموں کے مجموعے ’’محبت کم نہ ہونے دو‘‘ کا مطالعہ کیا ہے۔ احفاظ الرحمن ہر ظلم اور ہر حادثے پر اپنی نظموں کے ذریعے آواز اٹھاتے ہیں۔ احفاظ الرحمن کی نظم ’’سنگ دل شہرکا ایک قصہ‘‘ کی آخری سطریں مضمون میں شامل ہیں:
سننے والے سبھی لوگ گونگے تھے، بہرے تھے، نابیناتھے
اور سب خوف اور مصلحت کا کفن اوڑھے خوابیدہ تھے
خون جو قدموں تلے آ کے روندا گیا
اس کا قصہ بھی دو روز کا قصہ ہے
سنگ دل شہرمیں ایسے قصے سبھی طاقِ نسیاں کی زینت بنے جاتے ہیں
چند سانسیں ہی بس ان کا مقسوم ہیں
کیوں کہ اس شہرکے سارے دیوار و در
خوف اورمصلحت کاکفن اوڑھے خوابیدہ ہیں
بہت اچھے اور حساس شاعر احفاظ الرحمن کے مجموعے کا ایک اور اچھے شاعر سلمان صدیقی نے بہت ہی عمدہ تجزیہ کیا ہے۔ سلمان صدیقی کا دوسرا مضمون سبوحہ خان کی دو کتابوں ’’اب کے ساون گھر آجا‘‘ اور ’’پوتوِ خیال‘‘ کے بارے میں ہے۔ سبوحہ خان کے سفرنامے ’’اپنا دیس اپنے لوگ‘‘، ’’انڈیا انڈیا‘‘ اور ’’محور کی تلاش‘‘ قارئین کی بھرپور تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ ان کے افسانے بھی دل کوچھو لینے والے ہیں۔ سلمان صدیقی درست کہتے ہیں کہ ’’ان کتابوں کے مضامین اور سفر ناموں کی اہمیت اپنی جگہ، مگر جو درد آمیز فسوں گری اور زندگی سے چنا جانے والا اہم انگیز ماجرا ان کی کتاب ’’اب کے ساون گھر آجا‘‘ میں افسانہ و افسوں کے عنوان سے شامل کہانیوں میں موجود ہے اس کا تاثرگہرا، اثر پذیری نمایاں اور اس میں صنفی استحصال کی تصویرکشی باکمال ہے۔ سبوحہ خان کی ذات میں ایک اچھا افسانہ نگار موجود ہے، ان کی گہری مشاہداتی نظر، مزاج کی دردمندی اور زبان کو رواں اسلوب میں برتنے کا ہنر انھیں نمایاں افسانہ نگاروں کی صف میں کھڑا کرتا ہے۔‘‘
پروفیسر نذیر تبسم کے تحقیقی مقالے ’’سرحد کے اردو غزل گو شعرا‘‘ کا جائزہ انجم جاوید نے لیا ہے۔ ظفر اقبال کی آپ بیتی ’’در گزشت‘‘ کی پندرہویں قسط بھی مکالمہ کے سالنامے کا حصہ ہے۔ تراجم میں محمد سلیم الرحمن نے میری شیلی کی کہانی ’’فانی لافانی‘‘ اور احفاظ الرحمن نے ہوانگ زونگ انگ کی کہانی ’’ہنس کی پرواز‘‘ کے تراجم کیے ہیں۔ دونوں مترجمین کے نام ہی عمدہ تراجم کی ضمانت ہیں۔ دونوں تحریریں بہت عمدہ ہیں۔
نوآبادیات اور عالمگیریت پر پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی اور ڈاکٹر سید جعفر احمد کے مضامین بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے اردو سلینگ اورغیر رسمی الفاظ و محاورات کے کچھ نئے اندراجات کیے ہیں۔ صحتِ زبان کے لیے رؤف پاریکھ کے مضامین ہر قاری کو پڑھنے چاہئیں، یہ انتہائی معلومات افزا ہیں۔
سفرنامے کی کمی عارف جمیل کے ’’حاضر سائیں‘‘کی پہلی قسط نے بخوبی پوری کی ہے۔ یہ عمرے کے سفرکی دل گداز داستان ہے جو ابتدا ہی سے قاری پر بھرپور تاثر چھوڑتی ہے۔ عارف جمیل سفرنامہ نگاروں میں ایک اچھا اضافہ نظرآتے ہیں۔
نقدونظر میں محمد سلیم الرحمن نے پانچویں صدی عیسوی کے شاعر اور مفکر پروکلوس پر معلومات افزا مضمون تحریر کیا ہے۔ سید مظہر جمیل نے پروفیسر ممتازحسین کی تنقیدی میراث پر لکھا ہے۔ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے ’’اردو افسانے کے اسالیبِ بیان‘‘ کو موضوع بنایا ہے۔ ڈاکٹر قاضی افضال حسین نے ’’بیدی کی کہانیاں‘‘ پر اچھا مضمون لکھا ہے۔ ڈاکٹر انیس اشفاق، ڈاکٹر سعادت سعید، یاسمین حمید، ڈاکٹر ضیا الحسن، ڈاکٹر ناصر عباس نیر، قاسم یعقوب اور خالد فیاض نے بھی عمدہ مضامین تحریر کیے ہیں۔
یادیں، خاکے، شخصیات میں چند بہت عمدہ شخصیات کا اچھا ذکر ہوا ہے۔ حسن منظر نے اپنی لیگوس کی یادیں ’’اوراقِ بوسیدہ‘‘ کے نام سے تازہ کی ہیں، جب کہ پروفیسر سحر انصاری نے مرحوم ساقی فاروقی کا مختصر ذکر کیا ہے۔ اصغر ندیم سید نے منو بھائی پر خاکہ ’’مجنوں جو مر گیا ہے‘‘ کے نام سے لکھا ہے جو بہت خوب صورت ہے۔ حمیرا خلیق نے ایک عام انسان کا ذکر ’’کچوری والا‘‘ میں کیا ہے، اس کا شمار اردو کے اچھے خاکوں میں کیا جائے گا۔ یہ مکالمہ کے سالنامے کا بہترین حصہ ہے جس میں بہت عمدہ تحریریں شامل کی گئی ہیں۔
آخر میں چند تازہ کتابوں پر تبصرے ہیں۔ صبا اکرام، سلمان صدیقی، انجم جاوید، کرن سنگھ اور فیصل لیاقت علی نے چند عمدہ تصانیف کو قارئین سے متعارف کرایا ہے۔ بہترین اور بھرپور تحریروں سے آراستہ مکالمہ کا سالنامہ ہرادب دوست قاری کے لیے تحفۂ خاص ہے۔

غزل

انوارعزمیؔ
(خواجہ رضی حیدر کی کتاب ’’لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے‘‘ کی تقریب اجرا کے موقع پر کہی گئی)

اگر شاعر اسیرِ زلفِ پیچیدہ نہیں ہوتے
تو پھر ذہنوں میں اشعارِ پسندیدہ نہیں ہوتے
کھلی رکھتے اگر ہم راہ تحقیق و تجسس کی
کواکب قوم کی قسمت کے خوابیدہ نہیں ہوتے
یہ ہے سب سے بڑی خوبی حقیقت آشنائوں کی
کسی کے بھی بہ آسانی وہ گرویدہ نہیں ہوتے
نہیں بنتے کسی صورت وہ سایہ میر و غالب کا
جو اہلِ فن ادب کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہوتے
اگر کچھ سیکھنا ہے پتھروں کے ظرف سے سیکھو
مسلسل ٹھوکریں کھاتے ہیں رنجیدہ نہیں ہوتے
زبانیں غرق ہو جاتی ہیں لمحوںکے سمندر میں
مگر موتی صفت کچھ لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے
وہی تحریر کرتا ہوں جو ہوتا ہے مجھے القا
مرے اشعار فکروں سے تراشیدہ نہیں ہوتے
نہ چلتے قائد اعظم کی راہوں پر کبھی عزمیؔ
اگر خواجہ رضی حیدر جہاں دیدہ نہیں ہوتے

حصہ