محمد حمید شاہد
واقعیت اورنئے زمانے کی فکر
کچھ نے کہا ’’واقعیت‘‘ اور ’’نئے زمانے کی فکر‘‘ شہزاد کی شاعری کا وظیفہ رہے ۔ کچھ کا کہنا ہے کہ حقیقت اور فکر جہاں غالب رہیں وہاں شاعری کم کم رہ جاتی ہے ۔میں پہلی بات کسی حد تک مانتا ہوں مگر دوسری بات مان بھی لوں توبھی ان لوگوں کے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکوں گا جو شعر کہنے سے پہلے شعور کو طاق پر رکھ دیا کرتے ہیں ۔ نہ ان لوگوں کا ساتھ دیا جا سکتا ہے جو شاعری کو محض شعور کی کارستانی بنا دیتے ہیں اور شعر کی جمالیات کے قرینے ان کا مسئلہ نہیں رہتے ۔ خیر،اس معاملہ کو حتمی طور پرطے کرلینا ممکن ہی نہیں ہے کہ شعرمیں احساس اور فکر یا شعوری دھارے کے بیچ کیا تناسب ہو۔ ان الجھنوں کے بیچ اب رہا شہزاد احمد کا تخلیقی چلن ، تو یوں ہے کہ اس باب میں مان لینا ہو گا ،شہزادکے ہاں یہ جو کم کم رہ جانے والی شاعری ہے یہی عمر بھران کا مسئلہ رہی ہے ۔ خود شہزاد احمد کا اس باب میں کہنا ہے :
’’مجھے اس پر اصرار نہیں
کہ جو کچھ میں لکھوں اسے شاعری کہا جائے‘‘
(تیسرا کنارہ)
نثر میں شاعری ‘ کے نام سے جن تخلیقات کو شہزاد احمد نے ، ’’معلوم سے آگے ‘‘ میں مجتمع کیا ، ان میں مروج شعری قرینوں کوشاید ہی مہمیز دی گئی ہو ۔ اچھا، شہزاد احمد نے انہیں نثم یا نثری نظم بھی نہیں کہا ہے گویا انہیں اس پر بھی اصرار نہ تھا کہ انہیں نظم کی صورت پڑھا جائے ایسے میں اگر نظم کی صورت لکھی گئی ان سطروں کو ایک پیرا گراف میں لکھ لیا جاتا تو شاید ہمارا دھیان بھی اس طرف نہ جاتا کہ شاعر نے اسے نثری شاعری کہہ رکھا ہے۔ ایسے میں اگر شہزاد احمد یہ کہتا ہے کہ جو کچھ وہ لکھتا رہا ، معروف معنوں میں وہ شاعری نہیں ہے تو ہمیں ذرا رُک، اس کی شاعری پڑھنے سے پہلے اس کے ہاں متشکل ہونے والے شاعری کے تصور کو بھی دیکھ لینا چاہیے۔ شہزاد احمد نے تیسرا کنارہ میں ہی یہ وضاحت بھی کر رکھی ہے:
۔۔۔۔۔
جس شے کو عام طور پر شاعری کہا جاتا ہے
وہ سامنے کی ایسی باتیں ہیں
جن میں معانی کی صرف ایک تہہ موجود ہوتی ہے
مگر وہ تہہ ایسی ہے
جس سے آپ پچھلے کئی سوبرس سے آشنا ہیں
اور اب اس کے علاوہ آپ کو کچھ مطلوب نہیں
جیسے بچہ روز سونے سے پہلے
بہت اصرار کے ساتھ ایک ہی کہانی سنتا ہے
ٓآپ بھی ایک ہی طرح کی شاعری سن کر خوش ہو جاتے ہیں ‘‘
(تیسرا کنارہ)
گویا شہزاد احمد کا مسئلہ وہ شاعری ہر گز نہیں ہے جس میں :
۱۔ سامنے کی باتیں ہوں
۲۔ کہی ہوئی بات نئے ڈھنگ سے کہی گئی ہو
۳۔ فقط ذوق شعری کی تسکین مطلوب ہو
خواب کے ہم پلہ
یہ نہیں ، تو پھر کیا؟ شہزاد احمد نے اسے بھی ، تیسرا کنارہ میں نشان زد کر رکھا ہے:
۱۔ شاعری تو معلوم سے نامعلوم اور نامعلوم سے معلوم کی طرف ایک انجانا سفر ہے جسے ہم پوری طرح پہچانتے بھی نہیں
۲۔یہ نا آشنا اور نا مانوس واردات کے ساتھ قدم بہ قدم چلنا ہے
۳۔ شاعری محض برتی ہوئی اور مانوس حقیقت کے بیان کی بہ جائے تیسرے کنارے کی تلاش ہے۔
کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ شہزاد احمد نے حلقہ ارباب ذوق ، اسلام آباد کے سالانہ جلسہ میں صدارتی خطبہ دیا تھا ، اس خطبہ میں بھی وہ شاعری کیا ہے ؟ کی الجھن کو سلجھاتے رہے ۔ انہوں اس خطبے میں ایک دل چسپ بات کہی تھی ۔ بات کچھ یوں تھی کہ وہ کلام جسے پڑھ کر قاری اپنی ساری توانائی اچانک ریلز کر دے ، اس میں شاعری نہیں ہوتی ۔ مجھے یاد ہے ، اس باب میں انہوں نے مزاحیہ شاعری کی مثال دی تھی کہ ادھر آپ نے شگفتہ کلام سنا ، ادھر آپ کھلکھلا کر ہنس دیے، لو قصہ تمام ہوا۔ شہزاد احمد نے اسے بھی شاعری ماننے سے انکار کیا تھا جس میں سے معانی اپنے لفظوں جتنے ہی برآمد ہوتے ہوں ۔ ان کا خیال تھا ، معنی کی کلی ترسیل اپنے پیچھے ایک خلا چھوڑ جاتی ہے ۔ اس باب کی مثال جو انہوں نے دی وہ مشاعروں میں سنائی جانے والی شاعری تھی ۔ خوب داد پانے والی اور معنی کی کلی ترسیل کے بعد لفظوں کو اس غبارے سا بنا دینے والی جس میں سے ساری ہوا نکل گئی ہو۔ اس خطبے میں شہزاد کے نزدیک شاعری خواب کے ہم پلہ تھی ، کسی ایک تعبیر پر اکتفا نہ کرنے والی ، تاہم ممکنہ تعبیروں کے لیے قاری کے اندر اکتشاف کا معجزہ رکھنے والی۔ خود انہی کے لفظوں میں :
’’ شاعری اور خواب کے تاروپود ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں ، کچھ سمجھ میں آنے والے اور کچھ سمجھ میں نہ آنے والے۔ ‘‘
محض خوب ، نہ محض واقعیت اور نئی فکر
شہزاد احمد کے نزدیک محض خواب شاعری ہیں نہ برتی ہوئی باسی حقیقت ۔ اس کا ایقان ایک نور سے منور ہے جو بالعموم اس رجحان کے حامل تخلیق کاروں کے ہاں عنقا ہو چلا ہے ، مگر لطف یہ ہے کہ اس کے ہاں ہے ۔
نظر کے نور نے روشن کیا تھا سینے کو
اب اہل درد ترستے ہیں اس قرینے کو
’’نور کا ایک طوفان ہے
جو بہت تیز ہے
پھر بھی آگے گزرتا نہیں
اپنے پیچھے بھی جاتا نہیں ‘‘
سو، ان کے ہاں خواب کے ہم پلہ سہی مگراس خواب کو بھی اسی نور کے جھپاکے میں دیکھنا ہوگا ۔ رہ گیا معاملہ سائنسی حقیقت والا تو اس باب میں شہزاد کا موقف ہے کہ
’’ سائنس دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک تو وہ جسے ہم عام زندگی سے مطابقت رکھنے کے باعث قبول کرتے ہیں اور دوسری وہ جو ہمارے روزمرہ کے تجربات سے مختلف ہونے کے باعث ہمارے لیے بالکل اجنبی ہو گئی ہے ۔ موجودہ زمانے میں ، جو سپیس کا زمانہ ہے ، کہا جاسکتا ہے کہ اس بات کا امکان پیدا ہواہے کہ ہم مکان یعنی سپیس کے اندر دور تک داخل ہو سکیں۔ اس معاملے میں ادب اور شاعری پیش رو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ‘‘
(شہزاد احمد :خطبہ صدارت : حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد )
اسی بات کو شہزاد احمد نے ’’اترے مری خاک پر ستارہ‘‘ میں شامل ایک حکایت میں یوں بیان کر رکھا ہے:
’’ جب خلا باز ایک دور دراز کہکشاں کے کسی آباد سیارے پر پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں نوع انسانی (Homosapien) پہلے سے موجود ہے ۔ چنانچہ انہوں نے ان سے سوال کیا کہ تم اس سیارے پر کس ذریعے سے پہنچے۔
جواب ملا ۔
شاعری کے ذریعے۔‘‘
یوں دیکھیں تو شہزاد احمد کی حقیقت سائنسی حقیقت سے زیادہ گہری اور بڑی ہے۔
فلسفہ سائنس نفسیات اور شاعری
شہزاد احمد کا جب بھی نام آتا ہے ایک ہی سانس میں بالعموم فلسفہ سائنس نفسیات اور شاعری کو بھی گنوا لیا جاتا ہے۔ اچھا، یہ بجا کہ تخلیق کار کو کوایک ساتھ کئی کشتیوں میں سوار نہیں ہونا چاہییے ۔ تخلیقی صلاحیتوں کی کمی کے شکار افراد کو تو اس باب میں بہ طور خاص اجتناب برتنا چاہیے مگر وہ تخلیق کار جن میں تخلیقی توانائی معلوم سے نامعلوم کی سمت یا نامعلوم سے معلوم کی سمت مسلسل رواں رہے وہ ایک ہی صنف یا ایک ہی موضوع کے ہو کر رہ ہی نہیں پاتے ۔ شہزاد احمد کو بھی ایسے ہی بھر پور اور ہمہ جہت صلاحیت رکھنے والے تخلیق کاروں میں گنوایا جاسکتا ہے۔ شہزاد احمد کو تفہیم ذات، شعور نفس اور مطالعہ کائنات کی لگن رہی جس نے ان کے شاعری کو سائنس ، فلسفہ اور نفسیات کے فکری آہنگ کی قربت سے نوازا مگر اس چلن میں جو معنیاتی نظم اور انسلاکات قائم ہوتے ہیں وہ بہر حال ان ڈسپلنز کی بجائے خود شاعری کی روایت سے قریب تر ہیں ۔ اسی روایت اور معنی کی تلاش کے امتزاج سے اس کی شاعری کا مزاج متشکل ہوتا ہے ۔ اور اسی چلن نے اس کے ہاں فن پاروں میں آرائشی کردار کو لگ بھگ منہا کر دیا۔ اس باب میں کہیں کہیں تو لگتا ہے کہ وہ قرینے جو شعری جمالیات کا حصہ رہے ہیں وہ بھی اس آرائش کا حصہ جان کر الگ رکھ دیے گئے ہیں ۔ نظموں کے مطالعہ کے دورآن تو اس کا احساس شدت سے ہوتا ہے۔
بے شمار احباب ، ہر لمحہ نئے چہروں کے ساتھ
مجھ کو ملتے ہیں
مجھے کہتے ہیں ،پہچانو ہمیں
میں انہیں پہچان لیتا ہوں
مگر اس کھیل میں
بھول جاتا ہوں کہ میں خود کون ہوں
(کس قدر تنہا ہے تو)
نظموں کو یوں ٹکڑا ٹکڑا پڑھیں گے تو سطریں سپاٹ لگیں گی ، ایک ہی معنی اچھالتی ہوئیں مگر نظم مکمل کرنے پر ایک نئی نو ع کی جمالیات آپ پر کھلنے لگتی ہے اس کا تعلق نظم کے خارجی اسٹریکچر سے کہیں زیادہ اس کے ڈیپ اسٹریکچر سے ہوتا ہے جو سطر یا مصرع کی ساخت سے نہیں بانتا اس میں معنیاتی دھارے کے بہاؤ سے متشکل ہوتا ہے ۔ (جاری ہے)