( آخری حصہ)
ادب سیتا پوری، کنور سورج نرائن سہنا ۱۹۰۹ء میں سیتا پور(اودھ) کے محلہ ترین پور کے گھرانے کے ایک فرد کنور سروپ نرائن کے ہان پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا پیتم رائے کاوش، بریلی کے باشندے تھے جو ۱۸۵۷ میں ترک سکونت کرکے سیتا پور آگئے تھے۔ آپؐکی شان میں اس مداح سرا ہوتے ہیں:
نماز محبت ادا کر رہا ہوں
خیال حرم سامنے آ نہ جانا
جبین ادب خود جھکی جا رہی ہے
قریب آرہا ہے ترا آستانا
نور احمد میرٹھی گر سرن لال ادیب کی کئی نعتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ساری نعتیں نہایت ادب و احترام اور عقیدت و محبت سے مرصع ہیں۔ ان کے کلام کو دیکھ کر ، پڑھ کر اور سن کر کوئی کہہ نہیں سکتا کہ یہ کسی سچے عاشق رسولؐ اور مسلمان کا کلام نہیں۔ وہ بھی عاشق رسول ہی ہیں لیکن جس دھرم سے ان کا تعلق ہے وہاں آپؐکی ذات کا ادراک اللہ کی دَین کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ذرا ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے تو آپ کو میرے بیان کی صداقت کا خود ہی اندازہ ہو جائے گا۔ فرماتے ہیں
میرے سر آنکھوں پہ فرمانِ رسول عربی
جان و دل دونوں ہیں قربانِ رسول عربی
مسلموں تک ہی نہیں فیضِ رسالت محدود
عام ہے خلق پہ احسانِ رسولِ عربی
وہ فصاحت وہ بلاغت وہ صداقت وہ رموز
جیسے قرآن تھا فرمانِ رسول عربی
نام ادیبؔ اور بس اتنا ہے تعارف میرا
ایک ادنیٰ سا ثنا خوانِ رسول عربی
اعظم جلال آبادی، حکیم تر لوک ناتھ ۱۸۹۶ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۸۹ء میں انتقال ہوا۔ فرماتے ہیں کہ
مجھ سے کیا پوچھتے ہو کون ہوں میں کیا ہوں میں
روضۂ پاک محمد کا جبیں سا ہوں میں
حوریں آنکھوں پہ بٹھائیں گی مجھے جنت میں
کفش بردارِ شہِ یثرب و بطحا ہوں میں
آپؐ کی تعریف میں مسیحی برادری بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ مشہور شاعر گوئٹے جس کا پورا نام جون وولف گینگ گوئٹے ہے۔ اپنی مشہور نظم میں آپ ﷺ کی شان میں یوں مدح سرا ہے۔
Seht den Felsenquell
Freudehell
Wie ein sternenblick
Uber Wolken
Zwischen Klippen Gebusch
یہ ایک طویل نظم ہے جس کا علامہ محمد اقبال نے اس کا ترجمہ کچھ اسطرح کیا ہے:
بنگر کہ جوئے آب چہ مستانہ می رود
مانند کہکشاں بگریبان مرحزار
در خواب ناز بود بہ گہوارۂ سحاب
وا کرد چشمِ شوق بآغوشِ کہسار
از سنگریزہ نغمہ کشاید خرام او
سیمائے او چو آئینے بے رنگ و بے غبار
مسیحی الٰہ آبادی، پادری ای۔آر کے چند عقیدت بھرے اشعار ملاحظہ ہوں:
دکھائی اک جہاں کو جس نے راہ ابتدا تم ہو
ترائی جس نے کشتی قوم کی وہ ناخدا تم ہو
مسیحِ ناحری آئے تمہاری دینے خوشخبری
جو روح صدق ہے انجیل میں وہ رہنما تم ہو
نہ بدلی عسرت و سیرت میں جس کی طبع خیر آگیں
جو شاہی میں فقیری کرگیا وہ باخدا تم ہو
اللہ واحدہ‘ لا شریک ہے۔ ’’کہہ دیجئے اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ وہ کسی کی اولاد نہیںاور نہ کوئی اس کیاولاد ہے۔ اس کا کوئی ہمسر نہیں‘‘ (سورۃ الاخلاص)۔ یہ ہے وہ ایمان جو ہر مسلمان کا ہے۔ وحدانیت کا ایسا تصور دنیا کے دیگر مذاہب میں پایا ہی نہیں جاتا۔ ممکن ہے کہ وہ اللہ کے متعلق یہی تصور رکھتے ہوں کہ وہ ’’واحد‘‘ ہی ہے لیکن وہ ’’سب کچھ‘‘ اسی کو نہیں مانتے اور اس کے کاموں میں اور بہت سارے دیوی دیوتاؤں کو شریک کار سمجھتے ہیں۔ شراکت داری (شرک) اللہ کو ذرّہ برابر بھی پسند نہیں۔ مشرک یعنی اللہ کے ذات و صفات میں کسی کو بھی شراکت دار سمجھنے والے کے متعلق یہ کھلی وعید ہے کہ اس کو اللہ رب العزت کسی طور معاف نہ فرمائیں گے۔ سچا مسلمان کبھی ایسے گناہ کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ وہ اللہ کو ’’واحد‘‘ مانتا اور جانتا ہے اور یہی وہ عقیدہ ہے جو بھی مسلمان ہونے کی پہلی شرط ہے۔
وہ جن کے مذاہب میں وحدانیت کا کسی بھی قسم کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، ان مذاہب کے ماننے والوں میں بھی ایک کثیر تعداد ایسے افراد کی موجود ہے جو اللہ کے واحدہ‘ لاشریک لہ‘ ہونے پر یقین رکھتے ہیں لیکن مسلمانوں کے طرز عمل اور معاشرتی جکڑبندیوں کی وجہ سے اسلام قبول کرتے ہوئے ہچکچا تے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جن کے پاس وحدانیت کے اظہار کو کوئی ذریعہ ہی نہیں ہے لیکن کچھ کو اللہ نے حق کے اظہار کی ہمت بھی دی ہے اور خوش اسلوبی بھی۔ ادبا و شعرا اسی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔ اللہ کی وحدانیت کا تصور ان کا مذہب دیتا ہو یا نہیں دیتا ہو، وہ اپنی بات کسی لیت و لعل کے بغیر کہتے ہیں اور جس خوبصورت انداز میں مافی الضمیر بیان کر جاتے ہیں اس طرح اکثر اوقات وہ لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور مانتے ہیں، نہیں کہہ پاتے بلکہ اکثر کچھ ایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جو ان کو اسلام کی حدود کے باہر تک لیجاتی ہیں جس پر اگر وہ رجوع نہ کریں تو قیامت کے دن وہ حالت کفر میں اٹھائے جائیں گے۔
مسلمان شعرا تو اللہ کی حمد و ثنا کرتے ہی ہیں لیکن اسی طرح یا اس سے بہتر انداز میں یہی بات وہ کہیں جو مسلمان نہیں تو بات کتنی حیرت انگیز لگتی ہے اور یہ حیرت کم از کم مجھے تو مسرور کردیتی ہے اور میں دعا گو ہو جاتا ہوں کہ اے اللہ رب کریم جو لوگ تیری اور تیرے پیاری بنیؐ کی مدحت و ثنا بیان کرتے ہیں ان کے سینوں کو اپنے اور اپنے بنیؐ کے نور سے منور کردے اور اگر انھیں ہدایت نصیب نہ ہو تب بھی ان کو آگ کے عذاب سے پناہ میں رکھ کہ وہ ذکر تو تیرا ہی کرتے ہیں اور وہ بھی تجھ کو واحدہ‘ لاشریک مان کر (آمین)۔ میں ذیل میں ایسے ہی ثنا خواہوں کا ذکر بھی کرنا چاہونگا اور ان کے اشعار بھی پیش کرنا چاہوں گا جو مسلمان نہ ہونے کے باوجود بھی اللہ کو اپنا مرکز و محور تصور کرتے ہیں۔
جلال پور چٹاں کے ابر دیش راج شرما جو ۱۹۱۰ء میں پیدا ہوئے ارشاد فرماتے ہیں
تجھ پر مٹے ہیں دو جہاں کوئی تجھے نہ پا سکا
تیرا حریم پاک ہے فکر و خیال سے بلند
تیری ہی شان خاص میں تیری کرشمہ سازیاں
خاک میں بحر میں رواں اور ہوا خلا میں بند
رحمت بیکراں ہے تو مجھ پہ بھی ہو نگاہ لطف
عاصیوں میں مجھے بھی کر روز حساب سر بلند
اخگر لکھنوی، بربھودیال ۱۸۸۹ء میں پیدا ہوئے۔ نقاد ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ ان کے کلام میں تصوف کا پہلو بہت ہی نمایاں ہے۔ آپ حمدیہ کلام میں فرماتے ہیں
دیکھنے والے اگر چشم حقیقت باز ہے
دیکھ لے ہر ایک ذرہ جلوہ گاہ ناز ہے
آمد و رفت نفس بھی معرفت کا راز ہے
ساز ہستی نغمہ توحید کا آغاز ہے
اشک پروین کمار ۱۹۶۸ء میں ساحر کے شہر لدھیانہ میں پیدا ہوئے جن کے کئی شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی غزل کے شروع کے دو اشعار حمدیہ ہیں، ملاحظہ کیجیے
زمیں کو یا خدا وہ زلزلہ دے
نشاں تک سرحدوں کے جو مٹا دے
رہین منت موسم نہیں ہے
وفا لوٹا تو جب چاہے لگا دے
اشک دہلوی، پریم پال ۱۹۳۲ء میں پیدا ہوئے۔ باری تعالیٰ میں فرماتے ہیں
دلوں میں ہے تو اور اجسام میں
تو قائم فلک کے سب اجرام میں
ترے دم سے قائم ے کون و مکاں
ترے دم سے زندہ زمین آسماں
اقبال کانپوری، منشی کرپا دیال کان پور میں پیدا ہوئے۔ تایخ پیدائش کا درست علم نہیں۔ ۱۹۲۰ء میں انتقال ہوا۔ فرماتے ہیں
مجھ گناہ گار کو بخشے ہے تو رحمت تیری
تیرا احسان ترا لطف عنایت تیری
یہ تمنا ہے نہ ہو کوئی تمنا دل کو
اور اگر ہو بھی تو ہو دل کو محبت تیری
مسیحی شاعر انجلو،جان ارشاد فرماتے ہیں
جدھر اٹھ گئی آنکھ پایا تجھی کو
ہر اک جا پہ حاضر فقط تو ہی تو ہے
بھلا کون آنکھوں سے تیری نہاں ہو
عیاں راز دل بھی ترے رو برو ہے
آرزو سہارنپوری، سادھو رام ان شعرا میں شامل ہیں جن کو حمد کہنے کی اتنی سعادت نصیب ہوئی کہ ان کا ایک پورا مجموعہ ’’ظہور قدسی‘‘ کے عنوان سے ۱۹۵۶ء میں شائع ہوا۔ منا جات کے عنوان سے ان کی ایک بہت طویل حمد ہے جن کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
اے خدا تو مالک ہر خشک و تر
نے حکیم و حاکمِ ہر بحر و بر
ذات بے پایاں تری بے عیب ہے
ایک اور صرف ایک تو لا ریب ہے
تو صفات و ذات میں ہے بے مثال
تیری ہستی لا شریک و لا زوال
نعت اور حمد پر مشتمل یہ وہ چند اشعار اور شعرائے کرام ہیں جو مثال کے طور پر پیش کرنے کی سعادت حاحل کر رہا ہوں۔ یہ ساری اشعار، شعرا کا بہت اجمالی سا تعارف ’’نور احمد میرٹھی‘‘ کی دو کتابوں سے ماخوز ہیں جن کا نام ’’بہر زماں بہر زباں‘‘ اور ’’گلبانگِ وحدت‘‘ سے لیے ہیں۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ غیر مسلم شعرا کے نعتیہ اور حمدیہ کلام کو کسی نے بھی اس طرح یک جا نہیں کیا ہوگا جس طرح، جس محنت اور لگن کے ساتھ نور احمد میرٹھی نے ان دو کتابوں کے کوزہ میں ایک سمندر کو بند کر کے رکھ دیا۔ ان دو ضخیم کتابوں میںگویا اردو ادب سے تعلق رکھنے والے ہزاروں غیر مسلم شعراکا نہ صرف اجمالی تعارف موجود ہے، حوالہ جات موجود ہیں بلکہ ان کے چنیدہ چنیدہ اشعار بھی جمع کئے گئے ہیں جو ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایک ایسا محقق جو ہر زاویے سے اس بات کا مستحق تھا اور ہے کہ اس کو ہر ہر پلیٹ فارم، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈا میں نماں اور جعلی حرفوں میں منعکس کیا جاتا اور اس کی خدمات کو اتنا ہائی لائٹ کیا جاتا کہ اہل ذوق اور وہ حضرات جو آپؐکی زندگی کے بارے میں ان شعرا کے کلام کی تلاش میں رہتے ہیں جو غیر مسلم ہوں لیکن آپؐ کی ذات اور رب کائینات کے لیے عقیدت و محبت کی خوشبو اور پھول بکھیرتے ہوں، وہ نوراحمد میرٹھی کی کتابوں سے استفادہ کر سکتے لیکن افسوس کہ ایک بڑا محقق دنیا سے کوئی صلہ پائے ہی رخصت ہو گیا۔ دنیا نے تو اس کی خدمات کاوہ صلہ نہیں دیا جس کا وہ مستحق تھا لیکن مجھے یقین ہے کہ جو عظیم کارنامہ نور احمد میرٹھی انجام دے گئے ہیں اس کا صلہ اللہ کے دربار میں بھرپور طریقے سے ملے گا اور آج نہیں تو کل لوگ نور احمد میرٹھی کو اس کی لکھی گئی کتابوں میں تلاش کر رہے ہونگے۔ اللہ ان کو اپنی خاص رحمت کے سائے میں جگہ دے اور ان کی اس محنت لگن اور تحقیق و جستجو کا اجر دے (آمین)
نوٹ: ۔ تمام اشعار نور احمد میرٹھی کی کتاب ’’بہرزماں بہرزباں‘‘ سے چنے گئے ہیں۔