امید کا چراغ

421

حذیفہ عبداللہ
احمد نویں جماعت کا ایک ذہین طالب علم تھا وہ اپنی نصابی تعلیم کے ساتھ قومی مسائل میں بھی دلچسپی رکھتا تھا اکثر اس کے دوست جمع ہوتے اور مختلف قومی موضوعات پر گفتگو کرتے۔ آج چھٹی کا دن تھا اور اسی طرح کی محفل احمد کے ڈرائنگ میں سجی ہوئی تھی اور کسی موضوع پر بڑی شدت سے بات ہو رہی تھی کہ احمد کے دادا جان گھر میں داخل ہوئے ڈرائنگ روم سے آتی ہوئی آوازیں ان کے کان میں پڑیں تو وہ چند لمحات کے لیے رکے اور پھر ڈرائنگ روم میں داخل ہو گئے ان کو دیکھ کر احمد اور اس کے دوست احترام میں کھڑے ہو گئے دادا جان نے ان کو بیٹھنے کا کہا اور خود بھی بیٹھ گئے۔ دادا جان جب گھر میں داخل ہوئے تھے انہوں نے احمد کے دوست اختر کے جو جملے سنے تھے جس میں وہ قیام پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ مجھے پاکستان سے کئی شکایات ہیں۔
دادا جان نے اختر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اختر میاں جب میں گھر میں داخل ہوا شاید اس وقت آپ لوگ قیام پاکستان کے حوالے سے گفتگو کر رہے تھے میں نے آپ کے جو جملے سنے اس سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ آپ کو پاکستان سے کچھ شکایات ہیں۔ ہاں اب بتائو کیا بات تھی۔ اختر کچھ دیر تو شرمندگی کے انداز میں خاموش رہا پھر بولا دادا جان میرا کہنا یہ تھا کہ قیام پاکستان کے قیام سے ہمیں کیا ملا ہم ایک طویل عرصے سے ہندوئوں کے ساتھ رہ رہے تھے اس معاشرے میں رچے بسے ہوئے تھے تو پھر ہم نے ایک علیحدہ ملک کیوں بنایا اور اگر بنالیا تو پھر ایک قوم بننے کے بجائے زبان، نسل اور برادریوں میں کیوں تقسیم ہو گئے۔
دادا جان نے اختر کی بات پوری توجہ سے سنی پھر ایک لمبا سانس لیتے ہوئے کہا کہ بیٹا آپ کی گفتگو میں دو سوال ہیں… الگ ملک کی ضرورت کیوں اور اگر ملک بن گیا تو ہم ایک قوم کیوں نہیں ہو سکے۔ کچھ دیر خاموشی اختیار کرتے ہوئے بولے۔ پیارے بچوں اختر میاں کی جو بات ہے اس میں جان ہے اس قسم کے سوال ذہن میں اٹھنا فطری بات ہے اول تو ہم کو پاکستان سے شکایت ہونے کے بجائے پاکستان کو ہم سے شکایت کرنا چاہیے۔ قصور پاکستان کا نہیں ہمارا ہے۔ بچوں پاکستان ایک طویل جدوجہد کے بعد حاصل ہوا۔ لاکھوں انسانوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دی تھیں۔ اپنے گھر بار چھوڑے۔ اپنی بستیاں، اپنے شہر چھوڑ دیے ایک نظریے کے لیے ہجرت کی پاکستان ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے بنایا گیا تھا پاکستان کے قیام کے بعد بانیٔ پاکستان کو مہلت نہیں ملی اور جلد ہی ہم سے جدا ہو گئے چند سال بعد قائداعظم محمد علی جناحؒ کے دست راست لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا اور اس کے بعد ہمارے حکمراں ہمارے وطن پاکستان کے ساتھ کھیلتے رہے۔ ملک کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا تھا اور کلمے کی بنیاد پر انگریز سے آزادی حاصل کی تھی اس سے انحراف کیا گیا نہ صرف انحراف کیا ہوا بلکہ اسلام کے خلاف سازشیں شروع کر دیں گئیں۔ بنیادی انسانی حقوق پامال کیے گئے ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اس میں قصور پاکستان کا نہیں ہمارا ہے اور قوم کو زبان، قوموں اور برادریوں میں تقسیم کر دیا گیا جن کو یک جان ہونا تھا وہ دست و گریباں ہو گئے۔ زبان اور علاقوں کی بنیاد پر تقسیم کا عمل آج تک جاری ہے اب بتائو ہم کو شکایت کرنے کا حق ہے۔ نہیں قطعی نہیں ہم تو مجرم ہیں اپنے اس وطن پاکستان کے۔ یہ بات کہہ کر دادا جان خاموش ہو گئے لیکن ان کی آنکھیں پاکستان کے روشن مستقبل کی تلاش میں تھیں۔ دادا کے کچھ بولنے سے پہلے اختر نے پست آواز میں کہا۔ دادا جان میں شرمندہ ہوں۔ قصور پاکستان کا نہیں ہمارا ہے۔ ہمارے نا اہل حکمرانوں کا ہے جنہوں نے قوم کو منزل سے دور کیا زبان، اور علاقوں کی بنیاد پر تقسیم کیا دادا جان پولے شاباش بچوں آپ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے میں آج بھی پر امید ہوں۔ مجھے آپ سے امید ہے۔ آپ ہی پاکستان کا مستقبل ہو۔ جشن آزادی مناؤ قومی پرچم سربلند کرو۔ چراغاں کرو۔ اس عزم کے ساتھ کہ ہم پاکستان کو ایک اسلامی فلاح ریاست بنائیں گے، جہاں زبان اور علاقوں سے بالاتر ہو کر سب ایک ہوں گے سب کو یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔ دشمن ہماری طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکے گا۔ آپ ہی امید کا چراغ ہو۔ چراغ سے چراغ جلاتے رہو۔ علم کی روشنی پھیلاتے رہو۔

حصہ