قاضی مظہر الدین طارق
آج ہم ایک عجیب مچھلی’ سُرمئی‘ کے بارے میں بات کرتے ہیں،اس کو ’سالمن‘(salmon)بھی کہتے ہیں۔اس کی ایک عجیب بات تو یہ ہے کہ یہ سمندر کے کھارے اور دریا کے میٹھے دونوں پانیوں میں زندہ رہتی ہے۔
…………
یہ میٹھے پانی کے دریا میں ،جہاں سے یہ شروع ہوتاہے ، پیدا ہوتی ہے ہزاروں میل کا سفر کر کے سمندر میں پہنچتی ہے، سمندر میں سالوں گزارتی ہے،بڑی دورتک جاتی ہے،پھر پلٹ کر واپس دریا میں آتی ہے اور اسی جگہ پہنچتی جہاںپیدا ہوئی تھی ،اورجہاں سے چلی تھی۔
…………
اس کی زندگی ایک انڈے سے شروع ہوتی ہے،اس کے ماں باپ سمندر میں تین سال سے آٹھ سال رہنے کے بعد دریا کا رُخ کرتے ہیں ،ہزاروں میل کا سفر کرکے دریا کے شروع میں پہنچتے ہیں اوران کی ماں ایک وقت میں اپنے وزن کے لحاظ سے انڈے دیتی ہیں،تقریباً ایک کلو کی مچھلی پندرہ سو اور تین کلو سے زیادہ وزن کی مچھلی آٹھ ہزارتک انڈے دے سکتی ہے ،انڈے دینے کے بعدماں خود بھی فنا ہو جاتیں ہیں،انا للہ و اناالیہ راجعون ۔
…………
ماں چٹانوں اور پتھروں کے نیچے چار سے بارہ انچ گہرا کھڈاکر کے اپنا گھونسلہ بناتی ہے،پھر اس میں انڈے دیتی ہیں تاکہ انڈے کھائے جانے سے کسی حد تک محفوظ رہیں، باپ ان انڈوں پر اپنا مادّہِ منو (اسپرم )چھڑکتے ہیں ،جس کے بعدان انڈوں کومزید محفوظ کرنے کے لئے اپنی دم ہلا ہلا کے مٹّی اور ریت سے ڈھک کر چُھپا دیتے ہیں، پھر یہ بھی موت سے ہمکنار ہو جاتے ہیں۔
…………
ان میں سے بحرِ اوقیانوس میں صرف چند نسلیں ایسی بھی ہیں جو انڈے دینے ے بعدمرتی نہیں،انڈے دے کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہیں اور پھرسال دو سال بعد آکر دوبارہ انڈے دیتی ہیں،مگریہاں بھی اکثرنسلوں کے ماں باپ ختم ہو جاتے ہیں۔
…………
ان سالمن مچھلیوں ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اپنی زندگی میں عمر کے لحاظ سے اپنا رنگ بدلتی رہتی ہیں،انڈوں میں ہی آنکھوں کے سیاہ نشان نظر آتے ہیں۔
…………
انڈے سے باہرآتی ہیں تو اُن کے ساتھ اُن کی زردی بھی جُڑی ہوتی جس سے وہ اپنی پہلی غذا حاصل کرتی ہے اور خود بھی زردی کے رنگ میں رنگی ہوتی ہے بڑی ہوتی جاتی ہے تو بے رنگ سے سُرمئی ہونے لگتی ہے،سمندر میں داخل ہونے ساتھ پوری سُرمئی ہوچکتی ہے، اس کی زیادہ عمرسمندر میں اور سُرمئی رنگ میں گزارتی ہے اس لئے
’ سُر مئی‘ کہلاتی ہے،مگر ٹہریئے جب یہ دریا میں داخل ہوتی ہے اور انڈے دینے کی تیاری کر رہی ہوتی ہے اس کے منہ پر سُرخ رنگ نمایاں ہو نے لگتا ہے،پھر یہ پوری سُرخ ہوجاتی ہے ،جب یہ سُرخ ہوجاتی تو انڈے دینے کے قریب اس کا چہرہ سبز ہو جاتا ہے۔
…………
بحرِ الکاہل میں گرنے والے’ الاسکا‘ کے دریاؤں میں جب بچہ انڈے سے نکلتا ہے تو اس کا آنول اورغذاکی تھیلی اس سے الگ نہیں ہوتی وہ بدستوراسی سے اپنی غذا حاصل کرتا رہتا ہے،اس وقت وہ بہت ہی چھوٹا تقریباًایک دوسنٹی میٹر کا ہوتا ہے جبکہ اس کی غذائی تھیلی اس سے جُڑی ہوتی ہے۔
…………
تھیلی میں محفوظ غذا ختم ہو نے تک بچہ کچھ بڑا ہوچکا ہوتا ہے،وہ اپنے اردگرد سے خردبینی(مائیکروسکوپِک) حیات کھاتا ہے،اور بڑا ہو جاتا ہے ،تو اپنے مُردہ ماں باپ کا گوشت کھاتا ہے۔
اب وہ اتنا بڑا ہوچکا ہو تا ہے کہ اپنی کچھار(چُھپی ہوئے گھونسلے) سے باہر نکلنے کی سوچتا ہے۔
…………
جب وہ باہر جھانکتا ہے تو اس کویہاں کا منظربڑا خوفناک لگتا ہے،اس کو بہت سے جانور ایک دوسرے کے پیچھے تیزی سے بھاگتے نظر آتے ہیں اور ایک دوسرے کو پکڑکر کھا رہے ہوتے ہیں، وہ سوچتا ہے کہ میں تو اتنا تیز بھاگ بھی نہیں سکتا،اپنی جان کیسے بچاؤں گا۔
مگر بھوک سے مجبور ہو کر یہ آہستہ آہستہ چُھپتا چُھپاتادریا کے بہاؤکی طرف جا نے لگتا ہے اور اس کو بہت سے چھوٹے جانور پیٹ بھرنے کے لئے ملتے رہتے ہیں: زو پلینگٹن،جھیگا،مچھلیوں کے لاروے وغیرہ۔
…………
اس کا رُخ سمندر کی سَمت ہوتا ہے؛اب آپ ذرا یہاں رُک کر ربُّ العالمین کی کاریگری دیکھیئے کہ اُس نے اس بچے ذہن ڈالا کہ تم کو بڑے ہو کر پھر یہیں واپس آنا ہے،پھرخالق نے صرف ذہن میں نہیں ڈالا بلکہ خود مقناطیسی میدان کے ذریعہ جاتے ہوئے راستے کو نوٹ کرنااور واپسی کے لئے یاد رکھنا سکھایا۔
…………
توجہ کی جا ئے! یہ مچھلی کا دریا میں ہی ہزاروں میل کاسفر کر کے سمندر تک پہنچتی ہے ،دریا کا یہ سفر ہزاروں خطرات سے پُر ہے،سمندر پر پہنچنے تک وہ جوان ہو چکی ہوتی ہے۔
…………
سمندر تواور زیادہ خطرات میں گھرا ہوا ہے،ہزاروں لاکھوں جانور اور انسان اس کی جان کے درپے ہیں، سمندر میں بھی ہزروں میل اورسالوں کا پُرخطر سفر کرنے کے بعد وہ واپس مُڑتی ہے اورپھر مقناطیسی میدان کی وساطت سے اپنی واپسی کے راستے اور منزل کا تعین کرتی ہے۔
…………
واپسی بھی آسان نہیں،لاکھوں میل کا سفر درپیش ہے، سمندر میں خطرات تو ہیں ،جان بچانا مشکل ہے لیکن سمندر میں تیرنا نسبتاً آسان ہے،جب یہ دریا کے دہانے پر پہنچتی ہے تو کھارے پانی سے میٹھے پانی میں داخل ہونے کے لئے اس کو اپنا آپ بہت کچھ تبدیل کرنا پَڑتا ہے۔
…………
شروع میں تو دریا کا بہاؤ تیز نہیں ہوتا، مگر پھر آہستہ آہستہ تیز ہوتا جاتا ہے،دریا کے تیز بہاؤ کی مخالف سَمت میں سفر کرنے کے لئے بہت زور اور قوّت کی ضرورت پڑتی ہے،پھرسُرخ ہونے لگتی ہے۔
راستے میں بہت سی رکاوٹیں بھی ہوتی ہیں،ان میں کچھ قدرتی ہوتی ہیں تو کچھ انسانی ہوتی ہیں۔
…………
انسانی رکاوٹوں میں بیراج اورڈیم ہوتے ہیں،جہاں اُس کو اُچھل اُچھل کربڑی طاقت لگا کربڑی مشکل سے ڈیموں اور بیراجوں کے اُوپری سطح پر پہنچنا پڑتاہے، اس کے علاوہ انسان کے بچھائے ہوئے مچھلی پکڑ نے کے جال بھی ہوتے ہیں،جبکہ قدرتی رُکاوٹوں میں ؛ پانی کا تیز بہاؤ،پانی میں چٹانیں اور پتھر،چھوٹے اور بڑے آبشار،جھیلیں اوران مچھلیوں کو کھانے والے بہت سے پانی اور خشکی کے جانور۔
…………
جتنی بھی رُکاوٹیں سامنے ہوں،اِن کے عزم میں کمی نہیں آتی، منزل پَر پہنچنے کی تڑپ سرد نہیں پَڑتی،کتنے ہی ساتھی ہم سفر بچھڑجائیں،کتنے ہی مر جائیں،یہ اپنا سفر جاری رکھتی ہیں،ذرا بھی ہمّت نہیں ہارتیں۔
…………
کتنی ہیں جو جال میںپھنس جاتی ہیں،کتنی ہیں جو دوسرے جانوروں کی غذا بن جاتی ہیں،چٹانوں سے ٹکرا کرمر جاتی ہیں،آبشاروں پر چڑھنے کے لئے بار بار چھلانگیں مارتی ہیں تھک ہار کر بیٹھ نہیں جاتیں،جب تک کسی چٹان سے ٹکرا کر ختم ہی نہ ہو جائیں،لگاتار کوششیں کرتی ہی رہتی ہیں اور کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں۔
…………
اللہ ربُّ العالمین نے زمین پرجانداروںکو زندہ رکھنے کے لئے جورزق کا انتظام کیا ہے ، اُس نے زمین پراِس کام کے لئے کھائے اور کھائے جانے والوں کاایسا’ایکو سسٹم‘ بنایا ہے ،جو نہ کھائے جانے والوں کی نسل ختم کرتا ہے ، نہ کھانے والوں کو بھوک سے مرنے دیتا ہے۔
کیا زبردست باریک اور لطیف حساب ہے جو خالقِ ارض و سما کے سوا کوئی نہیںکر سکتا ۔
…………
اُس نے اِس مچھلی کوانسان کے علاوہ بہت زیادہ ؛ پانی، خشکی اور اُڑنے والے جانداروں کا رِزق قرار دیا ہے،مثلاً؛رینچ،سیل،چیل اورشارک وغیرہ۔
سب زیادہ انسان ہی ہیںجن کو یہ مچھلیاں جائز اور حلال زرق فراہم کرتی ہیں جو لاکھوں کروڑوں کے حساب سے اِن کو پکڑ کر کھاجاتے ہیں۔
…………
کیسی خوش قسمت ہے یہ مچھلی کے اپنے وجود کو فنا کر کے انسان کو حلال رزق اورکتنے ہی جاندروں کو زندگی دیتی ہے ۔
اللہ ربّ العزّت نے اِس کواپنی اور مخلوق کا رزق بنا کر کتنے اعزاز اور عزّت نوازا ہے!!!
٭…٭…٭