پاکستان… دلوں کی بہار ہے،آج کی بات

506

غزالہ عزیز
انچارج صفحہ خواتین
زندگی میں فیصلے کرتے ہوئے دو کیا، چار رُخ بھی آتے ہیں۔ کبھی ایک سے اور کبھی کئی سے کترانا پڑتا ہے کہ راہ تو ایک ہی لینی ہوتی ہے۔ دو کشتیوں کے سوار کا منزل تک پہنچنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہوتا ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سارے دوراہے ایک ساتھ فیصلے کا تقاضا کرتے ہیں۔ پاکستان کا قیام ایسے ہی زندگی کے دوراہے بلکہ چوراہے کا فیصلہ تھا، جب سارے خدشات حقیقت بنتے دیکھے اور آزادی کے راستے کو چن لیا… صبحِ آزادی کے یہ اوّلین مسافر آزادی کے لیے سب کچھ قربان کرکے پاکستان آئے۔ آنکھوں میں ایک خواب سجائے، دل میں محبت بسائے انھوں نے وطن کی سرزمین پر جب قدم رکھا تو پورے عزم اور حوصلے سے ہر امتحان سے گزرنے کا عہد کیا۔
’’پاکستان کا مطلب کیا… لا الٰہ الااللہ‘‘۔ یہ نعرہ زبان پر بھی تھا اور دل میں بھی بسا تھا۔ سب کچھ ہار کر حوصلہ نہ ہارنے کا یقین تھا۔

ہار گئے تھے سب کچھ لیکن حوصلہ کس نے ہارا تھا
پاکستان سے پہلے بھی یہ پاکستان ہمارا تھا
آنکھوں میں ایک خواب تھا روشن دل میں چاند ستارا تھا
پاکستان سے پہلے بھی یہ پاکستان ہمارا تھا

پاکستان آنے والے لٹے پٹے مسافروں میں کم مائیگی کا احساس نہ تھا۔ وطن مل گیا تھا، بس اب وطن کے ذرے ذرے کو ماہ تاب بنانے کا عزم تھا۔ لہٰذا اسبابِ دنیا کی کمی کو ہرگز آڑے نہ آنے دیا گیا۔ قیام پاکستان دراصل شر کی قوتوں کی شکست اور مسلمانوں کی فتحِ مبین تھی۔ تاریخ کا یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ خواہ مسلمانوں پر غلامی کے کتنے ہی برس گزر جائیں، ان کی حالت کو بگاڑنے اور انھیں کمزور کرنے کے لیے خواہ کتنی ہی کوششیں کی گئی ہوں، لیکن وہ اپنی ملّی حیثیت کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔
پاکستان مسلمانوں نے بیش بہا قربانیاں دے کر حاصل کیا، صرف اس لیے کہ یہاں اسلام کا قانون نافذ ہو۔ ورنہ مسجدوں میں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی آزادی تو انگریز بھی دے رہے تھے۔ پاکستان نام کا خطۂ زمین اسلام کے نظام کو عملی صورت میں قائم کرنے کے لیے ہی حاصل کیا گیا تھا۔ یہی مقصد ہے جو پاکستان سے محبت کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ جس طرح ہریالی کے لیے پانی درکار ہے اسی طرح پاکستان کی مضبوط بنیاد کے لیے مقصد کی یاددہانی درکار ہے۔
وطن سے محبت اور وطن کی سرزمین سے دلی لگائو ایک صحت مند جذبہ ہے، لیکن محبت کی بنیاد میں پاکستان کا نظریہ ہے۔ یہ مملکت اس لیے ہمارے دلوں کی دھڑکن ہے کہ یہ اسلام کے نام پر وجود میں آئی۔ اس نظریے کو کمزور کرنے کے لیے آج ثقافت کے نام پر ناچ گانے کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ ہماری ثقافت ہرگز یہ نہیں ہے، بلکہ ہماری ثقافت معتدل، صاف ستھری، پاکیزہ اور نظریات سے ہم آہنگ ہے، اور یہی ہماری فلاح اور کامرانی کی ضامن ہے۔
حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز نے ناظمِ تعلیمات کو اپنے ایک ابتدائی حکم نامے میں یوں مخاطب کیا تھا ’’سب سے پہلے تم میری اولاد کے دلوں میں ناچ گانوں اور راگ راگنیوں کی نفرت پیدا کرنا، کیونکہ ان کی ابتدا شیطان کی طرف سے ہے اور ان کی انتہا خدائے رحمن کی ناراضی ہے۔ اس سے دل میں نفاق اس طرح پرورش پاتا ہے جس طرح بارش سے گھاس اگتی ہے۔‘‘

حصہ