تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آگیا

1500

سید اقبال چشتی
انتخابات جس خاموشی کے ساتھ ہوئے اس سے قبل کبھی ایسے انتخابات نہیں ہوئے بلکہ جیتنے کے بعد بھی کو ئی دھوم دھڑکا شور شرابا نظر نہیں آیا البتہ دھاندلی کا شور انتخابات کے شور سے زیادہ سنائی دے رہا ہے۔ ہر بات پر ناچنے والے اتنی بڑی جیت پر خاموش بیٹھے ہیں شاید وہ بھی جانتے ہیں کہ جیت کس کی مرہون منت ہے اس لیے ناچنے گانے اور جشن بنانے سے احتراز کیا گیا۔ اقتدار کی مسند پر کس کے سہارے کے ذریعے پہنچے اس پر عالمی میڈیا پر چھپنے والے کارٹون پوری کہانی سنا رہے ہیں بہرحال ایمپائر کی انگلی اور حکمت عملی دونوں نے کام کر دکھایا اور دشمن کو شکست ہو گئی اور جس طرح کہا گیا تھا کہ سال 2018 تبدیلی کا سال ہے اُن کے کہے کے عین مطابق ’’تبدیلی‘‘ آ گئی ۔
تبدیلی کی ہوا ضرور تھی مگر اتنی بھی نہیں‘ اس کا اندازہ دیگر پارٹیوں کو پورے پاکستان سے ملنے والے ووٹ بالخصوس نئی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے جس طرح الیکشن میںووٹ لیے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تبدیلی زبردستی لائی گئی ہے اور میڈیا پر اربوں روپے کے اشتہارات کے ذریعے ذہن سازی کی گئی اور یہ تاثر دیا گیا کہ اس بار تبدیلی ہی کی باری ہے۔ اس سے اندزاہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح میڈیا بھی انگلی کے اشاروں پر چل رہا تھا۔ جو لوگ بلدیاتی الیکشن میں ایک ہزار ووٹ بھی نہیں لے سکے تھے‘ وہ لوگ قومی اور صوبائی الیکشن میں جیت گئے اسی لیے سیاسی پارٹیاں کہہ رہی ہیں کہ الیکشن کمیشن نے پورا دن صاف شفاف الیکشن کر ایا مگر پولنگ ختم ہونے کے بعد نتائج پر قبضہ کر لیا گیا۔
میں این اے 243 کے ایک سرکاری کالج میں پولنگ ایجنٹ تھا اور اسی جگہ میری سالی صاحبہ‘ ان کی بیٹی اور بیٹا بھی پو لنگ ایجنٹ تھے‘ میری جگہ پانچ بجے دوسرے فرد کو بھیج دیا گیا۔ ہر کمرے میں پانچ یا چھ بیلٹ بکس استعمال ہوئے اس طرح چوبیس سو مرد اور خواتین کے کُل ووٹ ڈالے گئے لیکن ان چو بیس‘ پچیس سو ووٹوں کوگننے میں رات کے دو بجا دیے گئے اور جب رزلٹ دیا گیا تو سادہ صفحے پر دیا گیا‘ نہ یہ بتا یا گیا کہ کس کے کتنے ووٹ ہیں بس آ خر میں فارم 45 کے بغیرنتیجہ دے دیا گیا اس پر ہمارے ایک ساتھی نے پریزائڈنگ افسر سے کہا کہ ’’اگر میں آپ کو ایک ہزار والی دس نوٹوں کی گڈیاں دوں تو آپ آدھے یا ایک گھنٹے میں گن لیں گے مگر آپ سے ڈھائی ہزار ووٹ گنتی نہیں ہو رہے۔‘‘ جس پر پریزائڈنگ افسر نے کہا ’’اگر آپ میری جگہ ہو تے تو پتا چلتا۔‘‘ اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ پو لنگ کا عملہ کس قدر دبائو میں تھا ہم نے پریزائڈنگ افسر کو ایم کیو ایم کے ہاتھوں مار کھاتے اور ٹوائیلٹ میں گھنٹوں بند ہونے والے مناظر بھی دیکھے ہیں‘ شاید اُس وقت بھی پولنگ کا عملہ اتنا ذہنی دبائو میں نہیں ہوتا ہوگا جتنا اس الیکشن میں پولنگ کے بعد دیکھا گیا۔ حیرت تو اس بات پر تھی کہ سیاسی جماعتوں کے پو لنگ ایجنٹس‘ جن میں جیتنے اور ہارنے والے سب ہی شامل تھے‘ کسی کو رات گئے تک نتیجہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی الیکشن کمیشن کے پاس آر ٹی ایس پر پہنچا جس کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ آر ٹی ایس کا نظام بیٹھ گیا تھا یا بیٹھا دیا گیا تھا‘ مگر ٹی وی چینلز پر نتیجے نشر ہو رہے تھے۔ ان میڈیا والوں کو کون نتائج بتا رہا تھا کہ فلاں پارٹی کا فرد اتنے ووٹ لے کر آگے اور فلاں پارٹی اتنے ووٹ لے کر پیچھے ہے۔7 بج کر پانچ منٹ پر پرویز خٹک کا نتیجہ دکھایا گیا کہ وہ 56 فیصد ووٹ لے کر جیت گئے ہیں۔ کراچی میں کچرے کے ڈھیر سے اور ملک کے دیگر مقامات سے ملنے والے بیلٹ پیپرز بہت کچھ بتا رہے ہیں۔ انہی بنیادوں پر دیگر سیاسی پارٹیاں احتجاج کر رہی ہیں کہ الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ نے اپنا کام دکھایا ہے۔ سب سے زیادہ کسی کو پارلیمنٹ سے دور رکھنے کی سازش ہوئی ہے تو وہ اسلام پسندوں کا اتحاد ایم ایم اے ہے‘ جس میں مولانا فضل الرحمن بھی ہار گئے ہیں اور اب مولانا سوال کر رہے ہیں کی آرمی چیف وضاحت کریں کہ ووٹ کی طاقت سے کس دشمن کو شکست ہو ئی ہے؟
اسٹیبلشمنٹ کو مورود الزام ٹھرایا جا رہا ہے کہ انھوں نے یہ سارا کچھ لاڈلے کے لیے کیا ہے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کسی کی نہیں ہوتی یہ بات مولانا فضل الرحمن بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ جب ایم ایم اے کی کے پی کے میں حکومت تھی اور جنرل مشرف دوبارہ صدر پاکستان منتخب ہونا چاہتے تھے تو ایم ایم اے کی قیادت نے فیصلہ کیا تھا کہ صوبائی اسمبلی تحلیل کر دی جائے تو جنرل مشرف صدر منتخب نہیں ہوسکیں گے۔ اگر مولانا اس فیصلے کو تسلیم کر کے صوبائی اسمبلی تحلیل کردیتے تو نہ جنرل مشرف دوبارہ صدر پاکستان منتخب ہوتے اور نہ اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہوتی۔ اسٹیبلشمنٹ کو سہارا فراہم کرنے اور سیاسی قائدین کی بات نہ ماننے کا نتیجہ یہ ہے کہ اُسی اسٹیبلشمنٹ نے مولانا کے ساتھ ہاتھ کردیا اور وہ پہلی بار پارلیمنٹ سے باہر ہیں اور تمام سیاسی پارٹیاں اور خود ایم ایم اے میں شامل جماعتیں مولانا کی بات اور تجویز سے متفق نہیں ہیں۔
سیاسی منظر تبدیل ہوتے رہتے ہیں‘ کل کیا ہوگا‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کل کے دشمن آج دوست اورکل کے دوست آج دشمن بنے ہو ئے ہیں۔ اسی لیے تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف کی واپسی نے پنجاب کی سیاسی فضا کو تبدیل کر دیا تھا مگر کسی کو نواز شریف کا وطن واپس آنا پسند نہیں آیا کہ اس طرح لوگوں کا رجحان تبدیل ہو رہا ہے۔ پنجاب ان کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے اس لیے ضد میں وہ سب کچھ کیا گیا جو پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ شاید محترمہ فاطمہ جناح اور ایو ب خان کے درمیان ہو نے والے صدارتی انتخاب میں زبردست دھاندلی کی گئی تھی‘ ایوب خان کا وہ مرسلہ کہ جس میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ’’ہم اسلام پسندوں کے ہاتھوں میں پاکستان کو نہیں جا نے دیں گے‘‘ جو وکی لیکس کی طرح اب عام ہو چکا ہے کیوں کہ ملک کی تمام مذہبی جماعتوں نے فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی‘ اُس وقت بھی یہی فیصلہ کیا گیا تھا کہ اسلام پسندوں کے ہاتھوں میں اقتدار نہیں جانے دیا جائے گا اس لیے اس بار بھی یہی کھیل ایک بار پھر ’’تبدیلی‘‘ کے نام پر کھیلا گیا۔
تبدیلی کیسے آئے گی یہ سب جانتے ہیں کیوں کہ اس ملک کے حکمرانوں کے پاس ڈرائیونگ سیٹ نہیں ہوتی اس لیے وہی ہوگا جو اس سے قبل ہوتا رہا ہے۔ تبدیلی کی ایک جھلک عمران خان کی الیکشن کے بعد مختصر تقریر سے ہی لگا لیا جاسکتا ہے کہ جس محتاط زبان اور مختلف نکات سامنے رکھ کر جس طرح گفتگو کی گئی وہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب بازاری زبان نہیں چلے گی‘ انگلی پکر کر آئے ہو تو انگلی پکڑ کر ہی چلنا ہوگا۔
تبدیلی کے نام پر اچھی بات جو سامنے آئی کہ لوگ ووٹ ڈالنے آئے۔ پچھلے الیکشن کے مقابلے میں عوام نے اس بار زیادہ ووٹ ڈالے۔ ملک میں سیاسی شعور اجاگر ہو نے کے بعد بھی کچھ نیا نہیں ہوگا کیوں کہ تحریک انصاف کی ٹیم میں وہی پرانے چہرے ہیں جو کل تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں رہ چکے ہیں‘ جو چڑھتے سورج کو پوجنے کے ماہر ہیں اس لیے زیادہ کچھ نہیں بدلے گا۔ جن کی آف شور کمپنیاں ہیں وہ مزید بڑھائیں گے‘ جوکرپشن کے شہنشاہ ہیں وہ ’’چور چوری سے جائے پر ہیرا پھیری سے نہ جائے‘‘ کے مصداق وہی کچھ کریں گے جو اُن کا پیشہ ہے۔ نہ پانی بجلی کا بحران حل ہو گا‘ نہ ڈیم بنیں گے‘ نہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے نجات ملی گی اور نہ ہی تعلیم اور صحت کے مسائل حل ہوں گے اور لوگ اسی میں خوش رہیں گے کہ’’تھا جس کا انتظار وہ شا ہکار آگیا‘‘ کے نعرے کے علاوہ کچھ تبدیل نہیں ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ اگر کو ئی اچھا کام کیا گیا مثلاً ڈاکٹر عافیہ کی امریکی قید سے رہائی یا بیرون ملک رقم کی واپسی جیسے اقدامات تو اس کے بدلے میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی جائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو میڈیا ایک بار پھر وہی کردار ادا کرے گا کہ اچھائی کا میڈیائی طوفان اُٹھا کر برائی کو چھپا دیا جائے گا مگر تجزیہ یہی ہے کہ کچھ نہیں بدلے گا۔ بہرحال نئی حکومت جس کے ذریعے سے بھی آئی ہے ان کو کام کرنے کا موقع دینا چائیے تا کہ پتا چل سکے کہ کون کیا کرسکتا ہے کیوں کہ دعوے کرنا اور بڑھکیں مارنا آسان ہوتا ہے لیکن اپنے وعدے وفا کرنا اور ان پر من و عن عملدرآمد کتنا مشکل ہو تا ہے‘ یہ نئے حکمرانوں اور قوم کو بھی معلوم ہے۔ عوام کو بھی ’’نئے پاکستان‘‘ کا انتظار ہے… دیکھتے ہیں کہ یہ نیا پاکستان کب بنتا ہے؟

حصہ