امداد اللہ خان نعمانی
کہتے ہیں انسان اس وقت حقیقی معنوں میں ہار جاتا ہے جب وہ ہار تسلیم کرلیتا ہے۔ اچھے سے اچھا با ہمت شخص بھی جب سوچتا کہ اب وہ ہار چکا ہے تو اس سے پہلے شاید وہ ہار کر بھی نہیں ہارا ہوتا وہ اس وقت ہار جاتا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو ہماری زندگی میں ایسے کئی تجربات شامل ہوں گے تھوڑی سی ہمت کرلیتے تو شاید ہمارے حالات بدل جاتے ہیں مگر ایسا نہیں ہوا اور کیوں نہیں ہوا یہ بات بھی واضح ہوتی ہے۔
مشکل حالات انسان کی زندگی کا حصہ رہے ہیں۔ بڑے کارنامے سر انجام دینے والے افراد بھی وقتی طور پر مسائل کا شکار رہے ہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ہم ہمت ہار بیٹھیں۔ محنت اور لگن سے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔ یہ ایک بہترین حل ہے ہمت کے سامنے ہار ماننے سے بچنے کا۔ محنت اور جہد مسلسل بالآخر کامیابی و کامرانی سے سرشار کر دیتی ہے اور راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ختم کردیتی ہے۔ اگر کامیاب شخصیات کو دیکھیں تو ہمیں وہاں سے بھی یہیں پیغام ملتا ہے کہ انسان کی منزل میں مسائل، پریشانیاں اور مشکلات رکاوٹ نہیں بلکہ کامیابی و کامرانی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہیں۔
ایک پل کو اگر ٹھہر کر ہم دیکھیں تو آج کے نوجوان کو ہر طرف مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ چاہیے کسی مدرسے ، اسکول، کالج اور یونیورسٹی کا طالب علم ہو یا پھر کسی آفس، فرم اور دکان پر کام کرنے والا نوجوان ہو۔ سب ہی یا تو ہمت ہار بیٹھے ہیں یا پھر وہ محنت کرنے سے کتراتے ہیں اور اس سب کا سبب وہ اپنے حالات پر ڈال کر اپنی بربادی کا تماشا دیکھتے ہیں۔
آج جب میں اپنے یونیورسٹی کے کلاس روم میں نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے پہلا اور ابتدائی دن یاد آتا ہے۔ تعارفی کلاس تھی اور پوری کلاس کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔ ان ابتدائی لمحات میں سب با ہمت تھے۔ جذبے جواں تھے اور یوں لگتا تھا کہ جیسے یہی وہ نوجوان ہیں جن کی تعبیر اکثر علامہ اقبال بیان کیا کرتے ہیں اور پھر کیا ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ وہ جذبات مدھم ہوتے چلے جاتے ہیں اور پھر کلاس کا کمرہ کچھ ہی روز یا مہینوں میں دو چار طلبہ کی صورت میں نظر آتا ہے۔ کچھ حالات کے دھارے کے ساتھ بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور کچھ خود ہی ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور پھر کسی کام میں جت کر اپنے مستقبل کا رخ ہی بدل ڈالتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا اس کی دو ہی وجوہات ہیں۔ ایک تو وہ طلبہ اپنے مستقبل کا کبھی جائزہ ہی نہیں لیتے کہ انہیں کرنا کیا ہے۔ یہ بات بھی ہماری ہمت توڑنے کے لیے بہت ہے کہ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ کرنا کیا ہے۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ وہ حالات کے ساتھ مقابلہ کرنے کے بجائے حالات کے دھارے میں بہہ جاتے ہیں۔
یاد رکھیں یہیں وہ قیمتی دور ہوتا ہے کہ جب ہمیں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ اپنی منزل کا چنائو کریں اور پھر اس میں جت جائیں کیونکہ زندگی میں ٹہراؤ نہیں بلکہ ہر وقت خوب سے خوب تر اور بہتر سے بہتر کوشش میں لگا رہنا چاہیے اور اس کے لیے قوت ارادی کا مضبوط ہونا بھی ضروری ہے، وہ کہتے ہیں ناں کہ
نہ گھبرا حصول کامیابی میں منزل کی دوری سے
کہ ان راہ گل میں پھولوں سے پہلے خار آتے ہیں
اپنے اندر قوت ارادی پیدا کریں۔ جو کرنا ہے وہ کر کے رہنا ہے۔چاہیے مشکلات آئیں یا پھر حالات اچھے برے ہوں۔ کچھ بھی ڈٹے رہنا ہے۔ ہمت نہیں ہارنی۔ یہ نہ سوچیں کہ آپ اپنی مشکلات کو ایک ہی دفعہ میں عبور کرلیں گے لیکن ہاں، آپ کی ہمت انہیں یقینا آہستہ آہستہ ختم کردے گی ، آپ اپنی مشکلات سے ایک دن میں چھٹکارا حاصل نہیں کرپائیں گے مگر رفتہ رفتہ آپ پہلے سے بہتر اور بہتر ہوجائیں گے۔ دنیا میں کامیابی و کامرانی اور وہ بھی اپنے اپنے منتخب کردہ شعبے میں حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مہینوں اور برسوں کے محنت کے بعد بھی آپ منزل تک نہ پہنچ سکیں لیکن نا امیدی کو پاس سے نہ پھٹکنے دیں۔ ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھیں کہ آپ اپنی ابتدا سے کتنے دور نکل آئے ہیں اور پھر نئے حوصلے اور قوت ارادی کے ساتھ کام شروع کردیں۔ آپ کی منزل مقصود یقینا آپ کو روز بروز اپنے قریب کھینچے گی اور پھر جلد ہی آپ 100،99 اور یوں ایک دن زیرو پر اپنی مشکلات کو لے کر آجائیں گے۔
طلب کرتے ہو داد حسن تم پھر وہ بھی غیروں سے
مجھے تو سن کے بھی اک عار سی معلوم ہوتی ہے
اگر ہمت کرے پھر کیا نہیں انسان کے بس میں
یہ ہے کم ہمتی جو بے بسی معلوم ہوتی ہے