وطن کو ہم نے سنوارنا ہے

1923

مریم شہزاد
اسکول کے دنوں کی بات ہے، بات ذرا پرانی ہے مگر یاد ہے آج بھی ذرا ذرا۔ ہر سال 14 اگست منائی جاتی تھی اور پورے جوش و خروش سے وطن سے محبت کا اظہار کیا جاتا تھا۔ ملّی نغمے، تقریریں، کوئز۔ وطن کی محبت میں دل سرشار ہوتے تھے۔ اُس وقت ایک ملّی نغمہ بہت مشہور تھا اور ہر سال بار بار ٹی وی پر سنایا جاتا تھا:
یہ دیس ہمارا ہے
اسے ہم نے سنوارا ہے
اس کا اک اک ذرہ
ہمیں جان سے پیارا ہے
یہ نغمہ گاتے ہوئے، سنتے ہوئے دل محبتِ وطن سے سرشار ہوجاتا تھا اور بس نہیں چلتا تھا کہ کیسے اپنے وطن کو سنوار دیں۔
آج جب میں لکھنے بیٹھی تو فوراً یہ نغمہ ذہن میں آیا اور ساتھ ہی اس کے بولوں پر غور کیا تو ادراک ہوا کہ ہم اسی چیز کو سجانے، سنوارنے کی بات کرتے ہیں جس سے ہم کو دل و جان سے محبت ہو۔ اور جب ہم کہتے ہیں کہ اس کا اک اک ذرہ ہمیں جان سے پیارا ہے، تو جان سے پیاری چیز کو تو اور محبت اور قدر سے رکھتے ہیں۔ تو طے یہ پایا کہ وطن کو سنوارنے کے لیے ’’اہلِ وطن‘‘ میں محبت کا جذبہ بیدار کرنا ضروری ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم محبت کا جذبہ کیسے جگائیں؟ تو آج کل تو موم بتیاں روشن کرکے، گانے گا گا کر، ڈانس کے مقابلے کرکے ہر چیز کو صرف اور صرف وطن کی محبت سمجھ لیا گیا ہے۔
آج کا دور سوشل میڈیا کا ہے۔ لوگ فیس بک، واٹس ایپ، ٹوئٹر وغیرہ کی بات زیادہ سمجھتے ہیں، تو ہمیں بھی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ ایسے پیغامات بھیجیں جن سے وطن کی محبت اجاگر ہو۔ پاکستان کتنی قربانیوں سے حاصل ہوا ہے، اس کی قدر کیسے کریں۔ پاکستان کی حسین وادیوں کی تصویرکشی اور وڈیوز ایک دوسرے کو بھیجیں۔ اچھائیوں کو اجاگر کریں۔ جب وطن کی محبت جاگے گی تبھی وطن ترقی کرے گا، جب ہی ہم وطن کے لیے کچھ کرنے کا سوچیں گے۔ کیونکہ جس سے محبت ہوجائے وہی چیز اپنی ہوجاتی ہے، اور اپنی چیز تو سبھی چاہتے ہیں کہ خوب صورت اور حسین نظر آئے۔ اس لیے آئیے ہم سب وعدہ کریں کہ اِس دفعہ آزادی کی سالگرہ پر عملی محبت کا ثبوت دیں گے۔ کم از کم تین پودے لگائیں، ملک کو سرسبز بنائیں، کوڑا کرکٹ کچرا گھر کے سوا کہیں نہ پھینکیں اور پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال انتہائی کم کردیں۔ کپڑے کے تھیلے اور کاغذ کے لفافے استعمال کریں۔ ہم سب مل کر کوششیں کریں گے تو ان شاء اللہ ملک کو بہتر سے بہتر بنانے میں کامیاب ہوں گے۔

حصہ