راشد عزیز
بعدازخرابیٔ بسیار پاکستان ہاکی فیڈریشن نے قومی کھلاڑیوں کے ڈیلی الائونس ادا کرنے کا اعلان کردیا، اور اب ہماری ٹیم جکارتہ میں ہونے والے ایشین گیمز میں حصہ لے گی۔ اگر یہ بات اتنی ہی آسان تھی تو پھر دنیا بھر میں اپنے ملک کو رسوا کرنے کی کیا ضرورت تھی، اور جو کچھ ہوا اس کا ذمے دار کون تھا؟ اور کیا اس ناقابلِ معافی جرم کی سزا ذمے داران کو ملے گی؟
ایک ہفتہ قبل کراچی میں جاری قومی ہاکی ٹریننگ کیمپ کے کھلاڑیوں نے اخبارات کو یہ بیان دے کر کہ اگر ہمارے کئی ماہ کے رکے ہوئے واجبات ادا نہ کیے گئے تو ہم ایشین گیمز کا بائیکاٹ کریں گے، ملک و قوم کی جگ ہنسائی کرائی تھی۔ کھلاڑیوں کو ادائیگی تو ہونی ہی تھی، آج نہیں تو کل ہوجاتی، اور اگر انھیں پیسے نہ ملتے تو کیا وہ اس پوزیشن میں تھے کہ واقعتا ایشین گیمز کا بائیکاٹ کردیتے؟ لیکن ان کے بیان سے جو رسوائی ہوئی اُس کا ازالہ کیوں کر ممکن ہے!
ایک خبر یہ بھی ہے کہ کھلاڑیوں سے یہ کام کرایا گیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کھلاڑیوں سے یہ کام فیڈریشن کے مخالف لوگوں نے کروایا، ان کا مقصد فیڈریشن کے صدر خالد سجاد کھوکھر اور سیکریٹری شہباز احمد کو رسوا کروانا تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آس لگائے بیٹھے ہیں کہ موجودہ عہدیدار باہر ہوں تو ان کی باری آئے۔ لیکن کچھ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کام خود فیڈریشن کے عہدیداروں نے کرایا تھا جو حکومت سے اپنی پھنسی ہوئی گرانٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوچکے تھے، اور انھیں یہ ترکیب سوجھی جو کامیاب رہی، اور گرانٹ کی بحالی سے نہ صرف کھلاڑیوں کے الائونس ادا ہوجائیں گے بلکہ فیڈریشن کے دوسرے کام بھی آسان ہوجائیں گے۔ رہی ملک و قوم کی ساکھ کی بات، تو اس کی پروا پہلے کس نے کی تھی جو اب ہوتی!
پی ایچ ایف نے یہ اعلان تو کردیا کہ کھلاڑیوں کے واجبات جکارتہ روانگی سے قبل اُن کے اکائونٹس میں منتقل کردیے جائیں گے، اور اس یقین دہانی پر کھلاڑیوں نے بائیکاٹ کی دھمکی بھی واپس لے لی ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بات یہیں پر ختم ہوجاتی ہے؟ کیا یہ بات اتنی معمولی تھی؟ کیا قومی کھلاڑیوں کی کوئی قومی ذمے داریاں نہیں ہوتیں؟ کیا فیڈریشن ٹیم کے کپتان رضوان سینئر سے بازپرس نہیں کرے گی؟ انھیں پریس میں جاکر یہ بیان دینے کا اختیار کس نے دیا؟ اگر یہ روایت پڑ گئی تو کسی غیر ملکی دورے پر یہ کھلاڑی ہڑتال کر بیٹھے تو پھر کیا ہوگا؟
کراچی میں جاری ٹریننگ کیمپ کے دوران رضوان سینئر نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ فیڈریشن کی جانب سے انھیں کئی ماہ سے ڈیلی الائونس کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے جس کے باعث وہ سخت ذہنی کوفت سے دوچار ہیں، ان کے الائونسز کی مجموعی رقم فی کھلاڑی 8 لاکھ روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ کپتان کے علاوہ دیگر دو کھلاڑیوں شفقت رسول اور عمران بٹ نے بھی احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں اپنے روزمرہ کے اخراجات اور دیگر ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہوگیا ہے، اور اگر فوری طور پر ان کے واجبات ادا نہیں کیے جاتے تو وہ ایشین گیمز کا بائیکاٹ کردیں گے۔ بغاوت کی اس کھلی دھمکی کے بعد ان کی بات سن لی گئی اور اب سب کو پتا چل گیا ہے کہ اگر بات منوانی ہو تو کیا کرنا چاہیے۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ان کھلاڑیوں کو بھی پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ فیڈریشن کی ذمے داری ہے کہ وہ کچھ بھی کرے لڑکوں کو ڈیلی الائونسز ملنے چاہئیں، لیکن لڑکوں کو بھی یہ معلوم ہونا چاہیے اور یہ بتانا فیڈریشن کی ذمے داری ہے کہ ڈسپلن بھی کوئی چیز ہوتی ہے، اور ہاکی کے کھیل میں جو پروفیشنل نہیں امیچر گیم ہے اور سب سے بڑھ کر پاکستان کا قومی کھیل ہے، کھلاڑیوں کی یہ اوّلین ذمے داری ہے کہ وہ نظم و ضبط کی مکمل طور پر پابندی کریں۔ جو مطالبات ہوں، جو بھی کہنا ہو، مانگنا ہو اسے فیڈریشن اور اپنے درمیان محدود رکھیں، پریس میں ہڑتال کی دھمکی دے کر ملک و قوم کی ذلت و رسوائی کا سبب نہ بنیں۔ اگر ہاکی فیڈریشن اس واقعے کے ذمے دار لوگوں کو شوکاز نوٹس جاری نہیں کرتی تو پھر آگے کیا ہوتا ہے کوئی نہیں کہہ سکتا۔ اس طرح کی بغاوت کے فوری آثار ایشین گیمز میں ٹیم کی کارکردگی پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ کل کو کوچ، منیجر اور کپتان کے خلاف بھی بغاوت ہوسکتی ہے، ٹیم میں گروپنگ بھی ہوسکتی ہے، اور وہ ٹیم جو پہلے ہی اپنی کارکردگی کے لحاظ سے دنیا کی بدترین ٹیموں میں شمار ہورہی ہے، مزید زوال کا شکار ہوجائے گی۔
کھلاڑیوں کو ادائیگی تو ہوجائے گی، وہ ایشین گیمز میں حصہ بھی لیں گے، لیکن ان کی کارکردگی کیا ہوگی اس کا بھی اندازہ لگایا گیا ہے؟ کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ ٹیم جو اب سے پندرہ بیس برس قبل دنیا کی بہترین ٹیم ہوا کرتی تھی، ہر بین الاقوامی ٹورنامنٹ، اولمپکس، ورلڈ کپ اور چیمپئنز ٹرافی میں اوّل، دوم یا سوم پوزیشن حاصل کرتی تھی، اب ہر ٹورنامنٹ میں آخری پوزیشن کی ٹیم کیوں بن گئی ہے؟ کیا فیڈریشن کے عہدیداروں کا کام صرف اللّے تللّے کرنا، غیر ملکی دورے کرنا اور غیر ملکی کوچز اور ٹرینر بلا کر سب کچھ اُن کے حوالے کرکے چین کی نیند سوجانا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ایک عام پاکستانی کو آج 1960ء کے اولمپکس میں شرکت کرنے والی ٹیم کے گول کیپر نصیر بندہ کا نام تو یاد ہے لیکن وہ موجودہ ٹیم کے کپتان کا نام نہیں بتا سکتا! ہماری قومی ٹیم جو ہماری شناخت ہوتی تھی، روز بروز پستی کی طرف کیوں جارہی ہے؟ ہمارے یہاں بڑے کھلاڑی پیدا ہونا کیوں بند ہوگئے ہیں؟ یہ کھیل اتنا غیر مقبول کیوں ہوگیا ہے کہ ہمارے بچے اس کھیل کی طرف راغب ہی نہیں ہورہے ہیں؟ ہمارے ملک میں سمیع اللہ، اصلاح الدین، شہناز شیخ، حنیف خان، حسن سردار، سہیل عباس، سلیم شیروانی، منصور احمد، تنویر ڈار، خالد محمود، حبیب کڈی، منورالزماں، منظور جونیئر، طارق عزیز، قاسم ضیا، اختر رسول، انوار احمد خان، بریگیڈیئر عاطف جیسے کھلاڑی اب کیوں پیدا نہیں ہورہے؟ اسکولوں، کالجوں میں ہاکی کیوں ختم ہوگئی ہے؟ سرکاری اور دیگر کمرشل اداروں نے اپنی ہاکی ٹیمیں کیوں ختم کر دی ہیں؟ ہے کوئی ذمے دار جو ان باتوں کا جواب دے۔