ڈاکٹر نثار احمد نثار
رحمن نشاط شاعر بھی ہیں اور افسانہ نگار بھی۔ ’’پانیوں میں گھلتی زمین‘‘ ان کا چوتھا افسانوی مجموعہ ہے جب کہ اس سے قبل ان کے افسانوں کی تین کتابیں آئینے میں سورج‘ بے چھت آسمان اور پانی پر لکیر شائع ہو چکی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار نامور قلم کار شمشاد احمد نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی لائبریری کمیٹی کے زیر اہتمام رحمن نشاط کے افسانوں کے مجموعے ’’پانیوں میں گھلی زمین‘‘ کی تعارفی تقریب کے موقع پر اپنے خطاب میں کیا جس میں ڈاکٹر شاداب احسانی اور صبا اکرام مہمانان خصوصی تھے دیگر مقررین میں زیب اذکار‘ سلمان صدیقی اور ڈاکٹر رخسانہ صبا شامل تھی راشد نور نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ صاحب صدر نے مزید کہا کہ ہمارے ہاں جو سماجی‘ سیاسی اور اخلاقی بحران آیا ہے رحمن نشاط نے اپنے افسانوں میں انھیں اجاگر کیا ہے وہ بات کرنے کے ڈھنگ سے واقف ہیں اس لیے ان کی تحریریں قابل سائش ہیں اور عوام میں مقبول بھی۔ مہمان خصوصی صبا اکرام نے کہا کہ رحمن نشاط کے افسانے موضوعات کے حوالے سے بہت اہمیت کے حامل ہیں یہ مرکزی خیال سے جڑی ہوئی چیزوں کو نمایاں کرکے کمال کرتے ہیں ان کے اس اندازِ فن سے قارئین پوری دل جمعی سے ان کے افسانے پڑھتے ہیں‘ ان کی کہانیاں سیاسی جبر و تشدد اور معاشرتی کرب کی عکاس ہیں۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ رحمن نشاط نے اپنے افسانوں میں پاکستانیت کی بات کی ہے ان کے افسانے شاہکار افسانے ہیں انھیں مشاہدات کے اظہار پر عبور حاصل ہے‘ ان کے مکالمے جان دار ہیں‘ ان کے ہاں روایتی افسانوں کا مزا ہے اور جدید لفظیات و استعارے بھی ان کی تحریروں کا محور ہیں۔ انھوں نے اس موقع پر اردو زبان کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا ان کا کہنا تھا کہ اردو بولنے والوں کا بیانیہ مقامی نہیں ہے سارے بیانیے انگریزی کے زیر اثر ہیں۔ ڈاکٹر رخسانہ صبا نے کہا کہ رحمن نشاط بھی معتبر افسانہ نگاروں میں شامل ہیں‘ لفظ پانی ان کی تخلیقی کیفیات کا جواں مرد استعارہ ہے ان کے افسانوں میں کہانی منطقی انداز میں آگے بڑھتی ہے معاشرے کے ناسور ان کی کہانیوں میں نظر آتے ہیں ان کے کردار فکری بصیرت کے حامل ہیں یہ سماجی رویوں کو برتنے کا چلن جانتے ہیں انھوں نے معاشرے میں بکھری ہوئی کہانیوں کو افسانوی رنگ دے دیا ہے‘ ان کے افسانوں میں واحد متکلم کردار بھی ہیں۔ ان کا اسلوبِ بیان سادہ ہے اور فن میں پختگی پائی جاتی ہے یہ قاری کو زیر کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ رحمن نشاط کے افسانے سماجی حقائق نگاری کے ساتھ ساتھ باطنی اظہاریہ بھی ہیں یہ ہنر مندی ان کی طویل ادبی محنت کا ثمر ہے ان کے افسانوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ افسانہ بغیر کسی تمہید کے اچانک شروع ہو جاتا ہے اور آخر تک سسپنس قائم رہتا ہے افسانے کا انجام منطقی ہوتا ہے اور متاثر کن بھی۔ ان کے افسانے جاذبِ توجہ ہوتے ہیں اور وہ غیر متوقع انجام سے قاری کو چونکا دیتے ہیں ان کے ہاں شہری سماجیات کی عکاس ہے اور معاشرے کی حقیقی مسائل کی آواز بھی۔ انھوں نے قیام پاکستان کے واقعات بھی لکھے ہیں اور پاکستان ٹوٹنے کے اسباب بھی اپنی کہانیوں میں بیان کیے ہیں تاکہ ہم صحیح و غلط کا فیصلہ کرنے میں آسانی محسوس کریں اور پاکستان کی خوش حالی و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ انھوں نے کرداروں کی مادری زبان کو تبدیل نہیں کیا بلکہ انہی کی زبان میں مکالمہ کرکے نیا پن پیدا کیا ہے۔ رحمن نشاط نے کہا کہ وہ آرٹس کونسل پاکستان کراچی کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے میری کتاب کی تعارفی تقریب منعقد کی۔ میری کتاب پر جو تبصرے ہوئے ہیں وہ میرے لیے سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ زیب اذکار نے کہا کہ آج کے حاضرین کی تعداد کے تناظر میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ رحمن نشاط ایک ہر دل عزیز افسانہ نگار ہیں ان کے ہاں عمیق مشاہدات اور زندگی کے تجربات نظر آتے ہیں ان کے افسانے کی بُنت اور کالم نگاری انھیں دوسرے افسانہ نگاروں سے ممتاز کررہی ہے ان کا بیانیہ ایک جذباتی نعرہ نہیں بلکہ تخلیقی قوت کا مظہر ہے‘ ان کے افسانے Meaning Full ہوتے ہیں‘ ان کے ہاں غریب و متوسط طبقے کی کہانیاں عام ہیں تاہم انھوں نے وڈیرہ شاہی نظام کے عیوب بیان کیے ہیں اس کے ساتھ سماجی برائیوں کی بھی نشاندہی کی ہے۔ راشد نور نے کہا کہ رحمن نشاط ایک عمدہ قلم کار ہیں وہ 35 برس سے شاعری اور افسانہ نگاری کر رہے ہیں ان کا ہر افسانہ دل چسپ اور سبق آموز ہوتا ہے ان کے کردار بولتے ہیں اور قاری کو ساتھ لے کر چلتے ہیں انھوں نے مزید کہا کہ آج کی تقریب کی خاص بات یہ بھی ہے کہ مقررین میں ایک بھی سرکاری فرد شامل نہیں ہے اور کراچی کے اہم لکھنے‘ پڑھنے والوں میں سے بیشتر لوگ یہاں موجود ہیں یہ ایک کامیاب تقریب ہے۔ اس موقع پر انیس احمد جعفری اور وفا زیدی نے آرٹس کونسل کی نمائندگی کی اور تقریب کے حوالے سے تمام لوگوں کو خوش آمدید کہا۔