تنویر فاطمہ
قیامِ پاکستان بیسویں صدی کا سب سے بڑا معجزہ تھا۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان کا قیام ایک نظریے کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا، یعنی مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں، ان کا رہن سہن اور طرزِ زندگی جداگانہ ہے، دونوں قومیں کسی طرح بھی اکٹھی نہیں رہ سکتیں۔
دسمبر 1946ء میں قائداعظم نے لندن میں، مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک پاکستان کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ’’تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ ہماری تہذیب، ہمارے رسم و رواج، ہمارے اخلاق و عادات، مذہب، تاریخی روایات… غرض یہ کہ ہر چیز ایک دوسرے کی ضد ہے۔ ہمارے ہیرو، ہماری زبان، ہمارا فنِ تعمیر، ہمارے قوانین سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم دو علیحدہ قومیں ہیں اور ہم مل کر نہیں رہ سکتے۔‘‘
قائداعظم نے لارڈ مائونٹ بیٹن سے کہا ’’یہاں دو الگ قومیں بستی ہیں جن کا جینا مرنا، اٹھنا بیٹھنا الگ الگ ہے، غمی خوشی کے طور طریقے علیحدہ ہیں، پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک کی ساری رسومات جدا جدا ہیں، ہندوئوں کے سینکڑوں بھگوان ہیں اور ہمارا ایک خدا ہے، وہ جس گائے کو بھگوان کہتے ہیں ہم اسے شوق سے ذبح کرکے کھاتے ہیں۔ ہم ایک آزاد خطہ چاہتے ہیں جہاں مسلمان اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں۔‘‘
متفقہ طور پر منظور کی جانے والی قراردادِ پاکستان بھی اسی اصول پر مبنی تھی۔ نظریۂ پاکستان کی اساس دراصل نظریۂ اسلام ہے۔ پاکستان بننے کے پیچھے ایک آفاقی نظریہ کارفرما تھا۔
ہندو برصغیر کی تقسیم نہیں چاہتے تھے۔ برصغیر اُن کے لیے دھرتی ماتا کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہ آج بھی اکھنڈ بھارت کے نظریے پر عمل پیرا ہیں۔ انھوں نے ہر ممکن کوشش کرکے تقسیمِ برصغیر کو رکوانا چاہا، لیکن تقسیم کا یہ عمل روکنا کسی کے بس میں نہ تھا کیونکہ آسمانوں پر مسلمانوں کی نجات کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ ہر طرف ایک ہی گونج تھی ’’بٹ کے رہے گا ہندوستان، لے کے رہیںگے پاکستان‘‘… ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ۔‘‘
یہی وہ عہد ہے جس کی بنا پر پاکستان وجود میں آیا۔ ہزاروں مسلمانوں نے اپنی جانیں دیں، ہزاروں بہنوں کی عزتیں پامال ہوئیں، جن کو چشم فلک نے بھی ننگے سر نہ دیکھا تھا وہ برہنہ پا بازاروں میں گھسیٹی گئیں۔ لاشوں سے بھری ٹرینیں پاک سرزمین پہنچیں۔ خاندان کے خاندان برباد ہوگئے۔ دنیا کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی تو یہ ارضِ پاک نصیب ہوئی۔ مسلمانوں نے یہ قربانیاں دے کر ثابت کردیا کہ ہمارا مقصد صرف زمین کا ٹکڑا حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ عملی طور پر اسلام کا نفاذ کرکے دکھانا ہے۔ لا الٰہ کی بنیاد پر لوگوں نے جان اور مال کی قربانی دی، اور نعرے کی شکل میں قریہ قریہ، کوچہ کوچہ عہد کیا گیا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا… لا الٰہ الا اللہ‘‘۔
لیکن افسوس کہ پاکستان کے قیام کے بعد اس عہد کو بھلا دیا گیا۔ بتایئے کیا آج ہم اپنے اُس عہد پر قائم ہیں جس عہد کے لیے یہ تقسیم ہوئی تھی؟ یہ عہد نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارا مذہب، تہذیب، رسم و رواج ہندوئوں سے مختلف ہیں۔ لیکن آج کا مسلمان اسلام سے زیادہ ہندوازم سے متاثر ہے۔ لباس ہو یا رہن سہن، شادی بیاہ کی رسومات ہوں یا ثقافت، آج مسلمان اور ہندو میں خاص فرق نظر نہیں آتا۔
آج ہم آزادی کے باوجود غلامی میں جی رہے ہیں۔ جن ہاتھوں میں قرآن ہونا چاہیے تھا آج اُن ہاتھوں میں میوزک کے آلات اور موبائل پر چلتی انگلیاں اور نظریں ہیں، جو کان قرآن سننے کے لیے تھے وہ صرف میوزیک اور بے ہودہ مذاق سننے پر اکتفا کرتے ہیں۔ آج ہمیں قرآن کے قصوں سے زیادہ بھارتی فلموں کی کہانیاں یاد ہیں، اور جو تعلیم ہم لے رہے ہیں وہ تو انگریزوں کا وضع کردہ نظامِ تعلیم ہے جس میں لارڈ میکالے کا یہ نظریہ موجود ہے ’’ہمارا مقصد ایسے تعلیم یافتہ افراد پیدا کرنا ہے جو اپنی نسل اور رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی، اور فکری لحاظ سے انگریز ہوں‘‘۔ پاکستان کے قیام کے 70 سال بعد بھی ہم اپنا نظام تعلیم درست اسلامی خطوط پر استوار نہیں کرسکے۔
آج ہندوئوں کے ڈرامے اور فلمیں دیکھنے والے مسلمان ہی ہیں جو اُن کی تہذیب سے اتنے متاثر ہیں کہ شادیوں میں ہندوانہ رسومات کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ شادی مسلمان کی ہے یا ہندوکی؟ خاص کر مووی بنواتے وقت لگتا ہی نہیں کہ یہ شریف مسلمان گھرانوںکی شادیاں ہیں۔
قیام پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ ایک ایسی اسلامی ریاست ہو جس میں مسلمان اسلام پر آسانی سے عمل کرسکیں۔ ہم عہد کا بنیادی نقطہ بھول گئے جو قائد نے فرمایا تھا ’’وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر اس ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے امت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے؟ وہ رشتہ، وہ چٹان اور وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے۔‘‘
ہم نے اس مضبوط چٹان اور رسّی کو چھوڑ کر آپس میں ایسی مخالفت کا آغاز کیا ہے جس کا فائدہ یقینا کفار کو ہورہا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات نے ہمارا نہ صرف تعلیمی نظام خراب کیا بلکہ ایک دوسرے سے دوری، قتلِ عام اور اصولِ دین سے دوری کو بھی خوب بڑھا دیا ہے۔
آج ہم بار بار بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں، اُس کے فنکاروں کی تعریف کرتے ہیں، کبھی اُس سے تجارت کے فروغ کی اپیل کرتے ہیں تو کبھی اُس کے ہیروز سے متاثر ہوتے ہوئے ان کی نقلیں کرتے ہیں، کبھی اُس کے تہوار ہولی، دیوالی مناکر اُسے اعلیٰ اور خود کو کم تر ثابت کرتے ہیں، کبھی اُس کے کلچر کو پسندیدہ قرار دیتے ہیں تو کبھی اُس کے قوانین کو مبنی بر انصاف سمجھتے ہیں۔
ذرا سوچیے وہ عہد کہاں گیا جس کی بنیاد پر سرحدیں الگ ہوئیں، پرچم الگ ہوئے، قومیں جدا ہوئیں، نظریات اور فکریں الگ ہوئیں؟
اگر اس عہد کی تجدید نہ کی گئی تو ڈر ہے اللہ کے عذاب کا، کہیں وہ پھر سے ہمیں غلام قوم نہ بنادے۔ آیئے ہم اس یومِ آزادی پر اللہ سے اجتماعی استغفار کے ساتھ اس عہد کی تجدید کرتے ہیں۔ وہ عہد لا الٰہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ہے۔ ایک اللہ کا حکم مانتے ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما بناتے ہوئے ان کی شریعت کو پاکستان میں نافذ کریں تاکہ پاکستان خوش حال بن سکے۔