اسامہ امیر
کراچی سے تعلق رکھنے والی شاعرہ سدرہ سحر عمران نے اردو ادب میں ایم اے کیا۔ اوائل عمری سے شعروادب کی طرف راغب ہوئیں۔ افسانے، ناول، مضامین اور بلاگز وغیرہ لکھتی رہیں بعد ازاں شاعری کی طرف متوجہ ہوئیں۔ 2016 میں ان کی نظموں پر مشتمل کتاب’’ہم گناہ کا استعارہ ہیں‘‘ منصۂ شہود پر آئی اور ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی گئی۔ محترمہ اسکرپٹ رائٹر بھی ہیں اور ان دنوں بول ٹی وی سے وابستہ ہیں، آئیے چلتے ہیں ان کی نظموں کی طرف ۔
’’اس بار تمہیں خدا تھوکے گا‘‘
اگر جسم کی ریاضی میں
تمہیں کبھی پورے نمبر نہیں ملے
تو میں باپ بھائی کی ننگی گا لیوں سے
تمہارا حساب پورا کرسکتی ہوں
تمہاری آ نکھیں چیر کر ان سے وہ قبریں
بنا سکتی ہوں
جس میں تم تتلیوں کے رنگ چھوڑ آ تے ہو
حرام کمروں میں بچھو ؤں کی طرح رینگنے والو!
تم ہماری ایڑیوں کے منتظر ہو
مگرہم نے کچھ قدموں پر سودے با زی نہیں کرنی
ہم نے تمہیں قتل کی چار دیوار ی سے
اس وقت تک باندھ کے رکھنا ہے
جب تک تمہاری موت کی ہڈیا ں
وہ راکھ نہ بن جائیں
جو ہماری آصفائیں اپنے پیروں سے اڑاتے ہوئے
خدا سے ملنے جاتی ہیں !!
ہم خدا کے کرائے دار ہیں
موت بے لباس نہ ہوتی
تو…ہم اس کا گریبان پھاڑ دیتے
اس کے دامن کی دھجیوں سے
اپنی آنکھوں کی مرہم پٹیا ں کرتے
اس کی آستینیں کھینچ کر اپنے لئے
شا میانے بنا تے
ہم زنجیر والے۔۔۔۔
ہمیں زندگی کے پھٹے پرانے جوتوں میں
ایک وقت کی دال روٹی بھی نہیں ملتی
ہم لہو میں مٹی بھگوبھگو کر کھا تے ہیں
اور۔۔۔ اپنے آنسوؤں کے ڈھیلے بنا بنا کر
خدا کی کھڑکیوں پر ما رتے ہیں !!
(کاش ہمارے آ نسوؤں کی کوئی آ واز ہوتی )