جویریہ ندیم
باہر آؤ، دیکھو بادل گرج رہے ہیں، اللہ کرے بارش ہوجائے… ارے دیکھو ابھی بجلی کڑکی… ہلکی ہلکی پھوار شروع ہوگئی… جلدی آؤ بارش شروع ہوگئی… مزا آگیا! بیٹا باہر سے کپڑے اتارو… دیکھو دھیان سے، کہیں پھسل نہ جانا! یہ وہ جملے ہیں جو ہم جولائی اور اگست کے مہینے میں موسم برسات کے دنوں میں سنتے اور کہتے ہیں۔ بچے تو بارش کے ہوتے ہی دیوانے ہیں، بڑے ان کو دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں۔ مزے مزے کی چیزیں خرید کر کھائی جاتی ہیں مثلاً آم، چاٹ، پکوڑے، سموسے اور گولا گنڈہ… اور قلفی کی تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ برسات شروع ہوتے ہی سب کی خوشی دیدنی ہوتی ہے… کوئی چھت پر نہا رہا ہوتا ہے، تو کوئی سڑک کی ندی میں غوطے کھا رہا ہوتا ہے۔ کوئی پکوڑے بنانے میں مصروف، تو کوئی پکوڑے کھانے میں مگن… پودے دھل جاتے ہیں اور اپنے ہونے کا ایک خوشگوار احساس دے رہے ہوتے ہیں۔ چرند پرند اپنے آشیانوں میں پناہ لے کر برسات کا مزہ لے رہے ہوتے ہیں۔ غرض فضا ہی بدل جاتی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ ہر شے خوش ہے…!! مگر بات یہ ہے کہ ہم نے کبھی اس عطیۂ خداوندی کا دل سے شکر ادا کیا؟کیا ہم نے کبھی اس موقع پر اپنے رب کے آگے ہاتھ اٹھایا؟کبھی اس کو اپنا حق سمجھنے کے بجائے اس کے نظام پر غور کیا؟ ہمارے رب نے اس سے متعلق قرآن میں یوں ارشاد فرمایا ہے: ’’وہی ہے جو تمھارے سامنے بجلیاں چمکاتا ہے جنھیں دیکھ کر تمھیں اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں اور امیدیں بھی بندھتی ہیں۔ وہی ہے جو پانی سے لدے بادل اٹھاتاہے، بادلوں کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے۔‘‘ (سورۃ الرعد 13-12)
مومن کی زندگی میں ہونے والا ہر معاملہ اس کو رب سے اور قریب لاکر کھڑا کردیتا ہے، اس کے لیے ہر چیز اس کے ایمان میں اضافے کا سبب بنتی ہے، وہ ہر قدرت کو دیکھ کر مزید اللہ کی وحدانیت کا قائل ہوجاتا ہے، اس کو ہر شے اللہ کی تسبیح اور حمد پر مجبور کرتی ہے… اس کے لیے ہر موقع لمحہ فکر اور قابل غور ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا آیت میں بھی یہی مفہوم ہے کہ محض دوسری مخلوقات کی طرح سننے والے تو ان بادلوں میں گرج کی آواز سنتے ہیں، مگر جو ہوش کے کان رکھتے ہیں وہ بادلوں کی زبان سے بھی توحید کا اعلان سنتے ہیں!