صبیحہ اقبال
’’مجھے یہاں نہیں رہنا، لے چلو واپس، مجھے گھر لے چلو۔ ببلو میں سچ کہتی ہوں میں کچھ نہیں بولوں گی۔ اب میں نینی اور ٹینا کو پیار بھی نہیں کروں گی، میں وعدہ کرتی ہوں ببلو!‘‘ لیکن ببلو وہاں ہوتا تو سنتا۔ وہ تو جا چکا تھا۔ ’’گوشۂ عافیت‘‘ میں آنے والی ضمارہ سسکیوں کے دوران غنودگی میں چلی گئی تھی۔ غالباً سلیپنگ پلز کھلا کر اسے یہاں لایا گیا تھا۔ وارڈن شہناز اسے کن انکھیوں سے دیکھتے ہوئے فارم فِل کررہی تھی۔ ضمارہ کو ساتھ لے کر آنے والا کوئی اور نہیں اُس کا اپنا بیٹا، اپنے وجود کا ٹکڑا تھا جو بوجوہ اسے یہاں چھوڑ کر جا رہا تھا۔ شہناز نے بڑی حسرت سے ضمارہ کو دیکھا اور فارم پُر کرکے دستخط کے لیے بیٹے کے آگے بڑھا دیا۔ پندرہ دن کے بعد واپس لے جانے کے وعدے پر دستخط کرتے ہوئے شاید ببلو کو جھرجھری آئی تھی تب ہی اس کا ہاتھ کانپا تھا، لیکن شہناز بخوبی جانتی تھی کہ یہ پندرہ دن کبھی ختم نہیں ہوںگے۔ گوشۂ عافیت کے مکین عموماً چند دنوں کے لیے ہی آتے ہیں لیکن زندگی کے یہ چند دن پوری زندگی پر محیط ہوجاتے ہیں۔ وہ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ ببلو کو لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ واپس جاتے دیکھتی رہی۔ شہناز نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ اسے اس وقت شاید اپنا گوشۂ عافیت میں آنا اور اس کو یہاں چھوڑ کر جاتا اپنا بھانجا یاد آگیا تھا جو بھابھی کی ہر وقت کی چخ چخ سے گھبرا کر اسے یہاں چھوڑ گیا۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبائیں لیکن وہ جلد ہی نارمل ہوگئی۔ اسے نئی آنے والی کے لیے ٹھکانا بنانا تھا جو خاصا مشکل کام تھا، کہ کچھ عرصے سے گوشۂ عافیت کے مکینوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
’’آپ کا کیا نام ہے؟‘‘
’’ضم… ما۔رہ…‘‘ ٹوٹے دانت سے رستے خون کو اس نے اپنے ملگجے سے دوپٹے سے صاف کرتے ہوئے رک رک کر جواب دیا تھا۔
’’آپ کا نام تو بہت خوب صورت ہے‘‘۔ جواباً ضمارہ نے وحشت زدہ نظروں سے شہناز کو دیکھا لیکن بولی نہیں۔
گوشۂ عافیت کی یہ مکین بظاہر پڑھی لکھی اور متمول گھرانے سے تعلق رکھتی محسوس ہوئی تھی، غالباً اس کے شوہر نے مارا ہے بے دردی سے۔ ’’یہ معاشرہ مردوں کا ہے اور مردوں ہی کا رہے گا‘‘۔ شوہر کی ستائی نغمہ بولی تھی۔ ’’شادی کے بعد باپ بھائی نے پلٹ کر خبر ہی نہ لی ہوگی جو شوہر کو یہ حوصلہ ہوا۔‘‘ گوشہ عافیہ کی نسبتاً سنجیدہ اور باپ بھائیوں کے بے جا تشدد کی ماری فوزیہ نے سر کھجاتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ ’’سوکن نے یہ حال کیا ہوگا؟‘‘ سوکن کو بھگتنے والی فرح کو خیال گزرا تھا۔ ’’آج کے بہو بیٹے بھی تو ایسا ہی کررہے ہیں۔‘‘ نازو کے اپنے زخم تازہ ہورہے تھے۔ ضمارہ کی آمد پر گوشۂ عافیت میں حسبِ معمول چہ مگوئیاں ہورہی تھیں کہ آج کے سیاہ دور میں ہر طلوع ہونے والا سورج اپنے دامن میں کوئی نہ کوئی اخلاقی سانحہ لے کر ڈوبتا ہے اور یہ اسی اخلاقی زوال کا شاخسانہ ہے کہ ضمارہ کے لیے ایک بستر کی جگہ بنانے میں اسے اتنی دیر لگی۔ اس کے اطراف بکھری کہانیاں اسے مزید غم زدہ کر گئیں۔
’’شہناز باجی کیا آج کھانا نہیں لگوائیں گی؟‘‘ شگفتہ بھوک کی بہت کچی تھی اور اس ہفتے کھانا لگانے کی ذمے داری بھی اس کے سر تھی، لہٰذا صبر مشکل ہورہا تھا۔
غم موجود ہے، آنسو بھی ہیں
کھا تو رہا ہوں پی تو رہا ہوں
جینا اور کسے کہتے ہیں
اچھا خاصا جی تو رہا ہوں
(ابوالاثر حفیظ جالندھری)
شہناز نے جواباً اثرؔ کا شعر بڑی حسرت سے پڑھ کر کھانا لگوانے کی ہدایات دیں۔
…٭…
’’خیریت تو ہے؟‘‘ آج عمارہ آنٹی دسترخوان لگتے ہی سب سے پہلے دستر خوان پر آگئیں تو شہناز نے چونک کر انھیں دیکھا۔ نام اور شکلوں کی مشابہت نے گوشے میں موجود خواتین کو متوجہ تو ضرور کیا تھا لیکن بے شعوری کے اس دور میں سوچنے اور سمجھنے کی زحمت کون اٹھاتا ہے! زندگیوں میں بس ایک تحرک ہے۔ ایک خبر پر جو رکتے ہیں ، دوسری خبرکی تلاش میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔ پھر یہاں تو ہر ایک کے ساتھ اپنے غموں کی پوٹلیاں بندھی تھیں۔
…٭…
’’آج میں اُدھر سوئوں گی…‘‘ عمارہ آنٹی نے ضمارہ کی چارپائی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ شہناز عمارہ آنٹی کا بہت خیال رکھتی تھی، ایک تو عمر میں سب سے بڑی تھیں، پھر اپنے طرزعمل سے کسی شکایت کا موقع نہیں دیتی تھیں۔ شہناز نے چونک کر عمارہ آنٹی کی طرف دیکھا۔ آج کوئی بات ضرور تھی۔ عمارہ آنٹی نے کبھی کسی بات سے اختلاف نہیں کیا تھا، پچھلے دس سال سے وہ انھیںدیکھتی آرہی تھی۔ ’’آنٹی! آنے والی خاتون ذہنی مریضہ بھی ہے۔ کہیں آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔‘‘
’’نہیں نہیں میں وہیں سوئوں گی۔‘‘ عمارہ آنٹی بضد تھیں۔ ’’شہناز بیٹا مائوں کو اپنی بیٹیوں کے پاس سکون ملتا ہے ناں۔‘‘
شہناز نے چونک کر عمارہ آنٹی کی طرف بغور دیکھا۔ عمرکے فرق کے ساتھ وہی ناک نقشہ، وہی قدوقامت۔ ’’آنٹی آپ اور ضمارہ ماں بیٹی…‘‘ الفاظ اس کے حلق میں پھنس گئے۔ ’’ہاں…‘‘ عمارہ آنٹی کی آواز میں لرزش عیاں تھی اور آنکھیں بہتی ندیا۔ ’’آنٹی یہ سب کیا ہے؟ کیسے ہے؟‘‘ شہناز کی بھی ہچکی بندھی ہوئی تھی۔ آج عمارہ آنٹی کے پُرسکون سمندر سے سچ کا ساگر چھلک گیا تھا۔ جھریوں اور آہوں کا تقابل شروع ہوچکا تھا۔ نالۂ دل بلندی سے گر کر روح کا بوجھ ہلکا کررہا تھا۔ ’’میری زندگی کی ابتدا بڑے شاندار ماحول میں ہوئی تھی، سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والی ماں باپ کی اکلوتی اور لاڈلی اولاد، سینٹ جوزف کی مقبول ڈیبیٹر، بہترین طالبہ، گولڈ میڈلسٹ…‘‘ انھوں نے اپنے پرس سے پلاسٹک کوٹنگ کے ساتھ فوٹو نکال کر سب کے آگے کردیے۔ مختلف تقریبات میں انعامات کی وصولی کی تصاویر… وہ کچھ دیر کے لیے ماضی میں گم ہوگئیں۔ غالباً انعامات کی وصولی کے وہ کیف آگیں لمحات بھربھری برف سے بھرے میدان ثابت ہورہے تھے۔
’’تعلیم مکمل ہونے پر شادی کے تذکرے شروع ہوئے اور خواجہ ارشد بیگ، اپنے وقت کے بہترین وکیل جن کا نام کیس کی کامیابی کی علامت سمجھا جاتا تھا، میرا مقدر بنے۔ قدرت کی مہربانی سے کار، کوٹھی، بینک بیلنس، عزت اور وقار… کیا کچھ میسر نہ تھا مجھے، لیکن انحطاط کبھی اعلان کرکے نہیں آتا۔ اپنی قدروں کا انحطاط آپ سے آپ کی پہچان بھی چھین لیتا ہے۔ وکیل صاحب کی مصروفیتوں اور اپنی تنہائیوں کا علاج میں نے نام نہاد سوشل لائف میں ڈھونڈا، جہاں نام و نمود کی خواہشوں کے محل اور خوابوں کے سراب پہلو بہ پہلو چلے آتے ہیں اور انسان حقیقت سے دور نکل جاتا ہے۔ عمل کا فقدان اور بیان بازی کا طوفان ہر سو شور مچا مچا کر اپنے مقاصد سے بے نیاز کرتا، اور میری یہ بچی… اپنی پیار بھری نظروں سے بے خبر سوتی ضمارہ کو دیکھا اور اس کی پیشانی سے بال ہٹاتے ہوئے اپنی ممتا کے کئی لمحے اس پر وار دیے تھے۔
باپ کی مصروفیات کے سبب باپ کی شفقت و توجہ سے تو محروم تھی ہی، میری کم عقلی سے وہ ممتا سے بھی آسودہ نہ ہوسکی… آہ!‘‘ عمارہ آنٹی کے لبوںسے بے اختیار ایک سرد آہ نکلی۔
…٭…
’’مما میں آج آپ کے ساتھ چلوں گی۔‘‘ دس سالہ ضمارہ نے میری ساڑھی کا پلو پکڑا ہوا تھا۔
’’کیوں، آج تمہیں ہوم ورک نہیں ملا؟‘‘ میں نے اس سے سخت لہجے میں سوال کیا تھا۔ ’’ملا تو ہے مما، لیکن آج میرا دل آئوٹنگ کے لیے چاہ رہا ہے، ہوم ورک میں واپس آکر کرلوں گی۔‘‘
’’بے بی میں وہاں جاکر اپنی میٹنگ میں مصروف ہوجائوں گی، تم خوامخواہ بور ہوگی۔‘‘
’’بور تو میں گھر میں اکیلی رہ رہ کر بھی ہوجاتی ہوں مما! وہاں کم از کم دوسری آنٹیز سے ہائے ہیلو تو ہوگا۔‘‘ وہ آج ہر بات کا جواب دے رہی تھی۔
’’یوں بھی سب اپنے ہم عمروں کے ساتھ ہی گپ شپ کرتے اچھے لگتے ہیں، تم اپنا حلیہ تو دیکھو، کیا اس طرح باہر جاتے ہیں؟‘‘
’’ارے مما میں ابھی آئی پانچ منٹ میں فریش ہوکر۔‘‘ وہ چہکتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔ میں نے موبائل نکال کر وقت دیکھا ’’ارے لڑکی تم نے میرا کتنا وقت خراب کرا دیا۔‘‘ میں خفگی سے بڑبڑاتی گاڑی کی طرف بڑھ گئی جس کا ڈرائیور گاڑی کا گیٹ کھولے پہلے ہی منتظر کھڑا تھا۔ ضمارہ کے اپنے کمرے کی جانب اٹھتے قدم وہیں رک گئے۔ میں نے گاڑی کے اسٹارٹ لیتے ہی غیر ارادی طور پر اُس کی جانب دیکھا، وہ ٹکر ٹکر مجھے گیٹ کراس کرتے دیکھ رہی تھی‘‘۔ اور پھر جیسے الفاظ ان کا ساتھ چھوڑ گئے، بس:
ایک ذرا سی رنجش، ساتھ چھوٹ جاتے ہیں
بھیڑ میں زمانے کی، ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں
’’بس وہی دن تھا جب ہمارے درمیان بیگانگی کی دیوار کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی۔ میں فاصلوں کی فصل بوتی چلی گئی۔ وہ میری لائی ہوئی کسی چیز کو ہاتھ تک نہ لگاتی، نہ مجھ سے بات کرتی۔ مجھے فرصت بھی کب تھی جو میں کبھی سوچتی! آنکھ تو میری بس اُس دن کھلی جب خواجہ صاحب کے فضائی حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد میں نے اسے گلے لگاکر اپنا اور اس کا دکھ بانٹنا چاہا۔ ’’میرے پاس وقت نہیں ہے‘‘ کہہ کر وہ یونیورسٹی جانے کے لیے نکل کھڑی ہوئی اور میں زندگی کے لق ودق صحرا میں تنہا کھڑی رہ گئی۔ اس کے اور میرے درمیان ایسی دیوار کھڑی ہوئی کہ میں آج تک اسے سر نہ کرسکی۔ اس نے شادی بھی اپنی مرضی سے کی، مجھے صرف مدعو ہی کیا گیا تھا۔‘‘
ہمیشہ خاموش اور گم سم رہنے والی عمارہ آنٹی آج اپنے سارے دکھ درد، ساری کوتاہیاں بیان کرکے ہلکی پھلکی ہوجانا چاہتی تھیں۔ ’’میرا داماد خواجہ ولا میں ہی متمکن تھا، کہ خواجہ ولا ضمارہ کے نام تھا۔ شادی کے بعد ضمارہ کی ضرورتیں روز بروز بڑھتی اور میری کم ہوتی رہیں، یہاں تک کہ خواجہ ولا میں میرے لیے کوئی جگہ باقی ہی نہیں رہی، اور جب ببلو کے لیے آیا کا بندوبست ہوا تو اس کے لیے کمرے کی ضرورت پڑی۔ اس طرح میرے لیے خواجہ ولا میں کوئی جگہ باقی ہی نہ رہی اور ضمارہ کا شوہر مجھے اس گوشۂ عافیت میں چھوڑ گیا۔ جب میں یہاں آئی تو ببلو کوئی دس سال کا تھا۔ اب اٹھارہ سال بعد یقینا اس کی شادی ہوچکی ہوگی، بیوی بچے ہوں گے، لہٰذا اب گھر میں ضمارہ کے لیے گنجائش ہی نہ ہوگی، اسی لیے ببلو اسے یہاں چھوڑ گیا ہے۔ چلو اس بہانے میں اپنی بیٹی سے تو مل لی۔‘‘ آنٹی عمارہ نے جھک کر ایک مرتبہ پھر ضمارہ کا ہاتھ چوما اور ایک اطمینان بھری مسکان ان کے چہرے پر پھیل گئی۔ وہ ہنسنے لگیں اور پھر ہنستی ہی چلی گئیں۔
کیا آپ کا بچہ اسکول میں لنچ مکمل کرتا ہے
بچوں کو کھانا کھلانا آسان کام نہیں، وہ بھی اسکول لنچ۔ مائیں بہت خیال رکھتی ہیں کہ لنچ بکس بچوں کی پسند کے عین مطابق ہو۔ ویسے بچوں کو اپنے دوستوں کے ساتھ لنچ کرنے میں لطف تو آتا ہے، مگر بھوک سے زیادہ باتیں کرنے میں مزا آتا ہے۔ ایسے میں کھیل کود بھی تو ضروری ہے۔ لنچ بریک ہوتا ہی کتنا طویل ہے! اس پر بھاگم بھاگ اسنیکس لینا۔ پھر کچھ بچوں کو واش روم بھی جانا ہے اور کچھ کو ادھورا رہ جانے والا ہوم ورک مکمل کرنا ہے۔ غرضیکہ ننھی سی جانیں اور بڑے بڑے کام۔
اب بتایئے کیا آپ کا بچہ اسکول میں لنچ مکمل نہیں کرپاتا، یا بالکل ہی نہیں کرتا؟ اسے گھر آکر کپڑے بدل کر، منہ ہاتھ دھو کر بھی بھوک کیوں نہیں لگتی؟ کہیں اس لیے تو نہیں کہ وہ واپسی پر وین میں لنچ مکمل کرتا ہے! ذرا اس کے ساتھیوں سے معلوم کریں کہ اس کے اسکول میں معمولات کیا ہیں؟ کیا وہ اپنے دوست کے لنچ میں تو دل چسپی نہیں لیتا؟ اگر لیتا ہے تو دوست کے لنچ میں کیا چیزیں شامل ہوتی ہیں؟ بچوں سے پوچھنا چاہیے کہ وہ آج یا کل لنچ میں کیا لے جانا پسند کریں گے؟ ان کے دوست ساتھی کیا چیزیں لے کر آتے ہیں؟
اتنا تو طے ہے کہ آج کل بیشتر بچے بازار کے تیار شدہ پیکٹوں میں بند چپس، اسنیکس اور کولڈ ڈرنکس لینا چاہتے ہیں۔ وہ مائوں سے پیسے لینے کی ضد بھی اس لیے کرتے ہیں تاکہ اسکول کی ٹک شاپ سے اپنے ارمان پورے کرسکیں۔ مائیں تو گھروں میں کھانے پینے پر روک ٹوک بہت کرتی ہیں ناں۔