جماعت اسلامی انتخابات میں حصہ کیوں لیتی ہے؟۔

505

رمشا جاوید

میں حق پرستوں کی اک قبیل سے ہوں
جو حق پہ ڈٹ گیا اُسی لشکرِ قلیل سے ہوں
میں یوں ہی دست و گریباں نہیں زمانے سے
میں جس جگہ پہ کھڑا ہوں کسی دلیل سے ہوں

۔25 جولائی فیصلے کا دن، جو زور شور کے ساتھ آیا اور چلا بھی گیا۔ یہ پاکستانی عوام کے لیے وہ دن تھا جب عوام کو اپنے ہاتھوں سے اپنا نصیب لکھنا تھا۔ وہ عوام، وہ پاکستانی قوم جو ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی جیت پر خوشی سے سجدہ ریز ہوئی تھی، جو پاکستان کے لیے بھی ایک ’’اردوان‘‘ چاہتی تھی، اپنے ووٹ کی طاقت سے گھروں سے نکلی تھی اور یہ سبھی جانتے تھے کہ انہیں ’’فاروق اعظمؓ‘‘ جیسا حکمران یا ترکی جیسا ’’اردوان‘‘ کتاب والوں میں ہی ملنا تھا۔ اور شاید مل بھی جاتا۔ جب تاریخ کی سب سے بڑی دھاندلی شروع ہوئی، جس پر ایک جماعت کے سوا تمام جماعتیں شکایت اور احتجاج کرنے لگیں، یہاں تک کہ پی ای پی اور تحریک لبیک بھی۔ پری پول اور پوسٹ پول رگنگ کی اس سے پہلے ایسی مثال نہیں ملتی۔ کراچی جیسے شہر سمیت پورے ملک میں پولنگ اسٹیشنوں سے پولنگ ایجنٹس کو نکالے جانے اور فارم 45، 46 نہ دینے کی شکایات موصول ہونا شروع ہوگئیں۔ کراچی میں کم از کم تین قومی نشستوں پر جماعت کو لیڈ حاصل تھی، باجوڑ اور چترال کی سیٹوں پر بھی برتری حاصل تھی، اسی طرح دیگر کئی سیٹوں پر… مگر پھر پولنگ ایجنٹس کو نکال دینے، نتائج روک دینے اور فارم 45، 46 دینے سے انکار کردینے پر ایک بار معاملہ پھر ویسا ہی ہوگیا جیسا ہر پانچ سال بعد ہوتا رہا ہے۔ نئی نسل پوچھ رہی ہے کہ 1971ء میں ملک کیسے ٹوٹا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ادارے سرکشی پر آمادہ تھے، عدلیہ دباؤ کے تحت یک طرفہ فیصلے کررہی تھی، ایک اکثریتی پارٹی کو ہرانے اور دوسری پارٹی کو جتوانے کے لیے تمام حربے استعمال کیے جارہے تھے… اور آج یہ سب کچھ بالکل اسی طرح دہرایا جارہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، کوئی نہ کوئی جماعت جیتتی رہی ہے، اگر نہیں جیتی تو جماعت اسلامی۔ اور انتخابات میں مسلسل شکست کے بعد بھی آج جماعت اسلامی موجود ہے، آج بھی عوام کے لیے بے لوث خدمت کرنے کو تیار ہے، تو ثابت ہوا کہ:
جس دِیے میں جان ہوگی وہ دِیا رہ جائے گا
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا مقصد صرف الیکشن لڑنا اور جیتنا نہیں ہے، بلکہ منزل کچھ اور ہے۔ شاید اسی لیے یہ مسافر اپنی منزل پر نظریں جمائے، منزل پالینے کی آس لگائے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 1970ء میں شوکتِ اسلام کے عظیم الشان جلوس کو دیکھ کر اندر اور باہر کے لوگوں کو یقین ہوچلا تھا کہ اس بار جماعتِ اسلامی ضرور الیکشن جیتے گی، ٹھیک اسی طرح 2018ء میں جماعت اسلامی کے چاروں صوبوں میں بھرپور انتخابی جلسوں کو دیکھ کر یقین ہوچلا تھا کہ ان کی طرف سے حیران کن نتائج سننے کو میلں گے۔ جماعت اسلامی الیکشن کے لیے بنی ہوتی تو ملنے والے نتائج، پے در پے شکستیں اس کے خاتمے کے لیے کافی تھیں، لیکن جماعت اسلامی ہار جیت کے وقتی اثر کے باوجود بھی اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے اور آئندہ بھی جاری رکھے گی، ان شاء اللہ۔
جماعت اسلامی کے افراد چونکہ عام انسانوں کی طرح گوشت پوست کے بنے ہوئے ہیں تو خوشی، غم، ہار، جیت ان پر بھی اثر کرتی ہے۔ اگر دل ان کا پتھر کا ہوتا تو نہ ٹوٹتا نہ پھوٹتا۔ لہٰذا حالات و واقعات کا ان پر اثر ہونا فطری ہے۔
وہ چہرے میں نے دیکھے ہیں
جو دین کی راہ پہ چل چل کر
اک روز بہت تھک جاتے ہیں
لوگوں کی نگاہوں سے چھپ کر
وہ اپنے زخم چھپاتے ہیں
ان گہری جھیل سی آنکھوں میں
کچھ موتی سے بن جاتے ہیں
ان چہروں سے میں کہتا ہوں
مجھے اپنے پیارے رب کی قسم
تم لوگ بہت
خوش قسمت ہو
اس راہ کے دکھ اس راہ کے غم
قسمت والوں کو ملتے ہیں
یہ چشم نم، یہ آلودہ قدم
دولت والوں کو ملتے ہیں
یہ درد کے ساغر، جام و جم
نسبت والوں کو ملتے ہیں
اس راہ میں رسوائی کے علَم
عزت والوں کو ملتے ہیں
یہ چہرے جب بھی دیکھتا ہوں
میری آنکھوں کے آگے
وہ منظر گھوم سا جاتا ہے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب شاہ گدا بن جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
اس روز تمہارے یہ چہرے
اک چاند کی صورت چمکیں گے
اس روز تمہاری ہی خاطر
رستوں کو سجایا جائے گا
پلکوں کو بچھایا جائے گا
خوشبو کو لٹایا جائے گا
تم لوگ بہت خوش قسمت ہو
مجھے اپنے پیارے رب کی قسم
تم لوگ بہت خوش قسمت ہو
جماعت اسلامی الیکشن میں کیوں حصہ لیتی ہے؟ اور الیکشن کے ذریعے کیا کرنا چاہتی ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ جماعت اسلامی اللہ کے حکم کو زمین پر بالادست کرنا چاہتی ہے۔ جماعت اسلامی کی ساری سرگرمیاں، ساری بھاگ دوڑ اس مختصر جملے کی تفصیل ہیں۔
اللہ کا جو حکم جماعت اسلامی الیکشن کے ذریعے نافذ کرنا چاہتی ہے وہ یہ ہے کہ سارے انسان اللہ کے بندے ہیں، کسی کو رنگ و نسل، خوشحالی و بدحالی، زبان و زمین کی بنا پر ایک دوسرے پر برتری حاصل نہیں ہے۔ اگر کوئی پوش علاقے میں رہتا ہے اور کوئی محروم علاقے میں، تو دونوں ہی اللہ کے بندے ہیں۔ دونوں کو ایک سی عزت، مقام، خوراک، کپڑا اور بہترین تعلیم کے مواقع ملنے چاہئیں، دونوں کو ان کی صلاحیت کے مطابق روزگار ملنے چاہئیں۔ غربت کسی کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ ہو، اور مال و دولت کے زور پر کسی کو بے جا سہولت نہ ملے۔ اگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں جماعت اسلامی مسلسل ہار رہی ہے تو حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان میں اس کے قیام کے پہلے دن سے کمزور پر ظلم ہورہا ہے، اور زورآور ہر اصول، ہر قانون سے بالا ہے۔ اگر انتخابات میں جماعت اسلامی کی مسلسل ہار ہورہی ہے تو اس کے نتیجے میں پاکستان میں ظالم زورآور سے مزید زورآور بھی ہورہا ہے، غریب مسلسل کمزور سے کمزور تر ہورہا ہے۔ جماعت اسلامی کی ہار دراصل کمزور، محروم اور غریب کی ہار ہے۔ اگر جماعت اسلامی نے اپنی حکومت کا ایک بھی عرصہ پورا کیا ہوتا اور پاکستان میں ظلم ختم نہ ہوتا، کمزور کی دادرسی نہ ہوتی تو یہ جماعت اسلامی کی شکست ہوتی… تاریخ گواہ ہے کہ جب جب کراچی نے جماعت اسلامی کا ساتھ دیا… جماعت اسلامی نے کراچی کا ساتھ دیا۔ جماعت اسلامی کے میئر عبدالستار افغانی نے کراچی کو K-1 اور K-2 منصوبے کے ذریعے 165 ملین گین پانی فراہم کیا۔ پھر نعمت اللہ خان نے-3 K منصوبے کے ذریعے 100 ملین گیلن پانی کراچی کو فراہم کیا۔ اس کے بعد کسی بھی حکومت نے ایک قطرہ پانی کا بھی اضافہ نہیں کیا۔ اب عوام کے مسائل، بجلی کے بحران، کے الیکٹرک کے خلاف دھرنے ہوں یا ناموس رسالت کے نام پر کھڑے ہونے والے غیور… سب جماعت اسلامی ہی سے منسلک ہیں۔ چلیں ہم آپ کو کراچی کے ایک متمول جوان کا قصہ سناتے ہیں، اس نے اپنے 6 کاروباری دوستوں کو ساتھ ملاکر 1995ء میں Green Crescent Trustکی بنیاد گڈاپ میں پہلا اسکول قائم کرکے رکھی، جو آج کراچی اور اس کے قرب و جوار کے انتہائی پسماندہ علاقوں میں 145 اسکولوں کا ایک بڑا نیٹ ورک بن کر 36000 سے زائد نادار طلبہ کو علم کی روشنی مہیا کررہا ہے۔ اس شخص نے مستقبل کے ان معماروں کی بہترین تربیت کے لیے CERD جیسا اعلیٰ معیار کا ٹیچرز ٹریننگ ادارہ قائم کیا، جس میں 1200 اساتذہ کو تربیت دی جارہی ہے۔ Green Crescent Trust ہی کے تحت دوسو دیہات میں پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ اور یہ سب کچھ کسی حکومتی مشینری کی مدد کے بغیر تن تنہا کرنے والا شخص کراچی کی آنکھ کا تارا اور کامیاب صنعت کار ’’زاہد سعید‘‘ ہیں جو دو مرتبہ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے جمشید ٹاؤن UC-7 کے ناظم رہے۔ اپنے دورِ نظامت میں پانی اور سیوریج کے کنکشن کئی محروم آبادیوں تک پہنچائے، اپنی UC کی سڑکوں کی مرمت کرائی اور Re- carpetingکروائی۔ 7 نئے پارک بنوائے اور کئی پارکوں میں موجود قبضہ مافیا سے قانونی جنگ جیت کر انہیں آزاد کروایا۔ عوام کے مسائل کے حل کے لیے زاہد سعید اسی ٹیم کا حصہ ہیں جس نے ہردور میں کراچی کی بے لوث خدمت کی اور اس میں بسنے والوں کے لیے ہمیشہ آواز اٹھائی۔ کہتے ہیں کہ
’’کسی بھی قوم کے ایک فرد کی، کی گئی نیکی بلاشبہ ساری قوم کا سر فخر سے بلند کروا دیتی ہے‘‘۔
جماعت اسلامی کا ہر فرد چاہے وہ نعمت اللہ خان ہوں، یا زاہد سعید، جبران بٹ، سراج الحق، حافظ نعیم الرحمن و دیگر… سبھی ہمہ وقت ہنستے مسکراتے اپنے جان و مال سے نیکی کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اسی لیے جماعت اسلامی ہار، جیت کے ہوتے ہوئے بھی ابھی تک اپنے مؤقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔

خوابوں کے لیے ہیں نہ خیالوں کے لیے ہیں
ہم لوگ زمانے میں مثالوں کے لیے ہیں

حصہ