امداداللہ خان نعمانی
چند دن قبل جشن آزادی کی تیاریوں کے حسین مناظر آنکھوں کو تراوت اور دل کو فرحت بخش پیغامات ستا رہے تھے لیکن آج کے دن وطن عزیز کے پرچم کو فضائوں میں لہلہا کر آزادی و نصرت کی نوید سنائی جارہی ہے۔ جھنڈیاں جھک جھک کر قوم کے سپوتوں کو سلام تہنیت پیش کر رہی ہیں۔ قوم کے نونہال آزاد خیالی کے عالم میں تالیاں بجاکر رقص معصومانہ پیش کر رہے ہیں۔ قوم کی بیٹیاں بھی خوشی و مسرت کے اس موقع پر کسی سے کم نہیں ہیں وہ بھی خوشی کا اظہار والہانہ انداز میں کر رہی ہیں، ہر طرف جوش وجذبہ دکھائی دیتا ہے۔
خوشیوں کے اس پُرمسرت موقع پر میں آپ کو غموں کی اس وادی میں لے جانا چاہتاہوں جسے برصغیر پاک وہند میں پاکستان سے قبل ’’ہندوستان‘‘ کے نام سے موصوم کیا جاتا تھا اگر ہم ماضی میں چلے جائیں تو اپنے وہ شہیدوں کی یاد تازہ کرتی ہے۔ یہی یادیں ہمیں ایک نیا حوصلہ دیتی ہیں۔ ہمارے اندر نئے جوش و ولولے پیدا کرتی ہیں اور ہمیں نئے جہاں کی جہدمسلسل کا درس دیتی ہے۔
آج سے کچھ عرصہ قبل اس پاک وطن ریاست پر انگریز سامراج قابض تھا۔ انگریز سامراج نے اپنی حکومت بنا رکھی تھی ‘مسلم اور ہندوئوں کو غلام تصور کیا جاتا تھا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون لاگو تھا۔ ہنود تو خیر ہنود لیکن مسلمان تو انگریزکا غلام نہیں ہوسکتا تھا۔ انگریز مسلمانوں کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا تھا۔ انہیں ذلیل ورسوا کرنے کا کوئی موقع بھی اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ہندو خوشامدی بھی انگریز کے دل میں مسلم دشمنی کے جذبات کو بھڑکا رہے تھے جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہر طرف نہتے مسلمانوں کو ورغلا کر تلواروں اور نیزوں کے نیچے پرویا جاتا تھا اور اسی طرح مسلمان ان دو پاٹ کے بیچ پستے رہے۔
ہمارے آباو اجداد نے یہ سوچ کر قربانیاں دیں ان دو مختلف قوموں کے سامنے اعلان بغاوت بلند کرکے ان سے آزادی حاصل کی ‘اس ارض وطن کو حاصل کرنے کے لیے لاکھوں قربانیاں دی جاچکی ہیں۔ والدین نے اپنی اولادوں کے جلتے لاشے دیکھے اولاد کی آنکھوں کے سامنے ان کے والدین کو ذبح کیا گیا کئی سہاگ اجڑے اور ان گنت بچے یتیم اور لاوارث ہوگئے۔ ان عظیم قربانیوں کے بعد ہی ہماری فطرت سے تمام عالم واقف ہوگئی کہ ہم ایک زندہ و جاوید قوم ہیں۔ کس قدر دلیر اورجفاکش و باہمت لوگ ہیں اور یہی زندہ اقوام کی سب سے بڑی نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہداء کی قربانیوں کو سامنے رکھ کر رونے اور ہمت ہارنے اور اپنے خیالات و جذبات کو پست کرنے کے بجائے اپنی قومی دن کو جوش و جذبے ولولے اور شباب آن بان شان وشوکت اور تزک و احتشام کے ساتھ مناتی ہے۔
ہماری شان و شوکت سبز ہلالی پرچم ہے۔ جو آج اس عظیم دن سڑکوں، مکانوں، عمارتوں، گاڑیوں الغرض یہ ہر جگہ لہراتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ آج ہم آزادی کا جشن منارہے ہیں اور یہ ہمارا حق ہے یہ حق ہم سے کوئی چھین نہیں سکتا‘ یہ وطن ہم سب کا ہے اور ہم ہی اس کے پاسبان و محافظ ہیں۔