ارم فاطمہ
’’ احمر شام کوگراؤنڈ سے کرکٹ کھیل کر گھر میں داخل ہوا ہی تھا کہ امی نے آواز دے کر پوچھا خالہ کو میرا پیغام دے دیا تھا نا کہ وہ رات کو ضرور گھر آئیں۔ پتا نہیں ان کا موبائل کیوں بند جا رہا تھا، جی امی دے دیا تھا احمر جلدی سے کمرے میں گھس گیا کہ کہیں وہ کچھ اور نہ پوچھ لیں۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ کرکٹ کھیلنے کے شوق میں خالہ کے گھر جانا بھول گیا تھا۔ امی کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے اس نے جھوٹ بول دیا کہ وہ رات کو آئیں گی۔
وہ اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے آرام سے جھوٹ بول جاتا تھا۔ یہ اور بات کہ سچ سامنے آنے پر اسے ڈانٹ بھی پڑتی تھی اور شرمندہ بھی ہونا پڑتا تھا۔ وہ ہنس کر بات کو ٹال جاتا۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ اس کی غلط بیانی اور جھوٹ کی وجہ سے اس کے دوستوں کو نقصان بھی اٹھانا پڑا اور ان کی آپس میں لڑائی بھی ہوئی تھی۔ سب یہی سمجھتے تھے کہ یہ ایسے ہی جھوٹ بول جاتا ہے جب کہ اسے جھوٹ بولنے کی اتنی پریکٹس ہوچکی تھی کہ یہ اس کی عادت بن چکی تھی۔
رات کے 8بج رہے تھے۔ احمر ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا ہوم ورک کررہا تھا۔ہوم ورک کرنے کے بعد وہ ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھنے لگا۔ ابھی تھوڑی ہی دی گزاری تھی کہ امی نے آکر اسے کان سے پکڑ کر کھڑا کردیا اور ڈاٹتے ہوئے کہنے لگیں، میری خالہ سے بات ہوئی ہے موبائل پر وہ کہہ رہی ہیں احمر تو ان کے گھر آیا تک نہیں۔ اور تم نے آرام سے جھوٹ بول دیا کہ وہ رات کو گھر آرہی ہیں۔ تمہیں ذرا شرم نہیں آتی جھوٹ بولتے ہوئے۔احمر آرام سے کھڑا ان کی ڈانٹ سن رہا تھا۔
اب اسے جھوٹ بولنے میں بہت مزا آنے لگا تھا۔ اسکول میں اس کے دوست بھی اس کی اس عادت سے بہت تنگ تھے۔ اسے سمجھاتے کہ جھوٹ کو چھوڑ کر سچ سے دوستی کرلو۔ایک دن ایسا واقعہ پیش آیا کہ اس نے جھوٹ کا راستہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا اور سچ کی راہ اپنالی۔اس دن احمر اور اس کے 3دوستوں نے مل کر نہر پہ جانے کا پروگرام بنایا۔ طے یہ پایا کہ وہ سب اسکول کے پاس گراؤنڈ میں اکٹھے ہوں گے اور پھر وہاں سے نہر پہ جائیں گے۔ اگلے دن جب وہ اسکول میں ملے تو عامر ان کا دوست غیر حاضر تھا۔ احمد کہنے لگا وہ اپنے امی ابو کے ساتھ مری جارہا ہے اس لیے وہ ان کے ساتھ نہیں جاسکتا۔ اس کے منع کرنے پر انہوں نے نہر پہ جانے کا پروگرام کینسل کردیا۔
انہوں نے احمر سے کہا کہ وہ عامر کو بتادے کہ اب نہر پر نہیں جارہے۔ احمر گھر آکر سو گیا۔ شام کو عامر اس کے گھر آیا تو اس نے کہہ دیا کل ضرور چلیں گے۔ اگلے دن چھٹی تھی۔ وہ آرام سے سو کر اٹھا اور یہ سوچ کر دل میں ہنستا رہا کہ عامر جب وہاں جاکر ہمارا انتظار کرے گا اور کتنا پریشان ہوگا۔
رات کو کھانا کھا کر جب احمر سونے ہی لگا تھا کہ ابو نے آکر بتایا عامر کے والد آئے ہیں۔ عامر اب تک گھر نہیں پہنچا۔ احمر یہ سنتے ہی بہت پریشان ہوگیا۔ وہ انہیں لے کر گراؤنڈ میں گیا۔ وہاں درختوں کے پیچھے عامر کو بے ہوش اور زخمی حالت میں دیکھ کرپریشان ہوگئے۔ اسپتال میں جب عامر کو ہوش آیا تو اس نے بتایا، میں وہاں کھڑا تم لوگوں کا انتظار کررہا تھا۔ دو آدمی مجھے بازو سے پکڑ کر پاس کھڑی وین میں ڈالنے لگے نہ جانے وہ مجھے کہاں لے جانا چاہتے تھے۔ سڑک سنسان تھی۔ گراؤنڈ بھی خالی تھی۔ میں نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی اور شور بھی مچایا۔ انہوں نے مجھے مارنا شروع کردیا۔ میں بے ہوش ہوگیا۔
احمر مجرموں کی طرح سرجھکائے سن رہا تھا۔ اس کے مذاق میں کہے گئے جھوٹ نے اس کے دوست کو کتنی بڑی مصیبت میں ڈال دیا تھا۔ شکر ہے اس کی جان بچ گئی۔ احمر نے سب کے سامنے عہد کیا کہ اب وہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولے گا۔وقت کے ساتھ ساتھ احمر نے ثابت کردیا کہ اس نے واقعی جھوٹ سے ناتا توڑ کر سچ سے دوستی کرلی ہے۔
مسکرائیے
محمد جاوید بروہی
٭ ایک رپورٹر (بڑے میاں سے): آپ اس گڑھے میں کیسے گرے۔
بڑے میاں: کیوں میاں تمہیں دوبارہ گر کر دکھائوں۔
٭٭٭
٭ استاد (شاگرد سے): فارغ البال کسے کہتے ہیں۔
شاگرد: گنجے کو
٭٭٭
٭ بڑا بھائی (چھوٹے بھائی سے): اس جملے کا ترجمہ کرو “Made in Japan”
چھوٹا بھائی: پاگل جاپان میں ہے
٭٭٭
٭ پہلا شخص (دوسرے سے): تمہارے بیٹے نے مجھے کرکٹ بولا۔
دوسرا شخص: آج اسے معاف کر دیں آئندہ تمہیں گرگٹ بولے گا۔
٭٭٭
٭ ڈاکٹر (مریض سے): کمرے کی کھڑکی دروازہ کھول کر سونا تمہاری بیماری غائب ہو جائے گی۔
مریض: ڈاکٹر صاحب میں ایسا نہیں کر سکتا۔
ڈاکٹر: کیوں؟
مریض: بیماری کے ساتھ کمرے کا سامان بھی غائب ہو جائے گے۔
٭٭٭
٭ ایک شاعر کا تخلص دیوانہ تھا اپنے دوست سے ملنے گئے دروزاے پہ دستک دی اندر سے آواز آئی کون ہے ’’کہنے لگے ’’دیوانہ‘‘ اندر سے آواز آئی‘‘ پاگل خانہ اگلی گلی میں ہے۔
٭٭٭
٭ استاد (شاگرد سے): تمہاری ہوم ورک کی کاپی کہاں ہے۔
شاگرد: گھر پہ ہے۔
استاد: تمہاری کتابیں کہاں ہیں۔
شاگرد: گھر پہ ہیں۔
استاد: بغیر کتابوں کے اسکول آگئے تمہارا دماغ کہاں ہے۔
شاگرد: (اسی روانی سے) گھر پہ ہے۔
٭٭٭
٭ پہلا شخص (دوسرے سے): خیریت سے آئے ہو۔
دوسرا شخص: نہیں۔ رکشے سے آیا ہوں۔
٭٭٭
٭ پہلا شخص (دوسرے سے): یار میں ناصر کی بات سمجھ نہیں سکا۔
دوسرا شخص: اتنی سی بات تو گدھا بھی سمجھ لیتا ہے۔
پہلا شخص: گویا تم اس کی بات سمجھ گئے۔
٭٭٭
٭ حجام باتیں کرتے ہوئے جلدی جلدی شیو بنا رہا تھا گاہک کہنے لگا۔ شیو بنوانے کے بعد کہاں جائو گے۔
گاہک: اگر استرے سے بچ گیا تو گھر جائوں گا ورنہ ہسپتال سمجھو۔