الف نون
’’جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تُو ہی تُو ہے‘‘ کے مصداق… نہ دکھائی دینے والی قوت نہ دِکھنے کے باوجود پوری آب و تاب کے ساتھ دکھائی دی۔ اس پراسرار قوت نے انتخابی عمل میں نگرانی کے بجائے انتظامی معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے پیروں پر کلہاڑی نہیں کلہاڑا مارا ہے۔ پورے پاکستان میں دھاندلی کا جو انداز اپنایا گیا ہے اُس کا اندازہ تو تھا، مگر اس بھونڈے اسٹائل کی تو قع نہیں تھی۔ یعنی انتخاب آپ کی مرضی کا… نتیجہ ہماری مرضی کا!
ان نتائج نے انتخابی عمل کو اس قدر مشکوک کیوں بنایا؟ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کو اُن حلقوں تک سے کامیاب کروایا گیا جہاں ان کی مہم بودے انداز سے چلی تھی۔ پولنگ کے دن جن کے پولنگ ایجنٹ تک پورے نہیں تھے۔ کئی مقامات پر انتخابی کیمپ دن کے بارہ بجے ہی بند ہوچکے تھے۔ مگر اسی حلقے سے کامیابی حیرت میں ڈال رہی ہے۔ اسی طرح پریزائیڈنگ افسران کی جانب سے نتیجے کی کاپی اور فارم 45 کا پولنگ ایجنٹس کو نہ دینا بھی بہت سے شکوک پیدا کرگیا۔ الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ نتیجہ رات دوبجے تک لازمی آجائے گا، مگر اگلے دن رات تک بھی نتائج کا انتظار ہوتا رہا۔ سوشل میڈیا میں بہت سی ویڈیو لوڈ کی گئی ہیں جن میں فوجی اہلکار ووٹ گنتے دکھائی دے رہے ہیں اور تحریک انصاف کے حق میں کام کرتے نظر آرہے ہیں۔
اور پھر جنرل الیکشن… میجر پرابلم بن گئے۔ کپتان وزیراعظم اور کرنل باسمتی کہلائے گئے۔ 2018ء کے الیکشن کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بدترین دھاندلی کے حوالے سے دیکھا جارہا ہے، کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ پری پول رگنگ کا 70 سالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے۔
تحریک انصاف کو اکثریت دلوانے کے لیے جس طرح کھلے عام آنکھوں میں دھول جھونک کر نتائج تبدیل کیے گئے، اس نے ملکی سالمیت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ’’لاڈلے‘‘ نے کھیلنے کو چاند مانگا، اس چاند کو جھولی میں ڈالنے کے لیے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا۔ یہاں تک کہ خان صاحب نے مخلوط پارلیمنٹ پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تو ان کو سادہ اکثریت دے دی گئی۔ پھر خواہش یہ تھی کہ کوئی بھاری بھرکم بندہ بھی اپوزیشن میں نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق سمیت بڑے بڑے نامی گرامی پچھاڑ دیے گئے… اور اس طرح 85 کے قریب یقینی نشستوں کو 115 بنانے میں انتخابی عمل کو مشکوک بنادیا گیا۔
تحریک انصاف کے سوا تقریباً تمام ہی جماعتوں نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ایسا معاملہ 1977ء میں دیکھنے میں آیا تھا جب ذوالفقار علی بھٹو نے انتخابات کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی، اور پھر اسلامی جمہوری اتحاد کی ملک گیر تحریک کی ابتدا ہوئی اور انتخابات کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ ہوا۔ اگر ماضی کی طرح اِس بار بھی تمام جماعتیں انتخابات میں دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر تحریک چلانے کا فیصلہ کرتی ہیں تو بائیس ارب روپے کی لاگت سے دھاندلی زدہ انتخابات دوبارہ کروانے پڑ سکتے ہیں۔
جنرل الیکشن کا پہلا راؤنڈ نہایت خوبصورتی اور ایمان داری کے ساتھ کھیلا گیا۔ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس کے بوتھ پر دھاندلی ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پولنگ کا عمل انتہائی شفاف اور صاف ستھرا ہوا۔ پولنگ اسٹیشن کے باہر اور بوتھ کے اندر تک مستعد فوجی جوان اپنی ’’ذمے داری‘‘ جانفشانی سے ادا کرتے دکھائی دئیے۔ انتخابی حلقے کے تمام ووٹرز نے جو منظر دیکھا وہ اس کی ہی گواہی دے سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر انھوں نے دیکھا کہ بوتھ میں کسی بھی قسم کی گڑبڑ نہیں، یہاں تک کہ پولنگ اسٹیشن کے اندر موبائل فون تک کی ممانعت تھی۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ بوتھ کے مناظر کی عکس بندی کرسکے۔ لہٰذا عام ووٹر نے یہی تاثر لیا کہ انتخابی عمل نہایت شفاف ہے۔
لیکن جنرل الیکشن کا دوسرا راؤنڈ حد درجہ بھیانک ثابت ہوا۔ اتنا بھیانک کہ ذرا سی بھی سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے ووٹر کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ پولنگ بوتھ پر پولنگ کا وقت ختم ہوتے ہی تمام بیلٹ باکسز کو فوج نے اپنی تحویل میں لے لیا، اور پولنگ ایجنٹس کو کمرے کے ایک کونے میں آرام سے بٹھا دیا گیا۔ اور اس کے بعد وہ ہوا جس کی ماضی میں کبھی نظیر نہیں ملتی۔ یہ طریقہ واردات کم از کم پاکستان میں پہلی مرتبہ آزمایا گیا۔ اس ’’بند کمرے کی دھاندلی‘‘ کے گواہ صرف وہ حضرات تھے جو بند کمرے میں سنگینوں کے سائے میں اسکول کے بچوں کی طرح سہمے صرف کاغذ پر گنتی لکھ رہے تھے۔ پاک فوج کے مستعد جوان پریزائیڈنگ افسر اور اس کے عملے کے ساتھ مل کر بیلٹ باکسز سے ووٹ نکال کر خود ہی دیکھتے کہ کس امیدوار کو ڈالا گیا ہے اور بتادیتے کہ کس کو ووٹ ڈالا گیا ہے۔ نہ ہی ووٹ دکھانے کی زحمت اور نہ ہی گنتی کے عمل میں پولنگ ایجنٹس کو بلا وجہ پریشا ن کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔
اب عالم یہ تھا کہ پولنگ ایجنٹس ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے اور اصرار کررہے تھے کہ انہیں یا تو گنتی کے عمل میں شامل کیا جائے، یا پھر باہر جانے دیا جائے۔ مگر دونوں مطالبے مسترد کردیئے گئے یہ کہہ کر کہ اوپر سے آرڈر نہیں ہے۔ یہ ’’اوپر سے آرڈر‘‘ کا مطلب کیا ہے؟ اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔
حالانکہ الیکشن کمیشن کی واضح ہدایات موجود ہیں کہ فوج صرف پولنگ کے عمل کی نگرانی کرے گی اور دیگر معاملات پریزائیڈنگ ٹیم انجام دے گی، اور گنتی کے عمل کو صاف شفاف بنانے کے لیے انتخابی امیدوار کے نمائندے کو شامل کیا جائے گا۔ مگر بند کمرے میں جو کچھ بھی ہوا، اور اس کے نتیجے میں جس بھونڈے انداز سے انتخابی نتائج کو تبدیل کیا گیا اس کی بازگشت کئی ماہ تک رہے گی اور پھر 1977ء کے انتخابات کی طرح تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہوجائے گی۔
سربراہ متحدہ مجلس عمل مولانا فضل الرحمن نے بھی حالیہ انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھاندلی شدہ الیکشن قبول نہیں کریں گے، اور اس حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس طلب کرلی گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن)کے صدر شہبازشریف نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔ ملک کی تمام بڑی پارٹیاں انتخابی نتائج کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرچکی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان نے بھی اس صورت حال پر کم و بیش اسی قسم کا اظہار کیا ہے۔ مزید یہ کہ پہلی مرتبہ انتخاب میں حصہ لینے والی تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج سے متعلق تحریک لبیک پاکستان کا واضح اور دوٹوک مؤقف ہے کہ تاریخ کی بدترین دھاندلی نہیں دھاندلا ہوا اور الیکشن نہیں سلیکشن کی گئی ہے۔ اگر یہی سلیکشن کرنا مقصود تھی تو قوم کے اربوں روپے ضائع کیوں کیے گئے؟ شفاف اور غیر جانب دارانتخابات کا ڈراما کیوں رچایا گیا؟
کراچی جو گزشتہ تیس سال سے لسانی جماعت کے قابو میں تھا، اس شہر میں عرصۂ دراز کے بعد مختلف نتائج سامنے آئے۔ متحدہ قومی موومنٹ کا اس شہر پر جو تسلط قائم تھا وہ ٹوٹ گیا، جس میں قائد تحریک الطاف حسین کی جانب سے بائیکاٹ کی اپیل کا بھی خاصا بڑا دخل ہے۔ حالانکہ حیدر عباس رضوی نے سوشل میڈیا کے ذریعے مہاجر عوام کو اس بات پر راغب کرنے کی کوشش کی کہ مہاجروں کا اس انتخابی عمل میں حصہ لینا بہت ضروری ہے، کیونکہ بائیکاٹ کی صورت میں مہاجر قوم دیوار کے ساتھ لگ جائے گی۔ اس اپیل کا خاطر خواہ اثر بھی ہوا اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو چند نشستیں مل گئیں، باوجود اس کے کہ فاروق ستار اپنے آبائی حلقے سے الیکشن ہار گئے۔
ان نتائج کا کراچی کی حد تک جو تاثر قائم ہوا وہ یہ ہے کہ مقتدر حلقوں نے اپنے مہرے تبدیل (ری پلیس)کیے ہیں۔ پہلے جو علاقے متحدہ کا گڑھ سمجھے جاتے تھے اُن میں تحریک انصاف کے مہرے فٹ کروائے گئے۔ ضلع شرقی سے ایم کیو ایم اور ضلع جنوبی سے پیپلزپارٹی کا صفایا کیا گیا… شرقی سے ایم کیو ایم اور جنوبی سے پیپلزپارٹی کو کوئی سیٹ نہیں ملی۔ دوسرا ضلع جنوبی ہے جہاں قومی اسمبلی کی دونوں سیٹیں تحریک انصاف کو جتوائی گئیں۔ صوبائی سیٹوں پر بھی تحریک انصاف کو کامیاب کامیاب کروایا گیا، اور لیاری سے صوبائی کی ایک سیٹ پر ایم ایم اے بھی کامیاب ہوئی، دوسری ایک سیٹ تحریک لبیک پاکستان کے حصے میں آئی۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے انتخابی حلقوں کو اپنی مرضی کا بنایا گیا تھا، مگر اس کا کچھ بھی فائدہ پیپلز پارٹی کے حصے میں نہیں آیا۔ بلاول زرداری لیاری سے جدی پشتی سیٹ گنوا بیٹھے۔
حکومتِ پاکستان کی جانب سے بیالیس ارب روپے عام انتخابات 2018ء پر خرچ ہوئے، جن میں سے الیکشن کمیشن نے 22 ارب کا خرچہ بتایا ہے اور 9 ارب روپے پاک فوج نے سروسز کے نام پر حاصل کیے۔ اب اگر اپوزیشن جماعتیں کسی احتجاج پر جاتی ہیں اور نئے الیکشن کا مطالبہ ہوتا ہے تو کیا ان حالات میں پاکستان اس چیز کا متحمل ہوسکتا ہے؟ ایسا نہ ہوجائے کہ ’’کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے!‘‘