پاپیوں کا پاپ

463

نون الف
شیروانی تیار ہے۔ نمبرز پورے ہوچکے۔ اسٹامپ پیپرز پر انگوٹھے لگائے جا چکے۔
الیکٹ ایبلز اور پاپی گنگا نہاکر پوتر ہوچکے۔ اب کون اہل اور کون نااہل؟ کون سا جہاز؟ کون اسٹامپ فروش؟ سارے ضمیر فروش اور سپریم کورٹ سے سزا یافتہ سب کے سب پاکستان کے معماروں میں شامل ہیں۔ پانامہ کے تمام پاپیوں کے پاپ دھل چکے ہیں۔ آئیے ایک نئی امید کے ساتھ نئے پاکستان کی بنیاد رکھتے ہیں!
سراج الحق صاحب کا کہنا تو یہ ہے کہ نئی حکومت کا آغاز ہی ہارس ٹریڈنگ سے ہورہا ہے۔ ایک تحریک انصاف کے سوا سب ہی چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے، دھاندلی ہوئی ہے۔ مگر کہتے ہیں کہ الیکشن ہارنے والا یہی کہتا ہے!
’’جب کہہ دیا دھاندلی نہیں ہوئی تو دھاندلی نہیں ہوئی…! آپ نے صبح سے شام تک ہماری بھاگ دوڑ اور محنت نہیں دیکھی؟‘‘
یہ کہنا تھا ہمارے پولنگ اسٹیشن پرتعینات ایک باوردی ذمے دار کا۔ اُس کے معصومانہ سوالیہ جواب کے بعد مجھے مزید کچھ اور پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
پولنگ ڈے ختم ہوچکا تھا۔ صبح کے چار بج رہے تھے، میرے پاس فون آیا کہ ’’ہمارے کچھ پولنگ ایجنٹ جن میں خواتین بھی ہیں، اب تک پولنگ اسٹیشن پر موجود ہیں، ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو پارہا، فارم45 بھی حوالے نہیں کررہے ہیں، ان ایجنٹس نے اب تک کھانا بھی نہیں کھایا ہے اور انہیں اسٹیشن بھی نہیں آنے دیا جارہا۔‘‘
چنانچہ اسی وقت میں اس پولنگ اسٹیشن پر گیا۔ وہاں پر موجود اہلکار کو اپنے کاغذات دکھائے اور معلومات لینے کی درخواست کی، مگر مجھے اندر جانے یا اندر والوں کو پولنگ اسٹیشن سے باہر آنے کی اجازت نہیں تھی۔
یہی معاملہ کم و بیش ہر پولنگ اسٹیشن کا تھا جہاں پر امیدواروں کے ایجنٹس کو غیر اعلانیہ طور پر یرغمال بنایا ہوا تھا۔ اگلے دن جب ان پولنگ ایجنٹس سے ملاقات ہوئی تب جاکر ’’اندر کے حالات‘‘ کی اصل حقیقت معلوم ہوئی۔
شفافیت کے غلاف میں لپٹا الیکشن 2018ء اپنے اندر عجیب و غریب پراسراریت چھوڑ گیا۔ جو دکھائی دے رہا ہے ہرچند کہ وہ شفاف نہیں ہے، مگر شفاف مانے بغیر گزارا بھی نہیں۔ چیف صاحب اور ان کے معاونین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ووٹ کے ذریعے دشمن کو شکست دے دی ہے۔ اور جو ان نتائج پر اعتراض اٹھاتا ہے وہ بھی دشمن کا ’’سہولت کار‘‘ گردانا جارہا ہے۔
سچ پوچھیں تو مجھے زندگی میں پہلی بار ’’دشمن کو شکست دینے‘‘ کا سن کر بے انتہا خوشی محسوس ہوئی ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے یہی ہے کہ آج سے پہلے کسی بھی موقع پر ہم نے دشمن کو شکست دینے کا ’’نعرۂ مستانہ‘‘ اس قدر سچائی اور اعتماد کے ساتھ نہیں سنا تھا۔ ہماری تاریخ میں تو دشمن کے حوالے سے پسپائی اور ذلت آمیز شکست ہی لکھی ہوئی تھی چاہے 1965ء اور1971ء کی شرمناک شکست ہو، یا پھر جنرل اروڑا سنگھ کے سامنے جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کا رسوا کن منظر۔ اس کے بعد بھی دشمن مستقل ہم پر اسٹرے ٹیجک حملوں کی بدولت ہمارے گھر میں گھس کر ہمارے سیکورٹی پلان پر سوالیہ نشان ڈالتا رہا، اور ہم ’’بڑا بزدل ہے جو بچوں سے ڈرتا ہے‘‘ کے نغمے تخلیق کرکے دشمن کے دانت کھٹے کرتے رہے۔
یہ الیکشن اگرچہ 25 جولائی کی رات کو ہی ختم ہوگیا تھا، مگر اس کی ’’پاک دامنی‘‘ اور ’’پاک بازی‘‘ کی داستانیں آج بھی اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔ الیکشن نتائج کی ’’شفافیت‘‘ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نتائج آجانے کے بعد جتنے بھی انتخابی حلقے ری کاؤنٹنگ کے لیے کھلوائے گئے ان میں نتائج ہارنے والوں کے حق میں ہی نکلے۔
تحریک انصاف کے ہارنے والے امیدوار کی جانب سے ری کاؤنٹنگ کی درخواست پر جب جیتنے والے ایم ایم اے کے امیدوار عبدالرشید کے صرف گیارہ اسٹیشنز کی ہی گنتی شروع ہوئی تو تقریباً گیارہ سو مزید ووٹ ان کے حصے میں آچکے تھے۔ تحریک انصاف کے امیدوار نے خوف کے مارے مزید اسٹیشن کھولنے سے منع کرنے میں ہی عافیت جانی۔ پنجاب اور کے پی کے میں اس سے بھی برا معاملہ رہا۔ جو جو حلقے کھلتے جارہے تھے ان میں پی ٹی آئی جو پہلے کامیاب قرار دی گئی تھی ری کاؤنٹنگ کے نتیجے میں اپنی نشستیں ہارتی جارہی تھی۔ ری کائونٹنگ کے ان خطرناک نتائج پر الیکشن کمیشن نے معذرت کرتے ہوئے مزید حلقے کھولنے سے انکار کردیا۔
البتہ اب اطلا ع آچکی ہے کہ انھوں نے ستائیس حلقے کھولے جانے کی منظوری دے دی ہے، مگر اس سے پہلے اس کا بھی ماسٹر پلان تیار کرلیا گیا ہے، جس کا تازہ ترین مظاہرہ NA-118 (ننکانہ صاحب) میں دیکھنے میں آیا، جہاں سے پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی درخواست پر دوبارہ گنتی ہوئی اور اس گنتی میں 9200 مسترد شدہ ووٹ دکھائے گئے، جن میں نون لیگ کے 7000 اور تحریک لبیک کے 2200 مسترد ووٹ ہیں، جبکہ حیران کن صورت تحریک انصاف کی ہے جس کا ایک بھی ووٹ مسترد نہیں ہوا۔ اس طرح ری کاؤنٹنگ میں بھی تحریک انصاف ہی فاتح رہی۔
درحقیقت اس الیکشن میں مسترد شدہ ووٹ ہی وہ خفیہ ہتھیار ثابت ہوا ہے جس کی بدولت کسی بھی فریق کو نیچا اور من چاہے امیدوار کو اونچا دکھایا جاسکتا ہے۔
الیکشن 2018ء میں کُل مسترد شدہ ووٹ 16 لاکھ 79 ہزار 7 سو 8 (708 1679) ہیں، جن میں سے 14 لاکھ 95 ہزار 9 سو (1495900 ) ووٹ مسلم لیگ (ن) کے تھے۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ انتخابی نتائج کس قدر محنت اور عرق ریزی سے کشید کیے گئے ہیں۔ (اتنی محنت کے عوض اگر 9 ارب روپے لیے گئے تو کیا یہ حق نہیں بنتا ہے؟)
ان نتائج اور مسترد شدہ ووٹوں نے کچھ حقائق طشت ازبام کردیے ہیں جن کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ دھاندلی کی جڑ ’’مسترد شدہ ووٹ‘‘ ہیں۔
ہر الیکشن میں فوج کی تعیناتی میں اضافے اور مسترد شدہ ووٹوں میں اضافے کا تناسب چیک کریں !!!
2002ء میں مسترد شدہ ووٹ 775,720 تھے، ان اتخابات میں 30,000 فوجی جوانوں کا تعاون حاصل رہا۔
2008ء کے انتخابات میں مسترد شدہ ووٹ 973,694 تھے اور 39,000 فوجی الیکشن ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے۔
2013ء کے جنرل الیکشن میں مسترد شدہ ووٹ بڑھ کر 15,02,717 ہوگئے ، جبکہ 70,000 فوجی تعینات کیے گئے تھے۔
حالیہ الیکشن 2018ء میں مسترد ووٹوں کی تعداد تقریباً 1700000 ہے اور فوجی جوان 370,000 کی تعداد میں اپنی ذمے داریاں انجام دے رہے تھے۔
ابھی کی ایک اور تازہ خبر یہ ہے کہ کراچی کے علاقے گزری میں آج جب اسکول کھلے، تب بچوں نے اپنے اساتذہ کو بتلایا کہ ان کی کلاس میں ووٹوں کی کتابیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ اخباری رپورٹرز نے رپورٹ کیا ہے کہ یہ تمام ووٹ ایسے ہیں جن پر ایک ہی امیدوار کو ووٹ ڈالے گئے ہیں۔
اب آتے ہیں اس جدید سسٹم پر، جس کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا دعویٰ تھا کہ انتخابی نتائج کے لیے اِس مرتبہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔ ملک بھر میں قائم 85 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنز سے انتخابی نتائج الیکشن کمیشن کے مرکزی دفتر تک پہنچانے کا کام رزلٹ مینجمنٹ سسٹم کا تھا، مگر حیرت کی بات ہے کہ پہلی بار اس الیکشن میں انتخابی نتائج اس حد تک تاخیر کا شکار ہوئے۔
الیکشن کمیشن نے دعویٰ کیا تھا کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے اِس بار انتخابات کی شب دو بجے تک تمام نتائج جاری کردیے جائیں گے، تاہم یہ محض دعویٰ ہی رہا۔
حزبِ اختلاف کی جماعتیں دھاندلی کے الزامات کے ساتھ یہ بات بھی کررہی ہیں کہ RTS کی ٹیکنالوجی جام ہوچکی تھی یا کسی کے کہنے پر اس کو بند کیا گیا تھا؟ اس کی تصدیق اور تردید کے لیے کس کی بات پر یقین کیا جائے اور کس کو مورد الزام ٹھیرایا جائے؟
ٹیکنالوجی ایکسپرٹ کہتے ہیں کہ جب کسی ایپلی کیشن پر بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے تو اس کی کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان نے کہا تھا کہ نتائج کی فراہمی کے نظام یعنی آر ٹی ایس پر دباؤ کے باعث نتائج کے اعلان میں تاخیر ہوئی۔
چلیں مان لیتے ہیں کہ الیکٹرونک سسٹم دباؤ کا شکار ہوکر جام ہوگیا تھا، مگر یہ دباؤ ’’سیاسی و عسکری‘‘ تھا یا ٹیکنالوجی کا اپنا دباؤ تھا؟ اس راز سے بھی پردہ اٹھ ہی جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ انتخابی نتیجے میں دو گھنٹے کی تاخیر سے کوئی داغ نہیں لگا بلکہ انتخابات 100 فیصد شفاف ہیں۔
انتخابات کس حد تک شفاف تھے اس بارے میں دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہونے والے کارٹون ہی کافی ہیں، تاہم انتخابی عمل پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم ’’فافن‘‘ نے انتخابات کے بعد اپنی جاری کردہ رپورٹ میں کہا ہے کہ انتخابات میں نتائج کے حوالے سے بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے اور قومی اسمبلی کے 70، اور 120 صوبائی حلقے بدترین دھاندلی کا شکار ہوئے۔
کچھ مزید لکھنے کو دل کرتا ہے مگر کالم کا صفحہ اس بات کی اجازت نہیں دے رہا۔ ان شاء اللہ زندگی رہی تو اگلے کالم میں مزید کچھ نیا لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔ اللہ حافظ۔

حصہ