ممکنہ پی ٹی آئی حکومت اور اپوزیشن

676

محمد انور
anwermuhammad@hotmail.com
عام انتخابات کے بعد ملک کی حکمرانی کے لیے حکومتی جماعت کا انتخاب ہونا باقی ہے۔ پاکستان کے 72 ویں یوم آزادی سے قبل حکومت کے قیام کے امکان کو الیکشن کمیشن نے ہی مسترد کردیا۔ان کا کہنا ہے کہ براہ راست منتخب ہونے والے ارکان کی تقریب حلف برداری کے بعد مخصوص نشستوں پر انتخاب ہوں گے جس کے بعد قائد ایوان اسپیکر ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کیا جائے گا جس کے لیے وقت درکار ہے۔ وزیراعظم کے انتخاب کے بعد تقریب حلف وفاداری ہوگی اس طرح ملک کی نئی حکومت کے سربراہ یعنی وزیراعظم کے چناو کے ساتھ حکومت کا قیام بھی عمل میں آجائے گا۔ لیکن اس بار وزیراعظم ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخابات گزشتہ ادوار کی طرح اسمبلی کے پرامن ماحول میں ہونے کے امکانات کم ہیں۔ چونکہ اس بار غیر اکثریتی بڑی و چھوٹی جماعتوں کا اتحاد بھی سامنے آ چکا ہے۔ جسے گرینڈ اپوزیشن کا نام بھی دیا جارہا ہے۔ اس ممکنہ گرینڈ اپوزیشن میں شامل مسلم لیگ ن ، پاکستان پیپلزپارٹی اور متحدہ مجلس عمل سمیت ہم خیال جماعتوں نے اپوزیشن کا کردار ادا کرنے سے قبل وفاق میں حکومت بنانے کا اعلان کردیا۔ جس کی وجہ سے وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر ایوان کی صورتحال غیر معمولی طور پر گرم رہنے کے خدشات ہیں۔ خیال رہے کہ مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلزپارٹی ایم ایم اے و دیگر کے ساتھ پہلی بار ایک ساتھ نظر آرہی ہیں۔یہ پارٹیوں کو اپنے موقف کے لیے متحد ہونے کا موقع پاکستان تحریک انصاف کے قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ بھاری نشستیں حاصل کرنے اور حکومت بنانے کے قابل ہوجانے کے باعث حاصل ہوا ہے۔
اگرچہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز قومی اسمبلی و سینیٹ کے ایوان میں ہمیشہ ہی ایک دوسرے کی مخالف رہیں ہیں اس لیے پہلی بار ان کا ایک ساتھ ہونا غیر فطری بھی قرار دیا جارہا ہے۔ یہ جماعتیں ماضی میں آمریت کے خلاف تو اکھٹی رہی ہیں مگر یہ پہلا موقع ہوگا جب یہ جماعتیں اپنے سیاسی مفادات کے لیے جمہوری دور میں مشترکہ اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہوں۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ کو عام انتخابات سے قبل ہی اس بات کے خدشات نظر آنے لگے تھے کہ وہ آئندہ انتخابات میں پہلے نمبر کی جماعتوں کے بجائے دوسرے اور تیسرے نمبر کی ہی پارٹیاں بن سکیں گی شاید یہی وجہ ہے کہ ان جماعتوں نے نئے چارٹرڈ آف ڈیموکریسی کی تیاری پر اتفاق بھی کرلیا تھا۔ ان کے خیال میں آنے والے دنوں میں جو جمہوری حکومت وجود میں آئے گی وہ ان دونوں کے لیے کسی آمریت سے کم نہیں ہوگی۔ سو تحریک انصاف کے ملک کی نمبر ون جماعت بننے سے اب یہ دونوں جماعتیں اسے ایک آمرانہ حکومت کے طور پر ہی دیکھ رہے ہیں۔
۔ جبکہ دوسری طرف عام انتخابات میں برتری حاصل کرنے والی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) اور آزاد اراکین حکومت سازی کے لیے تیار ہیں۔ پی ٹی آئی کا دعوی ہے کہ ان کے حمایتیوں کے ساتھ حکومت سازی اور وزیراعظم کے انتخاب کے لیے 149 سیٹیں موجود ہیں جس کی وجہ سے وہ باآسانی حکومت تشکیل دے سکتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر کس طرح حکومت بناتے ہیں۔ تاہم ان کی جانب سے حکومت بنانے کے اعلان سے یہ بات واضح ہے کہ یہ اپنی حکومت بنا سکے یا نہیں بناسکے لیکن پی ٹی آئی کی ممکنہ حکومت کو باآسانی چلنے نہیں دیں گے۔ پی ٹی آئی کو ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ساتھ ہی پی ٹی آئی کی حکومت اور ممکنہ وزیراعظم عمران خان کو بھی اپنی اتحادی ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کے دباؤ میں رہنا پڑے گا۔یہ دو طرفہ پریشر کیا پہلی بار وفاقی حکومت بنانے والی تحریک انصاف برداشت کرسکے گی ؟ ایسے حالات میں کیا وہ اپنی تحریک کے رہنماؤں و کارکنوں کے ساتھ بھی انصاف کرسکے گی ؟ یہی وہ سوالات ہیں جس سے پی ٹی آئی اور اس کی حکومت کا مستقبل وابستہ ہے۔
اے پی سی کے بڑا فیصلہ…ڈپٹی اسپیکر ایم ایم اے کا ہوگا
مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سمیت اپوزیشن کی ہم خیال جماعتوں نے وزارت عظمیٰ، قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے متفقہ امیدوار لانے کا اعلان یقینا ایک بڑا سیاسی اعلان ہے۔ یہ اعلان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی زیرصدارت کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) میں راجہ ظفرالحق، مشاہد حسین سید، احسن اقبال، سردار ایاز صادق، مولانا فضل الرحمن، لیاقت بلوچ، میر حاصل بزنجو اور آفتاب شیر پاؤ ‘ شیری رحمن، سید خورشید شاہ، راجا پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی اور فرحت اللہ بابر شریک تھے کل جماعتی کانفرنس نے حکومت سازی کے لیے اپنا لائحہ عمل تیار کرتے ہوئے وزیر اعظم کے لیے امیدوار مسلم لیگ (ن)، اسپیکر کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی جبکہ ڈپٹی اسپیکر کے لیے امیدوار متحدہ مجلس عمل سے لانے کا فیصلہ کیا۔ یہ بھی طے کیا گیا کہ ایوان کے اندر اور باہر دھاندلی کے خلاف بھرپور احتجاج اور دھاندلی کی تحقیقات کا لائحہ عمل تشکیل دینے کے لیے 16 رکنی کمیٹی بنائی جائے گی۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے رہنما پیپلز پارٹی شیری رحمن نے کہا کہ ’’مخالفین نے جو مینڈیٹ لیا ہے وہ دھاندلی زدہ ہے، یہ اتحاد اس جعلی الیکشن کو مسترد کرتا ہے، تاہم ہم نے ایوانوں میں جانے کا فیصلہ کیا ہے، جہاں ہم کٹھ پتلی حکومت کا مقابلہ کریں گے اور ایوان کے اندر اور باہر بھرپور احتجاج کریں گے۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ ’رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) نظام پر نادرا نے اعتراف کیا ہے کہ اتفاق سے یہ معطل نہیں ہوا بلکہ اسے بند کیا گیا، جبکہ جس سطح کی مداخلت کی گئی اس سے ایک جماعت کو الیکشن کا استحقاق دیا گیا۔

حصہ