پروپیگنڈا وار

631

سیدہ عنبرین عالم
چند سال سے ہمارے پاکستان میں مختلف لوگ یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جب یورپ میں یونی ورسٹیاں کھل رہی تھیں تو برصغیر کے مسلم بادشاہ تاج محل اور شالامار باغ بنا رہے تھے۔ میری یہ تحریر مختلف مصنفین کے متعلقہ کالموں سے اخذ کردہ ہے جو میں نے ذاتی تحقیق سے درست پائے۔ سب سے پہلے تو عقلی دلیل دیکھیں کہ مسلم دور کی جو عمارات اپنی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں وہ دو چیزوں کے بغیر ناممکن تھیں، (1) فنِ تعمیر کی تفصیلی مہارت، جس میں جیومیٹری، فزکس، کیمسٹری اور ڈھانچے کے خدوخال واضح کرنے کے علوم شامل ہیں، اور (2) اس ملک کی مضبوط معاشی اور اقتصادی حالت۔ دورِِ اکبر اور دورِِ عالمگیر کا ہندوستان معاشی حوالے سے دنیا کی GDP کا 25 فیصد حصہ رکھتا تھا، درآمدات انتہائی کم اور برآمدات انتہائی زیادہ تھی۔ انگریز ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہتے تھے۔
فنِ تعمیر کی جو تفصیلات تاج محل، شیش محل، شالامار باغ، مقبرہ ہمایوں، دیوانِ خاص وغیرہ میں نظر آتی ہیں، اس سے لگتا ہے کہ ان کے معمار جیومیٹری کے علم کی انتہائوں کو پہنچے ہوئے تھے۔ تاج محل کے چاروں مینار صرف آدھا انچ باہر کی جانب جھکائے گئے تاکہ زلزلے کی صورت میں گریں تو گنبد تباہ نہ ہوں۔ مستری کے اینٹیں لگانے سے یہ سب ممکن نہیں، اس میں حساب کی باریکیاں ہیں۔ پورا تاج محل 90 فٹ گہری بنیادوں پر کھڑا ہے، اس کے نیچے 30 فٹ ریت ڈالی گئی کہ اگر زلزلہ آئے تو پوری عمارت ریت میں گھوم جائے اور محفوظ رہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ پورا شاہکار دریا کے کنارے تعمیر کیا گیا، جس کے لیے پہلی بار Well Foundation متعارف کرائی گئی، یعنی دریا سے بھی نیچے بنیادیں کھود کر ان کو پتھروں اور مسالے سے بھر دیا گیا، اور یہ بنیادیں سینکڑوں کی تعداد میں بنائی گئیں۔ گویا تاج محل کے نیچے پتھروں کا پہاڑ اور گہری بنیادوں کا وسیع جال ہے۔ اس طرح تاج محل کو دریا کے نقصانات سے ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا گیا۔
عمارت کے اندر داخل ہوتے ہوئے اس کا نظارہ Optical illusion سے بھرپور ہے۔ یہ عمارت بیک وقت فارسی، ترکی اور ہندی فنِ تعمیر کا نمونہ ہے۔ آج جدید تیکنیک اور مشینیں استعمال کرتے ہوئے بھی تاج محل دوبارہ بنایا جائے تو 1,000 ملین ڈالر لگنے کے باوجود بھی ویسا بننا ناممکن ہے، اس لیے اسے دنیا کے سات عجوبوں میں شامل کیا گیا۔ شاہی قلعے اور مسجد وزیر خان کی تعمیر میں جو رنگ استعمال ہوئے اُن کو آج کی جدید کیمسٹری میں بھی دوبارہ تخلیق کرنا ممکن نہیں، یہ بات انگریز خود مانتے ہیں۔ یہ رنگ 400 سال میں بھی مدھم نہیں ہوئے۔
ول ڈیورائٹ اپنی کتاب Story of Civilization میں لکھتا ہے: ’’ہر گائوں میں ایک اسکول ہوتا جسے حکومت چلاتی- انگریزوں کی آمد سے پہلے صرف بنگال میں 80 ہزار اسکول تھے، ہر400 افراد پر ایک اسکول ہوتا- ان اسکولوں میں 6 مضامین پڑھائے جاتے تھے: گرائمر، آرٹس اینڈ کرافٹس، طب، فلسفہ، منطق اور مذہبی تعلیمات۔‘‘ ول ڈیورائٹ اپنی ایک اور کتاب A Case for India میں لکھتا ہے کہ مغلوں کے زمانے میں ایک لاکھ 25 ہزار ادارے ایسے تھے کہ جہاں صرف طب پڑھائی جاتی تھیں اور تمام طبی سہولیات میسر تھیں۔ میجر Baso MD نے برطانوی راج اور اس سے پہلے کے ہندوستان پر بہت سی کتابیں لکھیں، وہ میکس مولر کے حوالے سے لکھتا ہے کہ بنگال میں انگریزوں کے آنے سے قبل 80 ہزار مدرسے تھے، اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں ایک سیاح ہندوستان آیا، جس کا نام الیگزینڈر ہملٹن تھا، اس نے لکھا کہ صرف ٹھٹہ میں علوم و فنون سکھانے کے 400 کالج تھے۔ میجر باسو نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ہندوستان کے عام آدمی کا علم یورپ کے سرکاری عہدوں پر موجود لوگوں سے زیادہ ہوتا تھا۔ جیمز گرانٹ کی رپورٹ بھی قابلِ ذکر ہے، اس نے لکھا ہے کہ تعلیمی اداروں کے لیے جائدادیں وقف کرنے کا سلسلہ سب سے پہلے مسلمانوں نے شروع کیا۔ زیر زمین پانی اور گٹر کی لائنیں بنانے کا طریقہ بھی سب سے پہلے مغل بادشاہوں کے محلوں میں شروع کیا گیا، حتیٰ کہ گرم حمام بھی تعمیر کیے گئے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے مسلسل دولت لوٹی، جہاں سے ہندوستان کی تباہی کا آغاز ہوا، اور مغل بادشاہوں کو ظالم اور نکما مشہور کردیا گیا اور مسلمانوں کو جاہل، اجڈ اور عقل سے کورا قرار دے کر سرکاری ملازمتوں سے الگ کردیا گیا۔
قارئین! آج میرا ہرگز تاریخ پر مضمون لکھنے کا ارادہ نہیں ہے، یہ تمام معلومات لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہو کہ پروپیگنڈے کی کیا طاقت ہوتی ہے، پروپیگنڈے کے ذریعے حقائق کو بالکل مسخ کردیا جاتا ہے، یعنی ٹی وی چینلز پر یہ بات اتنے تواتر سے کہی جاتی ہے کہ مغل حکمران انتہائی لاپروا تھے، اس طرح ان کی تمام خدمات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ انگریزوں کی رال آخر ہندوستان پر ہی کیوں ٹپکی؟ کیونکہ ہندوستان سونے کی چڑیا تھا اور اسے سونے کی چڑیا مسلم حکمرانوں نے ہی بنایا تھا، اور ہم بھی اپنے دشمنوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی آبا و اجداد کو گالیاں دینے لگتے ہیں، کبھی اپنی تاریخ کا علم حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
اب آپ کو سمجھنا ہوگا کہ موجودہ دور وہ نہیں رہا کہ گھوڑوں پر بیٹھ کر میدان میں گئے، جنگ لڑی اور گھر آکر سو گئے۔ اب ففتھ جنریشن وار فیئر ہے۔ اس میں ہر وقت، ہر شعبے میں اور ہر علاقے میں جنگ ہورہی ہے۔ سب سے بڑی جنگ پروپیگنڈے کی جنگ ہے، جیسے الیکشن سے پہلے ہی پروپیگنڈا کردو کہ جیتنا تو صرف عمران خان کو ہی ہے اور وہی اس دفعہ وزیراعظم بنے گا۔ یہ پروپیگنڈا مسلسل تمام ٹی وی چینلز سے کیا گیا، حتیٰ کہ عمران خان صاحب نے بھی فیصلہ کرلیا کہ کابینہ میں کون کون ہوگا، وزارتیں کس کو کون سی ملیں گی اور کس ملک سے کیسے تعلقات ہوں گے… الیکشن سے پہلے اس قسم کا پروپیگنڈا الیکشن پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہی تو تھی۔
اسی طرح عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے بھی مسلسل پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں پانی کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے، ہمارے دریا سوکھ گئے ہیں، ڈیم خالی ہورہے ہیں، نئے ڈیم بنانے والے پیدا ہی نہیں ہوتے۔ ایسی صورتِ حال میں آپ کسی بھی ٹی وی چینل کا خبرنامہ لگا کر دیکھ لیں، عمران خان کے بیانات سے سرخیاں شروع ہوتی ہیں اور نوازشریف کے بیانات پر ختم ہوجاتی ہیں۔ عوام کو ایک اندھی لڑائی میں دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ عمران نواز کھیل کھیل کر خوش ہورہے ہیں، اصل حقائق اور مسائل پر عوام کا دھیان جانے ہی نہیں دیا جاتا۔ کوئی بات ہی نہیں ہوتی۔
ایک اور مثال سنگین ترین پروپیگنڈے کی وہ ہے جو پاک فوج کے خلاف کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر آرمی کے نام سے Pages بناکر ایسی واہیات وڈیوز ڈالی جاتی ہیں جن سے پاک آرمی کا امیج خراب ہو۔ کئی لبرلز باقاعدہ پاک فوج کے خلاف بلاگ لکھ رہے ہیں، ہر خرابی کا ذمے دار پاک فوج کو قرار دے دیا جاتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بعد اگر کوئی پاکستان کی حفاظت کررہا ہے تو وہ پاک فوج ہے، جن کی روز کی شہادتیں عام سی بات ہے۔ یہ لبرلز جب ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر شراب پی رہے ہوتے ہیں اُس وقت میری پاک فوج کے جوان سرحدوں پر جانیں دے رہے ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان سے کوئی غلطی بھی ہوئی ہو، مگر پاک فوج میرے وطن کے لیے سیسہ پلائی دیوار ہے اور اسی لیے پاکستان دشمنوں کو بری لگتی ہے۔
ایک پروپیگنڈا اسلامی جماعتوں کے اتحاد کے خلاف بھی کیا گیا۔ کہا جارہا تھا کہ یہ مولوی صرف اقتدار کے حصول کے لیے ایک ہوگئے ہیں، ایک بار اقتدار مل گیا تو یہ سب پھر آپس میں لڑنے لگیں گے۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ اوّل تو ان کو کوئی ووٹ دے گا نہیں، اور دے بھی دیا تو ان میں اتنی اہلیت نہیں کہ ملکی مسائل سے نبرد آزما ہوسکیں۔ جہاں یہ باتیں تھیں وہیں کئی طرح کے خوف بھی تھے کہ مولوی آگئے تو سارا بینکاری نظام تباہ کردیں گے، ڈنڈے مار مار کر برقعے پہنائیں گے اور داڑھیاں رکھوائیں گے، فلسطین اور کشمیر وغیرہ کی جنگوں میں بلاوجہ کود کر پاکستان کا بیڑہ غرق کرائیں گے… وغیرہ وغیرہ۔
اگر آپ یہ دیکھ رہے ہیں کہ مولوی آپس میں لڑتے رہتے ہیں تو مجھے وہ سیاسی پارٹیاں بتا دیں جو دوسروں پر کیچڑ نہ اچھالتی ہوں۔ صرف ایک دعوت ہوجائے تو کارکنان بریانی کے حصول کے لیے ایک دوسرے کا سر پھاڑ دیتے ہیں۔ جہاں چار لوگ ہوں وہاں اختلافات ہونا معمول کی بات ہے، لیکن آپ اس بات پر تو غور کریں کہ تمام سیاسی پارٹیاں صرف ان لوگوں کو اہمیت دے رہی تھیں جو الیکشن پر زیادہ سے زیادہ پیسہ لگا سکیں، جب کہ اسلامی جماعتوں نے ان لوگوں کو ٹکٹ دیے جو دین کا علم رکھتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ان کے اعتقادات آپ کے اعتقادات سے مناسبت نہ رکھتے ہوں، مگر وہ علم تو رکھتے ہیں، قرآن کو تو جانتے ہیں اور بہرحال بریانی لوٹنے والوں سے بہتر اخلاقیات رکھتے ہیں، اور اپنی اس بردباری اور علم کی وجہ سے ملکی معاملات سمجھ کر چلانے کے زیادہ اہل ہیں۔ اب شیطان تو کسی کو بھی بہکا سکتا ہے، لیکن جس کے سینے میں قرآن ہو اُس سے امید کی جاسکتی ہے کہ شاید وہ نہ بہکے۔
جہاں تک مسئلہ ہے کہ سختی سے اسلامی قوانین پر عمل کیا جائے گا، تو یہ بھی صرف ایک پھیلائی ہوئی بات ہے۔ میں چار سال سے جماعت اسلامی کے درس میں جارہی ہوں، آج تک مجھے کسی نے نہیں کہا کہ پردہ کیا کرو۔ براہ راست کبھی کسی نے میرے حلیے پر اعتراض نہیں کیا، حالانکہ میں برقعہ پہننا تو درکنار فیشن بھی پورے کرتی ہوں۔ اتنے نرم مزاج لوگ ہیں۔ میرے نبیؐ کا طریقہ تبلیغ اور ترویج کا تھا، زبردستی کا نہیں۔ اور اسلامی جماعتیں بھی میرے نبیؐ کے طریقے کو ہی اپنائیں گی، اور سچی بات تو یہ ہے کہ جو حکم اللہ نے قرآن میں دے دیا، آپ اسے مان لو، مولوی اور ڈنڈے کو آپ اللہ اور اپنے بیچ میں کیوں آنے دیتے ہو!
ہم نے پاکستان اللہ کے نام پر بنایا، ورنہ انگریز کا قانون تو ہندوستان میں بھی چل رہا تھا۔ اب جب یہ ملک بن گیا تو آپ اسلامی بینکاری نظام اور دوسرے اسلامی قوانین نافذ ہونے سے کیوں ڈرتے ہیں! پھر نہ بناتے پاکستان…
مولوی کی عقل پر اعتبار نہیں…؟ دیکھیے اب وہ دور نہیں رہا کہ مسجد میں ہی زندگی گزار دی جائے۔ آپ ابھی کسی میڈیکل کالج جائیں، این ای ڈی یونیورسٹی جائیں، مشہور تعلیمی اداروں میں جائیں، آپ کو بڑی تعداد میں ایسے بچے نظر آئیں گے جو مکمل اسلامی حلیے میں ہوں گے، نمازوں کی پابندی کریں گے اور اکثر کی کسی نہ کسی اسلامی جماعت سے وابستگی بھی ہوتی ہے۔ اگر کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد اسلام پر بھی مکمل عبور اور عمل رکھتا ہے تو کیا صرف اس وجہ سے اسے جاہل مولوی قرار دے دیا جائے کہ وہ مغرب کی ثقافت اور حلیے کو نہیں اپنانا چاہتا!
اسلامی قوانین اس بات کی ضمانت ہیں کہ ملک میں امن و آشتی ہو۔ ہم نے دیکھا کہ یہی قوانین جب سعودیہ اور طالبان نے افغانستان میں رائج کیے تو جرائم کے سطح بہت نیچے آگئی۔ لیکن قوانین کے ساتھ انصاف کے ضابطے بھی بدلنے ہوں گے، مساوات بھی لانا ہوگی اور فلاحی اداروں کا جال بچھانا ہوگا، تب ہوگا اسلام نافذ… اور یہی وہ مقصد ہے جس کی خاطر پاکستان بنایا گیا اور لاکھوں جانیں قربان کی گئیں، اور یہ مقصد ان شاء اللہ ضرور پورا ہوگا۔
بنیادی سطح پر جماعت کا کام جاری ہے، ہم ذہن بدل رہے ہیں، کردار بدل رہے ہیں، ہر گلی محلے کی سطح پر اللہ کی کتاب پڑھا رہے ہیں، ہم صحیح راستے پر ہیں اور اللہ کی مدد قریب ہے۔ مایوسی کفر ہے، ہر بار ایک نئے ولولے کے ساتھ میدان میں اتریں، ان شاء اللہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ ہم کامیاب ہوں گے۔ ہمیں تبدیلی نہیں چاہیے، قرآن و سنت میں بھلا کیا تبدیلی آئے گی! ہمیں تو قرآن و سنت چاہیے جو ہمیشہ سے ایک جیسا ہے اور قیامت تک تمام برکات کا ضامن ہے۔

حصہ