سلیم صحافی
بطور اخبارنویس نصف درجن سے زائد انتخابات دیکھے اور رپورٹ کئے ، حتیٰ کہ جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی بھی رپورٹنگ کی لیکن 25 جولائی کو ہونے والا الیکشن ہر لحاظ سے اپنی مثال آپ تھا۔ یہ واحد الیکشن تھا کہ جس میں بطور اخبار نویس مجھے ذرہ بھر محنت نہیں کرنی پڑی۔ ماضی کے انتخابات میں ہمیں ایک ایک حلقے کی تفصیلات لینی پڑتی تھیں ، مقامی رپورٹروں سے رابطے کرنے پڑتے تھے ، ماضی کے انتخابی نتائج کو کھنگالنا پڑتا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مختلف علاقوں کے خود دورے کرنے پڑتے تھے لیکن جیو کی انتظامیہ اور’’ جرگہ‘‘ پروگرام کی ٹیم گواہ ہے کہ حالیہ انتخابی مہم کے دوران میں نے کسی قومی یا صوبائی حلقے کی جانکاری لی اور نہ کسی علاقے کا دورہ کیا۔ ایک تو نتیجہ پہلے سے معلوم تھا اور دوسرا ضمیر کے مطابق تجزیہ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ نوے فی صد کام پہلے سے ہوچکا تھا اور بطور صحافی ہمیں اندازہ تھا کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ اس لئے میں نے انتخابی مہم کا وقت اپنے کالموں کے مجموعے مرتب کرنے میں لگادیا۔ وہ اشاعت کے لئے دے دئیے ہیں اور ان شاء اللہ عنقریب دو کتابوں کی صورت میں مارکیٹ میں دستیاب ہوں گے۔ایک عمران خان اور دوسرا نوازشریف کی سیاست سے متعلق ہے۔عمران خان کی سیاست سے متعلق کالموں کا مجموعہ 13جولائی کو پریس کے حوالے کیا گیا ہے جس کا ٹائٹل (… اور تبدیلی لائی گئی ) ہم نے گیارہ جولائی کوفائنل کرکے پریس کے حوالے کیا۔ دو ہفتے قبل تیار ہونے والے کتاب کے اس ٹائٹل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم جیسے لوگوں کو الیکشن کے نتائج کا کس حد تک اندازہ تھا۔ انتخابی مہم کے سلسلے میں جیو نیو زکی انتظامیہ نے تمام اینکرز سے پاکستان کو ووٹ دو ،کے پیغامات ریکارڈ کرکے چلائے اور مجھ سے بھی مطالبہ ہوتا رہا کہ وہی پیغام ریکارڈ کروں لیکن باوجود کوشش کے آخری روز تک اس پیغام کو ریکارڈ کرنے پر اپنے ضمیر کو آمادہ نہ کرسکا اور اب جس طرح انتخابات ہوئے تو اس کے بعد اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ کم ازکم میں ان انتخابات کے دوران قوم سے ووٹ ڈالنے کی اپیل کرنے والوں کی صف میں شامل نہیں ہوا۔
انتخابی نتائج کے سلسلے میں جیو نیوز نے حسب سابق کراچی ہیڈکوارٹر سے چار روز خصوصی الیکشن ٹرانسمیشن کا اہتمام کیا تھا۔ مجھے بھی انتظامیہ کی طرف سے اس میں شریک ہونے کا حکم صادر ہوا لیکن معذرت کردی۔ سوچا کہ جب اپنے ضمیر کے مطابق بات نہیں کرسکتا تو اپنی شکل سے دیکھنے والوں کو ڈپریس کرنے کی کیا ضرورت؟ دو دن میری طرف سے معذرت اور انتظامیہ کی طرف سے اصرار کا یہ سلسلہ جاری رہا لیکن پھر انتظامیہ کے ایک سینئر نے ایسی بات کہہ دی کہ جس کی وجہ سے جانے پر مجبور ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ جیو کی بندش کی صورت میں ہزاروں لوگوں کا روزگار چھن سکتا ہے اور ہمارے لئے مناسب نہیں کہ اپنے آپ کو ادارے سے بڑا سمجھیں۔ چنانچہ دل پر پتھر رکھ کر ٹرانسمیشن کے لئے کراچی روانہ ہوا۔ ٹرانسمیشن سے قبل پوری انتظامیہ ، اینکرز اور تجزیہ نگاروں کی میٹنگ ہوئی جس میں الیکشن ٹرانسمیشن اور دبائو کے حوالے سے پالیسی طے کی گئی۔
الیکشن سے قبل جو ہونا تھا وہ تو بھرپور طریقے سے ہوچکا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ انتخابات والے دن الیکشن کمیشن کی تیاری مثالی تھی اور بظاہر الیکشن شفاف نظر آرہا تھا۔ ملک بھر سے ہمارے ہزاروں رپورٹرز پل پل کی خبر دے رہے تھے اور سوائے پولنگ کے عمل میں سستی کے ،کوئی اور قابل ذکر شکایت موصول نہیں ہورہی تھی۔ کوئٹہ میں خودکش حملے کا افسوس ناک واقعہ وقوع پذیر ہوا لیکن ہم لوگوں نے اس وجہ سے اس کو زیادہ ہوا نہیں دی کہ باقی ملک میں لوگ خوف زدہ نہ ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ پورے ملک میں مجموعی طور پر شام چھ بجے تک انتخابی عمل نسبتاً خوش اسلوبی سے چلتا رہا۔ پولنگ کے عمل میں سستی کی چوں کہ ہر طرف سے شکایت آئی تھی اور کئی جماعتوں نے پولنگ کا وقت بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا اس لیے ہم لوگوں نے بھی ڈیڑھ دوبجے سے یہ مطالبہ دہرانا شروع کردیا۔ اس دوران جناب ائر مارشل (ر) شہزاد چوہدری صاحب کی تجویز پر پینل پر موجود ہم چھ پینلسٹ نے متفقہ طور پرپولنگ کا وقت بڑھانے کا مطالبہ کیا تاہم چونکہ پی ٹی آئی دورانیہ بڑھانے کے حق میں نہیں تھی تو شاید اس لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بوجوہ وقت بڑھانے کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن نے پابندی لگائی تھی کہ کوئی بھی ٹی وی چینل سات بجے سے قبل نتیجہ نشر نہیں کرے گا لیکن چھ بجتے ہی تین ٹی وی چینلز نے نتائج دینے شروع کردیے۔ ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی یہ الیکشن کمیشن ہی بتاسکتا ہے۔ اس دوران ہمیں ملک بھر سے یہ شکایات موصول ہونی شروع ہوئیں کہ گنتی کے عمل کے دوران پولنگ ایجنٹوں کونکال کر ان کی عدم موجودگی میں گنتی کی جارہی ہے اور فارم 45 پر پولنگ ایجنٹوں کے دستخطوں کے ساتھ نتائج دینے کے بجائے سادہ کاغذوں پر نتائج دیے جارہے ہیں۔ مجھے وٹس ایپ پر ایم کیوایم کی طرف سے کراچی اور ایک اور دوست کے ذریعے ایبٹ آباد سے اسی طرح کے سادہ کاغذ پر پریزائڈنگ آفیسر کی مہر کے ساتھ نتائج بھی موصول ہوئے جسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ ہمارے رپورٹر مختلف جگہوں سے اس قسم کی خبریں دے رہے تھے لیکن انہیں چلانے کی گنجائش یا اجازت نہیں تھی۔ اس دوران مجھے ایم کیوایم کے فیصل سبزواری، پاک سرزمین پارٹی کے مصطفیٰ کمال اور اے این پی کے شاہی سید نے کراچی سے شکایت کی کہ ان کے پولنگ ایجنٹوں کو نکال دیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق نے ٹیلی فون پر دیر سے متعلق یہی شکایت کردی جبکہ جے یو آئی کے حافظ حمداللہ نے کوئٹہ سے۔ پشاور سے ہمارے رپورٹر آفتاب نے پورے پشاور شہر سے اس طرح کی واردات کی خبر دی لیکن جب وہ نشر نہ ہوئی تو انہوں نے مجھے وٹس ایپ پر تفصیلات بھیجیں۔ ہمیں ٹیلی فون پر جو شکایات موصول ہوئی تھیں ، ان کا خلاصہ ٹی وی پر بیٹھ کر سنا دیا لیکن اس پر اتنا دبائو آیا کہ ہم جیسے لوگوں کو پینل سے اٹھنا پڑا۔ میں وہاں سے ہوٹل گیا اور ٹی وی پر تماشہ دیکھتا رہا۔ سب سے بڑا تماشہ یہ تھا کہ رات ساڑھے تین بجے تک الیکشن کمیشن کے پاس کوئی نتیجہ موصول نہیں ہوا تھا کیونکہ جو آرٹی ایس بنایا گیا تھا وہ یا تو جام ہوگیا تھا یا پھر جام کرایا گیا تھا۔
اگلے روز مجھے شیڈول کے مطابق دوبارہ ایک بجے سے رات دو بجے تک تجزیہ کرنے والے پینل میں بیٹھنا تھا لیکن گفتگو کا آغاز ہوتے ہی جب میں نے الیکشن میں ہونے والی بے ضابطگیوں سے متعلق ابتدائی گفتگو کی تفصیلات سامنے رکھیں تو چینل کو بند کرنے کی دھمکیاں شروع ہوئیں۔ چنانچہ مجھے ایک بار پھر پینل سے اٹھنا پڑا۔ ٹرانسمیشن چھوڑ کر میں اے این پی کے رہنما شاہی سید اور پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال سے تعزیت کرنے چلا گیا۔ ان کے ہاں اتنی بڑی تبدیلی آئی تھی کہ مجھے بعض اوقات یوں محسوس ہوتا کہ میں پی ایس پی اور اے این پی کے رہنمائوں نہیں بلکہ پی ٹی ایم کے رہنمائوں سے گفتگو کررہا ہوں۔ اس وقت تک مصطفی کمال اور شاہی سید کو ان کے حلقے کا نتیجہ نہیں ملا تھا لیکن ہر کسی کو علم ہوگیا تھا کہ وہ ہار گئے ہیں۔ ٹیلی فون پر مولانا فضل الرحمان اور اسفندیار ولی خان سے بات ہوئی تو ان دونوں کی گفتگو کی تلخی سے یوں لگ رہا تھا کہ فون پر دوسری طرف منظور پشتین گفتگو کررہے ہوں۔ اگلے روز امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے بات ہوئی تو ان کو اس قدر دکھی پایا کہ جیسے ان کا سابق اتحادی،عمران نیازی نہیں جیتا بلکہ خاکم بدہن کسی نیازی نے ہتھیار ڈالے ہوں۔
بہرحال انتخابات ہوئے۔ نئے طریقے سے اور بالکل نئے انداز میں ہوئے۔ الحمدللہ ہم سب ناچتے گاتے، نئے پاکستان میں داخل ہوئے لیکن مصیبت یہ ہے کہ نئے پاکستان میں چور دروازے سے اور بہت ہی پرانے طریقے سے داخل ہوگئے۔ تاہم یہ نیا دور ہے ، نئے دور کے تقاضے بھی نئے ہیں جسے شاید ہم نہیں سمجھ سکتے۔ اس لیے اب نئے پاکستان کے مزے کو بدمزہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے آیئے سب مل کر کہتے ہیں کہ سب کو نیا پاکستان مبارک ہو۔ بالخصوص ان لوگوں کو جنہوں نے کبھی پردے کے پیچھے رہ کر اور کبھی سامنے آکر اس کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا۔ چنانچہ عمران خان نیازی کو بھی مبارک ہو اور ان کو لانے والے کو بھی بہت بہت مبارک ہو۔