ثمرین ملک
’’میرے پاس لکھنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے… کیا لکھوں میں؟
مجھے اللہ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا، مگر میں نے ان میں سے کسی کو بھی استعمال نہیں کیا۔ اتنی سستی، اتنی کاہلی آخر کیوں؟
میں ایسی کیوں ہوں…؟‘‘
اسما تکیے پر سر رکھے مسلسل روئے جارہی تھی اور اپنے آپ سے شکوے کیے جارہی تھی۔ اسے خود پر بہت غصہ آرہا تھا۔ اس کو دکھ بھی تو بہت بڑا ملا تھا۔ آج مضمون نویسی کے مقابلے میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ سب کے سامنے بے عزتی کے احساس نے اسے کالج بھی نہ جانے دیا۔ اسے لکھنا آتا تھا مگر مستقل مشق نہ ہونے اور کچھ مطالعے سے دوری نے اسے ناکامی کی ذلت کے گڑھے میں دھکیل دیا تھا۔
’’اب میں کبھی کالج نہیں جائوں گی۔‘‘ اس نے اپنے دل میں فیصلہ کرلیا تھا۔ پھر روتے روتے کب نیند کی دیوی نے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا، اسے پتا ہی نہ چلا۔
صبح جب آنکھ کھلی تو دوپہر کے 12 بجنے والے تھے۔ آج دوسرا دن تھا کہ وہ کالج نہیں گئی تھی۔ رات جو فرسٹریشن کا دورہ پڑا تھا اس کے آثار بہت حد تک کم ہوچکے تھے۔
منہ ہاتھ دھو کر کچن میں گئی، سلائس سینک کر چائے اور مکھن کے ساتھ ناشتا کرنے لگی۔ رات بھر روتے رہنے کے بعد اب دماغ کسی حد تک پُرسکون تھا۔
اگرچہ یہ مئی کی ایک دوپہر تھی، مگر گرمی کی شدت جون، جولائی کی منظرکشی کررہی تھی، اور صحن میں ایستادہ نیم کے درخت پر گرمی اور دھوپ کی شدت سے چھپے پرندوں کی کوئی چہکار سنائی دیتی تو دل کو بے چین کردیتی۔ اس ماحول نے دل و دماغ پر بے زاری کی کیفیت کو دوچند کردیا تھا۔ فضا پر سکوت طاری تھا۔ کچھ دل کی گداز کیفیت نے بھی احساسات کے بند دروازوں کو کھول دیا تھا۔ اس نے تہیہ کرلیا تھا کہ اب وہ دل لگا کر پڑھے گی بھی، اور خوب لکھے گی بھی۔ اسی احساس نے اسے قلم کاغذ تک رسائی بہم پہنچائی اور وہ بے تکان لکھتی گئی۔ ذہن پر آمد طاری تھی۔ قلم سر پٹ دوڑتا رہا۔ بس لکھتی رہی اور لکھتی ہی چلی گئی، اور کئی صفحات سیاہ کر ڈالے۔
’’ہر موسم اپنا کام وقت پر کرتا ہے۔ چاند، سیارے، ستارے اپنے اپنے محور میں پابندی سے گھومتے ہیں، پرندے بھی صبح شام اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں۔ آسمان ہر آن کیسے کیسے رنگ بدلتا ہے۔ دنیا کا ہر رنگ مہربان ہے، زندگی کا ہر لمحہ سائبان ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم ان لمحوں میں اپنے آپ تک رسائی حاصل نہیں کرپاتے۔‘‘
’’واہ‘‘ وہ اپنی تحریر کو پڑھ کر خود ہی جھوم گئی۔ اسے اپنی یہ تحریر بہت اچھی لگی، اس نے سوچا ’’میں تو بہت اچھا لکھ سکتی ہوں۔‘‘
اس احساس نے اسے ذہنی آسودگی بخشی اور اس نے پختہ ارادہ کرلیا کہ اب وہ لکھنے کا سلسلہ منقطع نہ ہونے دے گی۔
آج وہ ٹی وی لائونج میں بیٹھی ناشتا کررہی تھی تو اس کا تخیلی لمحہ لان میں اس پرانے پیڑ کے پاس چڑیوں سے محوِ گفتگو تھا۔ تب اس نے محسوس کیا اس خوب صورت لمحے کو اس کے ذہن نے محفوظ کرلیا ہے۔ اسے افسوس ہوا کہ اب سے پہلے نہ جانے اس جیسے اور کتنے لمحے منتظر رہے ہوں گے، جو آئے اور گزر گئے، مگر صد افسوس کہ ان لمحوں کو قرطاس پر رقم نہ کرسکی۔ اس نے سوچا، وہ لمحے کسی شہابِ ثاقب کی مانند کائنات کی وسعتوں میں بھٹکتے پھر رہے ہوں گے۔ کاش وہ ان تمام لمحوں کو تلاش کرسکتی، چاہے وہ سفید بادلوں کے چھوٹے بڑے بگولوں میں گم ہوں یا نیلے آسمان کے گنبد میں گھومتے پھر رہے ہوں۔ چڑھتے سورج کی روشنی میں جلوہ گر ہوں، یا ڈھلتے سورج کے سائے میں چھپے بیٹھے ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ لمحے چاندنی رات میں ایک دوسرے سے آنکھ مچولی کھیل رہے ہوں، اور کچھ تو یقینا بارش کی بوندوں سے چمٹے ہوں گے۔ میں ان سب کو ڈھونڈ نکالوں گی۔ کچھ کو صبح کی تازہ شفق سے چنوں گی اور کچھ کو رات کے پچھلے پہر کی خاموش تنہائیوں سے چن لوں گی، مگر اب میں تنہا زندگی بسر نہیں کروں گی۔ اب میں قلم سے دوستی کرلوں گی، کتابوں کو اپنا ساتھی بنا لوں گی۔‘‘ یہ سب کچھ سوچتے ہوئے اس نے ایک آسودہ سانس لی۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ اس نے سوچا ’’میں اب ہر حال میں ایک کامیاب لکھاری بن کے رہوں گی۔ میں آج اپنے آپ سے یہ وعدہ کرتی ہوں کہ اپنے تمام احساسات و جذبات کو اپنا ہم نوا بنا لوں گی اور اپنی ذات کی تکمیل کرلوں گی۔‘‘ اِس سوچ نے اُس کے دل میں طمانیت کا سمندر موجزن کردیا، اسی سرشاری کے عالم میں محو ذہن خیالات کی دنیا میں ڈوبا ایک نئی کہانی کی تشکیل کررہا تھا۔