اک سوچ پہ ہے مینار بنا۔۔۔

1899

آسیہ بنتِ عبداللہ
کسی پنجرے میں پھڑپھڑاتے پرندے کو دیکھو، بے قراری سے اِدھر سے اُدھر چکر لگاتے دیکھو… بے شک اسے دانہ پانی صبح شام دیا جاتا ہے، پنجرے کی صفائی بھی پابندی سے ہوتی ہے اور ٹہنیاں بھی لگائی جاتی ہیں تاکہ وہ جنگل کا سا ماحول سمجھے… مگر اُسے پتا ہے وہ قید میں ہے، آزاد فضائوں کا پنچھی نہیں بلکہ بے بس و مجبور پرندہ ہے۔ اس کی زبان چلتی تو وہ یہی کہتا: آزادی سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔
اس لمحے گیٹ کی گھنٹی بجی۔ اوہ! میں بھی کن خیالوں میں کھو گئی۔ فرح، عابد اور عبید اپنے ابو کے ساتھ گئے تھے یوم آزادی کا سامان لینے۔ ’’آرہی ہوں، ایک منٹ رکو‘‘۔
تینوں بچے لدے پھندے اندر داخل ہوئے۔ ان کے پیچھے زاہد صاحب بھی تھے۔ بچوں کی خوشی دیکھ کر وہ خود بھی مسکرا رہے تھے۔
’’امی… امی دیکھیے کتنی اچھی جھنڈیاں بنی ہوئی ہیں، سب پہ چاند تارا کتنا خوب صورت لگ رہا ہے۔‘‘
’’ہاں بہت اچھا ہے۔‘‘
’’امی دیکھیے یہ بیج‘‘۔ کچھ چھوٹے کچھ بڑے چمکتے دمکتے بیج عبید نے جیب سے نکال کر پھیلا دیے۔ ’’اچھے ہیں ناں امی؟‘‘
’’بہت اچھے ہیں‘‘ … ’’اور امی میں تو چوڑیاں لائی ہوں جھنڈے کے رنگ کی‘‘۔ دس سال کی فرح اپنی کلائی سے لگا لگاکر دیکھ رہی تھی۔
’’چلو بچو! اب کھانا کھا لو، تمہارے انتظار میں دیر ہوگئی، بڑی سخت بھوک لگی ہے‘‘… ’’ہاں بھئی مجھے بھی بہت بھوک لگ رہی ہے‘‘۔ زاہد نے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرا۔
رافیہ کی خاموشی کو سب نے بھوک کی شدت پر محمول کیا۔
رات کے کھانے کے بعد قہوے کی پیالیاں سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر وہ زاہد کی طرف متوجہ ہوئی۔ ’’مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے، بلکہ سب ہی سے۔‘‘
’’اچھا! تو بلا لو بچوںکو بھی‘‘ کہتے ہی انھوں نے تینوں کو آواز دے ڈالی۔
تینوں بچے کیرم کھیل رہے تھے، سب چھوڑ چھاڑ کر دوڑے دوڑے آگئے۔ ’’جی ابو‘‘ عابد نے سوال کیا۔
’’آئو بیٹھو، تمہاری امی ہم سب سے کچھ بات کرنا چاہ رہی ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے‘‘۔ سب بیڈ پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔
’’میں نے پرسوں نیٹ پر ایک ترانہ سنا‘‘۔ وہ بڑی سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔ ’’ہاں آج کل ترانے بہت سنائی دے رہے ہیں، یوم آزادی کی خوشی میں‘‘۔ زاہد نے بھی کہا۔
’’تو کیا سنا تم نے؟‘‘
’’پورا تو مجھے یاد نہیں ہے لیکن دو مصرعے یاد ہیں، بڑے ہی معنی خیز، غوروفکر کرنے اور توجہ دلانے والے، میرے دل پر جیسے نقش ہوگئے۔ وہ یہ ہیں:
جو قید میں تھے وہ سارے پرندے
پَر بھی ہیں یہ بھول گئے تھے
جو جھکتے تھے اُن کاندھوں پر
سر بھی ہیں یہ بھول گئے تھے
اک گھونسلہ کیسے بنتا ہے اک تنکا دیکھ کے یاد آیا
پہلے تو اک سوچ آئی، سوچ کے بعد وہ گھر آیا
اک سوچ یہ ہے مینار بنا
وہ سوچ سنبھال بھی سکتے ہیں
دیکھا، مصرع کہتے کہتے بہت سا ترانہ یاد آگیا‘‘۔ یہ کہتے کہتے اس کی آنکھوں میں نمی تیر گئی جسے صرف زاہد نے محسوس کیا۔ بچے اپنی دُھن میں تھے۔ ’’سنا آپ لوگوں نے، ہم غلام تھے، کافروں اور انگریزوں کے۔ بہت ساری زنجیروں میں جکڑے ہوئے۔ اور ان زنجیروں کو توڑنے کے لیے جان و مال، گھر بار، عزت و آبرو سبھی کی قربانی دینی پڑی، مگر ہم آزاد ہوگئے، اپنے ملک میں پہنچ گئے۔ میں تو اُس وقت تھی ہی نہیں، لیکن اماں جان بتاتی تھیں ساری باتیں۔‘‘
’’مگر نانی جان آپ کو کیوں بتاتی تھیں؟‘‘ عبید نے سوال کیا۔
’’وہ اس لیے کہ ہمیں آزادی کی قدروقیمت یاد رہے، اور ہم اس کی حفاظت کرسکیں، اور ہر وہ زنجیر توڑ ڈالیں جو ہم دانستہ ابھی تک اپنے آپ پر لادے ہوئے ہیں۔‘‘
’’ارے بھئی کون سی زنجیریں! ہم اپنی مرضی سے جیتے ہیں‘‘۔ زاہد نے سوال کیا۔
’’میں نے کہا ناں کہ یہ زنجیریں نادیدہ ہیں، صرف اُنہی کو نظر آتی ہیں جو غوروفکر کرتے ہیں۔ کیا ہم نے خود پر رسم و رواج، بے جا پابندیوں، دکھاوے کے لیے اپنی گنجائش سے بڑھ کر خرچ کرنا چھوڑ دیا؟ کیا ہمارے حلق سے گوشت کے بغیر نوالہ اٹکتا نہیں؟ ہم نے گھروں میں ضرورت سے زیادہ سامان نہیں ٹھونس رکھا ہے؟ اور کیا ہم ہر سال پکنک منانا فرضِ عین نہیں سمجھتے؟ تفریح کے نام پر کبھی کبھار چلے جانا اور بات ہے، اور ہر سال پابندی سے فرض کی طرح ادا کرنا ضروری نہیں سمجھ لیا ہم نے؟‘‘
’’ہاں یہ تو تم صحیح کہہ رہی ہو‘‘۔ زاہد بھی سنجیدہ ہو چلے تھے۔
’’بیٹے اور بیٹیاں، مائیں اور بیویاں اگر یہ سمجھ لیں کہ جتنی رقم ہم اپنے شوق پر خرچ کرتے ہیں، اس کا آدھا حصہ بھی وطن کی تعمیر و ترقی پر خرچ کرتے تو ہمارا وطن اتنا بدحال نہ ہوتا۔ دشمنوں کی سازشوں کو سمجھ کر اُن کا سدباب کرنا ہمارا فرض تھا مگر ہم اپنے گھر، بال بچے، خاندان سے مقابلہ بازی میں اتنے مگن ہوگئے کہ ہمیں کچھ یاد ہی نہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے دشمنوں نے ہمارے دریائوں کا پانی ڈیم بنا بناکر روک لیا۔ اب ہماری زراعت کیسے ہوگی؟ زیر زمین پانی بھی اندر اترتا جارہا ہے۔ پانچ دریائوں کا پانی انصاف سے تقسیم ہوتا تو آئندہ برسوں میں آنے والا پانی کا بحران سر پر نہ کھڑا ہوتا۔ پانی سے زندگی ہے۔ نہ پینے کے لیے پانی ہوگا، نہ کھیت کھلیان کے لیے… اس طرح ہم پھر سے مجبوریوں کی قید میں چلے جائیں گے۔ ہماری نسلیں پانی کی بوند بوند کو ترسیں گی خدانخواستہ۔ وقت سے پہلے ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
’’مگر امی جان ہم کیا کرسکتے ہیں؟‘‘ تینوں بچوں نے ایک ساتھ سوال کیا۔
’’کرسکتے ہیں بیٹا، کرسکتے ہیں۔ ڈیم بنانے کے لیے فنڈ اکٹھا کیا جارہا ہے، ہم اپنی بہت سی ضروریات کو روک کر فنڈ میں زیادہ سے زیادہ رقم جمع کروائیں، سادگی اور کفایت شعاری اختیار کریں، تب بات بن جائے۔ اللہ سے امید ہے وہ ہم پر رحم کرے گا ان شاء اللہ۔‘‘
’’ضرور رحم کرے گا، وہ رحمن بھی ہے اور رحیم بھی‘‘۔ زاہد بولے۔
’’دعائیں کرنے کا وقت ہے میرے بچو۔ جس سے بھی ملو اسے بتائو کہ بڑا کٹھن وقت آپڑا ہے، دعا اور دوا ساتھ ساتھ کرنی ہے۔ فنڈ دے کر اور دعا کرکے ہم اللہ کی رحمت کی امید کریں گے۔‘‘
’’جی ضرور امی جان‘‘۔ ’’اور میں بھی چائے کم کرکے بچت فنڈ میں دوں گا‘‘۔ زاہد نے کہا۔
’’اسلام ہمیں ہر اُس کام سے روکتا ہے جس کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں ہے نہ آخرت میں۔اور پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے، یہ بات ہم بہت سنتے ہیں مگر دوسری ہی لمحے بھلا دیتے ہیں۔‘‘
’’اوہو بھئی ایسا کرتے ہیں آج سے ہم آپ کو اپنا پیر مان لیتے ہیں، سب سے پہلے میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں‘‘۔ زاہد نے شرارتی لہجے میں کہا۔
’’میں سنجیدہ ہوں زاہد صاحب‘‘۔ رافیہ نے آنکھیں دکھائیں اور پھر ہنس پڑی۔
’’پاکستان‘‘… زاہد نے زور سے کہا
’’زندہ باد‘‘ بچوں نے جوش و خروش سے جواب دیا جس میں رافیہ کی آواز بھی شامل تھی۔

حصہ