بیٹیوں کے ’’گھریلو معاملات‘‘ والدین کی مداخلت کب ضروری

1766

افروز عنایت
ریحانہ: بیٹا اتنا کچھ ہوگیا اور آپ نے ہمیں نہیں بتایا۔ اُف میری بچی دس سالوں سے یہ سب بھگت رہی تھی۔
نادیہ: امی… میں آپ کو دُکھ دینا نہیں چاہتی تھی اور میرا خیال تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہوتا جائے گا لیکن یہ میری بھول تھی معاملہ مزید بگڑتا گیا اور… اب… ارقم اور اس کے گھر والے کسی سے بھی مجھے بھلائی کی اُمید نہیں، اب مجھے اپنی نہیں بلکہ اپنے بیٹے کی فکر ہے اس کا مستقبل… امی میں اب اس جنونی شخص کے ساتھ مزید نہیں رہ سکتی۔ ارقم اور نادیہ دونوں کا تعلق خوشحال گھرانوں سے تھا، دونوں کی ارینجڈ میرج تھی لیکن دونوں کی رائے کے مطابق ان کی شادی کا فیصلہ کیا گیا تھا کچھ ہی عرصہ کے بعد نادیہ پر ارقم کی اصلیت واضح ہوگئی کہ نہ صرف وہ بے روزگار ہڈحرام بلکہ اعلیٰ تعلیم سے محروم برگر فیملی کا ایک بگڑا بیٹا تھا۔ نادیہ کے لیے یہ سب قابل اذیت تھا لیکن وہ سمجھتی تھی کہ معاملات آہستہ آہستہ صحیح ہوجائیں گے۔ ماں باپ کو بتانے سے مزید حالات بگڑنے کا اندیشہ تھا۔ اس طرح اس نے اپنی زندگی کے دس سال اس شخص اور اس کے گھر والوں کے نازیبا رویوں کا سامنا کرتے گزار دیے، جب پانی سر سے اُونچا ہوگیا اور نبھا کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو اس نے اپنے والدین کو بتایا لیکن اب بتانے کا کوئی فائدہ نہ تھا اس نے زندگی کے قیمتی سال اس شخص کے ساتھ گزار دیے جس کا اسے بے حد رنج تھا۔
رضیہ: اسلم بھائی کی بیوی آئیں تھیں، ہماری ثوبیہ اپنے گھر میں خوش نہیں ہے وہ بتا رہی تھیں کہ بیٹی کی خیر گیری تو رکھا کریں اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔
جاوید: بیگم اِدھر اُدھر سے لوگوں کی نہ سنا کرو، ہر گھر میں تھوڑا بہت تو ہوتا رہتا ہے، ہماری دخل اندازی سے بیٹی کا گھر بننے کے بجائے بگڑ سکتا ہے۔
رضیہ: لیکن… میرا مطلب ہے کہ ہم نے طلعت کی شادی کرنے میں جلدی نہیں کی، نہ معلوم کیا کہ لڑکا کیا کرتا ہے ، لوگ کیسے ہیں۔ نہ جانے میری بچی کے ساتھ… اتنا بڑا کنبہ، اس کی ساس تو شروع سے ہی مجھے بڑی تیز لگتی ہیں۔
جاوید: بیگم اللہ پر بھروسہ رکھو سب ٹھیک ہوجائے گا اب تم طلعت بیٹی سے کچھ نہ پوچھنا اسے گھر میں ایڈجسٹ ہونے کے لیے خود ہی کوشش کرنے دو، سب ٹھیک ہوجائے گا میں اس کا دشمن نہیں ہوں مجھے بھی وہ اتنی ہی پیاری ہے لیکن ہمارے پوچھنے یا ہمدردی کرنے سے وہ پگھل جائے گی اس کے لیے بڑی مشکل پیدا ہوسکتی ہے اور ابھی ہماری تین بیٹیاں اور بھی ہیں ان کے بارے میں سوچو۔
طلعت کی شادی کو ایک سال ہونے کو آیا تھا، ساس اور نندوں کا ناروا رویہ شوہر کی لاپرواہی نے اسے نڈھال کردیا تھا لیکن سب سے بڑی اذیت اس کے لیے یہ تھی کہ اسی حالت میں جب اس کی کوکھ میں بچہ پرورش پارہا تھا اس کے والدین اور بہن بھائی اس کی حالت زار سے بے خبر تھے یا چشم پوشی کررہے تھے اس کے ذہن میں ایک ہی خیال ڈس رہا تھا کہ ضرور وہ ان کی لے پالک اولاد ہے اسی لیے اس کی حالت زار پر سب خاموش تماشائی ہیں۔ کاش وہ اس کا حال پوچھیں اور ہمدردی کے دو بول تسلی کے لیے دیں۔ ایک طرف وہ والدین سے جو اس کے سگے تھے بدظن ہورہی تھی اور منفی خیالات کے تانے بانے بن رہی تھی جو کہ (اس کی اس حالت میں جبکہ وہ بچے کی ماں بننے والی تھی) اس کے لیے خطرناک تھے۔ اور دوسری طرف ماں باپ کو یہ گمان تھا کہ اگر بیٹی کے ساتھ ہمدردی کی اور دخل اندازی کی تو اس کا گھر نہ ٹوٹ جائے۔ اس لیے اس کی حالت پر چھوڑ دیا گیا تھا۔
سہیل اور اس کی والدہ دردانہ (بہو) کی والدہ سے تنگ آگئے تھے ذرا سی بات ہوئی نہیں کہ دردانہ نے فون پر ماں کو روداد سنائی اور اماں بی آپے سے باہر کبھی داماد کی خبر لیتی تو کبھی سہیل کی ماں کی۔ اب تو دونوں ماں بیٹے عاجز آگئے تھے ماں سے زیادہ سہیل کو ساس کی اس قدر دخل اندازی ناگوار گزرتی لیکن وہ صبر و تحمل والا بندہ تھا لیکن کب تک آخر اسی صورتحال کا جو انجام ہوتا ہے وہی ہوا سہیل نے دردانہ کو سمجھانے کی کافی کوشش کی لیکن بے سود… طلاق کا پروانہ لے کر وہ ماں کی دہلیز پر آبیٹھی اور ہاتھ ملتی رہی۔
انجم: بیٹا خوش رہا کرو ماں اگر خوش ہے تو اس کے پیٹ میں پلنے والے بچے پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔
حنا: میں… خوش ہوں بس ذرا زوہیب کی امی کا رویہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے ہر وقت کی روک ٹوک، ان کو میری کوئی بات پسند نہیں آتی، ہر وقت ناراض رہتی ہیں، اکثر بُرا بھلا کہتی رہتی ہیں۔ میں سمجھتی تھی کہ آہستہ آہستہ صحیح ہوجائیں گی لیکن چھ سات مہینے ہوگئے ہیں اور میری ایسی حالت میں بھی مجھے نہیں بخشتی سست کاہل نہ جانے کیا کیا کہتی رہتی ہیں، میں پوری کوشش کرتی ہوں کہ انہیں خوش رکھوں اسی لیے ان کی کسی کڑوی بات کا پلٹ کر جواب نہیں دیتی۔
انجم: (جو اطمینان سے بیٹی کی بات سن رہی تھی) اچھی بات ہے بیٹا کہ آپ ان کو پلٹ کر جواب نہیں دے رہی ہیں وہ آپ کی بڑی ہیں آپ کے شوہر کی ماں ہیں (تھوڑا رُک کر) بیٹا آپ اس گھر میں گئے ہو وہاں کے طور طریقے اپنائیں، اگر انہیں آپ کا طریقہ پسند نہیں آرہا ہے، کیونکہ آپ ان سب کو بدل نہیں سکتے جیسے وہ کہتی ہیں ویسے پکائیں، گھر کو سنواریں۔ میری بات سمجھ رہی ہو نا بیٹا۔ درگزر سے کام لیں ویسے تمہارا شوہر ماشاء اللہ سمجھدار بندہ لگتا ہے۔
حنا: وہ بھی ابھی تک مجھے سمجھ میں نہیں آیا بڑا بے تعلق اور لاپرواہ سا لگتا ہے۔
انجم (ہنستے ہوئے) وہ تمہیں آزما رہا ہے، بڑا اسمارٹ بندہ ہے، تمہاری محبت اور توجہ پرکھنا چاہتا ہے، ویسے بھی بیٹا میاں بیوی کا رشتہ سمجھوتے کا ہوتا ہے، انڈراسٹینڈنگ میں وقت لگ جاتا ہے تھوڑا تم اسے وقت دو اپنی طرف سے کوئی کمی نہ چھوڑنا، کچھ ہی عرصے میں آہستہ آہستہ تمام معاملات درست ہوجائیں گے۔ حنا اپنی والدہ سے اپنی باتیں شیئر کرنے سے نہ صرف ہلکی پھلکی ہوگئی بلکہ والدہ نے اسے جس طرح سمجھایا اسے بُرا بھی نہ لگا، اب جب بھی اسے اپنے شوہر اور گھر والوں کی طرف سے کوئی مسئلہ ہوتا وہ امی سے ضرور شیئر کرتی اور انجم اسے بڑے مثبت طریقے سے سمجھانے کی کوشش کرتی، اس طرح وہ کسی بھی مسئلے کو اپنے اوپر سوار کرنے سے بچ جاتی بلکہ اسے مسئلہ ’’مسئلہ‘‘ ہی نہ لگتا۔
مندرجہ بالا تمام جھلکیاں ہمارے معاشرے کی حقیقی جھلکیاں ہیں جو میری نظروں سے گزریں پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ بیٹیوں کی نجی زندگی میں والدین کی دخل اندازی کس حد تک ضروری ہے یا بیٹیوں کا اپنی نجی زندگی کے بارے میں کسی سے شیئر کرنا کس حد تک ضروری ہے۔ کچھ لوگ بیٹیوں کو بیاہ کر بالکل بری الذمہ ہوجاتے ہیں کہ اب جو کچھ ان کی قسمت و نصیب میں ہیں بھگتیں، ہم فارغ ہوگئے، کچھ لوگوں کا یہ نظریہ ہے کہ اگر بچیوں کو اپنے سسرال یا شوہر کی طرف سے مسئلے ہیں مشکلات کا سامنا ہے تو ہماری دخل اندازی سے معاملات بڑے گھمبیر ہوجائیں گے اور اس قدر اس بات سے خائف ہوتے ہیں کہ بیٹیوں سے محبت و اُلفت ہونے کے باوجود اس سے پوچھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ بیچاری کن حالات سے گزر رہی ہے کہیں ہماری ہمدردی سے مزید نہ پگھل جائے اور میکے میں نہ آکر بیٹھ جائے اور اس کا گھر نہ ٹوٹ جائے۔
جبکہ کچھ بیٹیوں کی محبت میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ بیٹیوں کی ذرا سی شکایت پر کمر کس لیتے ہیں کہ ہماری بیٹی کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے، ان بالا حقیقی واقعات کی روشنی میں ضروری ہے کہ افہام و تفہیم و اعتدال کا راستہ اختیار کیا جائے۔ بیٹی کی تربیت ایسی کی جائے کہ وہ ان معمولی نوعیت کی باتوں کو ترجیح نہ دے اور اپنے اوپر سوار نہ کرے، گھمبیر مسائل ضرور والدین سے شیئر کریں اور والدین کو بھی بیٹیوں کے ساتھ ایسا دوستانہ ماحول رکھنا چاہیے کہ وہ گھمبیر اور ناقابل برداشت مسائل کو والدین سے شیئر کرسکے۔ دوسری طرف والدین کو بھی چھوٹے چھوٹے مسائل کو ’’ہوا‘‘ نہیں دینی چاہیے، بیٹی کی اگر غلطی نظر آرہی ہے تو اسے مثبت طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی جائے اگر مسئلہ بڑا (گھمبیر) ہو تو سوچ سمجھ کر اقدام اٹھانے چاہیے کیونکہ ذرا ذرا سی بات کو لے کر بیٹی کے نجی معاملات میں مداخلت کے نتائج بُرے ہی سامنے آتے ہیں، اس لیے والدین کو سوچ سمجھ کر افہام و تفہیم سے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ نہ بھینس مرے نہ لاٹھی ٹوٹے۔ دین اسلام ضابطہ حیات ہے ہر مسئلے کے لیے اسلامی تعلیمات کی طرف رجوع کریں تو مسئلہ باآسانی حل ہوسکتا ہے، ہر لڑکی کو شادی کے بعد کچھ نہ کچھ مسائل کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ حضرت علیؓ اور لخت جگر رسول اکرمؐ حضرت فاطمہ کے درمیان بھی کبھی ’’ان بن‘‘ ہوجاتی، آپؐ سنجیدگی سے فاطمہ الزہرہ کی بات سنتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت فاطمہؓ آپؐ کے پاس حضرت علیؓ کی کوئی شکایت لے کر آئیں، پیچھے پیچھے حضرت علیؓ بھی تشریف لے کر آئے۔ آپؐ نے بیٹی کی بات سن کر تحمل سے فرمایا کہ ایسا بھی کوئی ہوگا کہ جو آپؓ کے پیچھے اس طرح آجائے (مفہوم واقعہ) یہ بات سن کر یقینا حضرت فاطمہ الزہرہ کا دل خوش ہوگیا ہوگا شکایت ختم ہوگئی یہ طریقہ کار والدین کا ہونا چاہیے۔ حضرت فاطمہؓ آپؐ کی سب سے چہیتی بیٹی تھیں لیکن کبھی آپؐ نے بے جا طرف داری نہ کی، اسی طرح گھریلو ذمہ داریوں کے لیے بھی آپؐ کا رویہ بیٹیوں سے متوازن ہوتا۔ سردارانِ جنت کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہؓ کو ایک مرتبہ معلوم ہوا کہ مالِ غنیمت میں کچھ کنیزیں بھی آئیں ہیں۔ آپؓ تمام دن مشقت میں گزارتی تھیں لہٰذا ایک کنیز کا آپؐ سے سوال کیا آپؐ کو بیٹی کی مشقت و تکلیف کا احساس تھا لیکن آپؐ نہ چاہتے تھے کہ کسی کے ساتھ ناانصافی ہو۔ لہٰذا بیٹی سے معذرت کردی اور ایسے طریقے سے کہ حضرت فاطمہ خوشی خوشی گھر واپس گئیں کیوں کہ آپؐ نے حضرت فاطمہؓ کی تکلیف کو دور کرنے کے لیے تسبیح فاطمہ کا تحفہ عطا فرمایا تھا (سبحان اللہ) جس کی اہمیت سے ہم سب مسلمان واقف ہیں۔ میں نے جب حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کی زندگی کے ان واقعات کا مطالعہ کیا تو کوشش کی کہ اپنی بیٹی کے بھی اسی طرح افہام و تفہیم سے مسئلے حل کرسکوں اور کافی کامیابی حاصل ہوئی۔ لہٰذا تمام والدین شادی شدہ بیٹیوں کے مسئلے مسائل تحمل سے سنیں اور مفید مشوروں سے انہیں نوازیں تا کہ بچیاں اپنے مسائل کا انبار ذہنوں پر سوار نہ کریں اور نہ ہی سلگ سلگ کر اپنی زندگی اجیرن کردیں یا صحت گنوادیں۔ ماں باپ کا ساتھ اور مثبت رویہ خصوصاً نوبیاہتا بچیوں بچیوں کے لیے بہترین سہارا ہے۔ بچیوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہر معمولی اور چھوٹی بات کو گھمبیر بنا کر والدین کے سامنے پیش نہ کریں، چھوٹی چھوٹی معمولی باتوں کو درگزر کریں لیکن کوئی بڑا مسئلہ ہو تو والدین سے ضرور شیئر کریں یا کسی ایسے بندے سے جس سے مفید مشورے کی اُمید ہو۔ مثلاً بڑی بہن، بڑے بھائی، دادی سے دل کا حال بیان کریں تا کہ مسئلے کا کوئی حل نکل سکے۔ مزید اُلجھنیں پیدا ہونے سے پہلے ہی سدباب کی کوئی صورت نکالی جاسکے۔
خدا تعالیٰ ہم سب کو گھریلو مسائل کو سوچ سمجھ کر تحمل سے حل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

حصہ