نعیم الرحمٰن
سجاول خان رانجھا سینئرصحافی اور سفرنامہ نگار ہیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی اور برلن کی فرائی یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹرز کیا۔ سویڈن کی یونیورسٹی، کولمبیا یونیورسٹی نیویارک اور مس سسپی یونیورسٹی سے بھی تعلیم حاصل کی۔ وہ کئی اخبارات و جرائد کے ایڈیٹر رہے، درجن بھر کے قریب کتابیں تصنیف و تالیف کیں، لیکن انہیں اصل شہرت منفرد سفرناموں ’’گہرکی تلاش‘‘، ’’کرب کی راہ گزر‘‘ اور ’’اگر صبح طلوع ہوئی‘‘ سے حاصل ہوئی۔ ان منفرد سفرناموں میں، سجاول خان رانجھا نے جن ممالک کا سفر کیا، وہاں کے عام آدمی کی زندگی کو قریب سے پیش کیا۔ تحریر میں موجود شگفتگی نے بھی قاری کی دل چسپی کو قائم رکھا۔ تین دلچسپ اور منفرد سفرنامے لکھنے کے بعد انہوں نے سفر کرنے ترک کردیے یا سفرنامے لکھنا، یہ علم نہیں ہوسکا… تاہم ذہنی، فکری اور نفسیاتی پیچیدگیوں کے حل کے لیے سجاول خان نے ’’اپنے آپ کی تلاش‘‘ لکھی۔
ایک طویل مدت بعد سجاول خان رانجھا ایک منفرد کتاب ’’دانش سے مکالمہ‘‘ کے ساتھ آئے ہیں جس میں مختلف شعبوں کے ممتاز اہلِ علم وفکر سے گفتگو کی گئی ہے، جس کے بارے میں نجیبہ عارف کا کہنا ہے کہ ’’ان مکالمات میں معاصر عہد کی ایسی شخصیات سے گفتگوکی گئی ہے جن کی دلچسپیاں متنوع اور وابستگی مختلف شعبہ ہائے حیات سے ہے، جو اپنے اپنے شعبے میں اختصاص رکھتے ہیں اور اس بارے میں غور و فکرکے عادی ہیں۔‘‘
کتاب کے ناشر شاہد اعوان کا کہنا ہے کہ ’’دانش سے مکالمہ کرنے کا حوصلہ اور صلاحیت بجائیِ خود دانش مندی کا متقاضی ہے۔ اچھا سوال آدھا جواب تو ہوتا ہی ہے، اچھے جواب کے امکان میں اضافے کا سبب بھی۔ اس کتاب میں پیش کیے جانے والے مصاحبوں میں سوالات کا معیار ہی جواباً آنے والی دانش کا محرک رہا ہے۔ زمین وآسمان سے لے کر سیاسی، ادبی و الٰہیاتی موضوعات تک، اور سائنس و ٹیکنالوجی سے روحانیات و تصوف تک ہر عنوان سے اس کتاب میں موجود اہلِ علم کے افکار قاری کے ذہن کی زرخیزی میں اضافے کا سبب بنتے نظر آتے ہیں۔ سجاول صاحب نے دانش کی ’ہیر‘کی تلاش میں ’رانجھا‘ کی طرح ہی آبلہ پائی کی ہے۔‘‘
336 صفحات پر مبنی کتاب کی قیمت 600 روپے بہت مناسب ہے، جبکہ ایمل پبلشرزکی چھپائی کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔ کتاب کے چار ابواب ہیں۔ پہلے باب میں روحانی شخصیت پروفیسر احمد رفیق اختر، تصوف سے متعلق شمس الدین عظیمی اور انسانیت سے محبت کے علَم بردار عبدالستار ایدھی کے انٹرویوز ہیں۔ باب دوم میں علم، شعور اور دانش سے متعلق ڈاکٹر ممتاز احمد، طارق جان، بیرسٹر ظفراللہ خان، ڈاکٹر اعتزاز احمد، ڈاکٹر انور نسیم اور ڈاکٹر انیلہ کمال سے گفتگو کی گئی ہے۔ باب سوم میں مذہب اور صحافت سے تعلق رکھنے والے سید منور حسن، ڈاکٹر خالد مسعود، ڈاکٹر سہیل حسن، خورشید احمد ندیم اور سلطان بشیر محمود سے مصاحبے کیے گئے ہیں۔ چوتھے اور آخری باب میں معروف شاعر اور دانشور افتخار عارف، علم و ادب سے وابستہ ڈاکٹر انور احمد، ڈاکٹر فرزانہ باری، پروفیسر عبدالجبار شاکر اورعبدالصمد کے ساتھ سجاول خان رانجھا نے مکالمات کیے ہیں۔
دیباچہ میں سجاول خان رانجھا نے لکھا ہے کہ ’’انٹرویوزخالصتاً اسبابِ زوالِ امت سے متعلق نہیں، بلکہ انسانی ذہن کی حرکیات اور جمود سے وابستہ ایشوز ہیں جن میں انٹرویو دینے والے کی ذات اور خیالات دونوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ امید ہے، ان کے مطالعے سے قارئین کو مذہب و سیاست اور سائنس و نفسیات کے جدید پیرا میٹرز میں مغرب کی پیش رفت اور مسلم اذہان بالخصوص اہل ِ پاکستان کے ذہنی و فکری جمود کی وجوہات کو جاننے اورسمجھنے میں مدد ملے گی۔‘‘
پروفیسر رفیق اختر نے سجاول خان رانجھا کے خواتین سے امتیازی سلوک اور مرد کے غلبے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’انسانی زندگی کے آغاز پر پہلا سبق عورت اور مرد کے حقوق و فرائض کے تعین کا طے ہوا۔ چوں کہ انسان کا بچہ جانورکے بچے کی طرح پیدائش کے بعد فوراً چل نہیں سکتا، تو اس بچے کی حفاظت اور نگرانی کے لیے عورت کو گھر، اور مرد کو شکار کی ذمے داری دی گئی۔ جب فیصلہ ہوا کہ مرد کمائے گا تو عورت ایک انڈر ہینڈ پوزیشن میں آگئی اور اس نے اسے قبول بھی کرلیا۔ فیملی لائف میں ہمیشہ یہی چوائس چلے گی۔ اگر ماں باپ ذمے داری نہیں اٹھائیں گے تو مغربی معاشرے کی مانند تیس سے چالیس فیصد بچے بغیر باپ کے نشان کے ہوں گے۔ جب کسی معاشرے کو بقائے نسل، بقائے حیات اور بقائے اصول درکار ہوگی تو مرد اور عورت کی ذمے داریاں ریفائن اور ڈیفائن ہوں گی۔‘‘
بہت عمدگی سے پروفیسر صاحب نے مرد اورعورت کے درمیان کارفرما اصول کی وضاحت کی ہے۔ یہ پروفیسر رفیق اخترکے طویل انٹرویو کا محض ایک مختصر حصہ ہے۔
شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مراقبے کی تحریک کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم، جو غارِ حرا میں عبادت فرماتے تھے، تو اُس وقت تو نماز کی شکل تھی نہیں، جو آج ہے۔ نماز معراج میں فرض ہوئی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم غارِِحرا میں نفل نہیں پڑھتے تھے، تفکر کرتے تھے، غور و فکر کرتے تھے اللہ کی نشانیوں پر۔ مراقبے کا مطلب ہے غور و فکرکرنا، کسی چیزکے لیے یکسوئی حاصل کرنا۔ ہم نے مراقبے کا طریقہ کار دو جگہ سے لیا ہے۔ ایک قرآن پاک سے جس میں جگہ جگہ تفکرکرنے کو کہا گیا ہے۔ دوسرے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا غارِحرا میں تفکرکرنا۔‘‘
شمس الدین عظیمی نے اپنی تحریک کا نقطۂ نظر بیان کردیا ہے۔ پہلے باب کا تیسرا انٹرویو عبدالستار ایدھی کا ہے جس میں ایدھی صاحب کا کہنا ہے کہ ’’اللہ کو مجھ سے کام لینا تھا، اللہ نیت پر نظر رکھتا ہے۔ میری سوچ بچپن سے ہی یہ تھی۔ میں کبھی بھی مذہبی لیڈروں کے ساتھ متفق نہیں ہوا۔ سماجی کام میں، مَیں کسی کے ساتھ نہیں رہا۔ اکیلا ہی سب چلاتا ہوں کیوں کہ مجھے معلوم ہے یہ اندرگھسیں گے توسخت نقصان پہنچائیں گے۔ پاکستان بنا اور قائداعظم نے اعلان کیا کہ اس تاریخ کو پاکستان بن رہا ہے… تو جتنے زمیندار، جاگیردار اور سرمایہ دار تھے، سب اس میں گھس گئے۔ چار صوبے اور بنگلہ دیش کا صوبہ… یہ سردار، زمیندار، مشائخ اور پیروں کے قبضے میں چلے گئے۔ بھارت میں جاگیرداری فوراً ختم کردی گئی۔ یہاں لیاقت علی خان نے آواز اٹھائی تو اُنھیں گولی مار دی گئی۔ اس کے بعد سے انھی کا قبضہ چل رہا ہے۔ یہ اپنے علاقے کا بھی بھلا نہیں کرتے۔ ماما، بیٹا، بیٹی، بھانجا اسمبلی کے اندر نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ سب کو پریشان کرتے ہیں۔ سازشیں کرکے لوگوں کا حق مارنا ان کا کام ہے‘‘۔ کس سادگی اور سچائی سے ایدھی صاحب نے پاکستان کے مسائل اور اس کے ذمے داروں کی نشاندہی کی ہے۔
دانش ور ڈاکٹر ممتازاحمد نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’’آزادیٔ فکر، آزادیٔ رائے اور نئی سوچ کے لیے ایک خاص قسم کے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ماحول جس میں نئی چیزیں سوچنے پر پابندی نہ ہو۔ جس میں آدمی نئے سوالات اٹھا سکے اور جس میں گھڑے گھڑائے سوالات سے آگے کی سوچ سکے۔ علم خواہ مغرب میں پیدا ہورہا ہو، جاپان میں ہو، افریقہ میں یا مسلمان ملکوں میں ہو… وہ عالم انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے۔ علم کسی ایک تہذیب، کسی ایک قوم یا کسی ایک کلچر کی ملکیت نہیں ہے۔ کوئی علم یا کوئی آئیڈیا یا نئی فکر جب سامنے آتی ہے، تو اسے کسی ایک شخص نے دریافت نہیں کیا ہوتا۔ وہ فکر ایک روایت کے اندر سے نکلتی ہے۔ نئی فکر کے لیے کئی لوگوں نے چھوٹی چھوٹی اینٹیں رکھ کر جو بنیاد رکھی تھی، اسی بنیاد پر نئی فکر جنم لیتی ہے۔‘‘ علم کے فروغ اور سب کے لیے اس کی یکساں اہمیت کی کیا خوب وضاحت کی ہے، اور مصاحبہ لینے والے سجاول خان رانجھا نے کس عمدگی سے ان افراد کے جوابات کو مرتب کیا ہے جس کی داد بار بار دینی پڑتی ہے۔
اسلامی اسکالر طارق جان کہتے ہیں کہ ’’انسان ِ کامل کی تلاش بجائیِ خود ایک اچھی فکر ہے۔ انسانِ کامل ہونا چاہیے، لیکن انسانِ کامل کون ہے، کون نہیں، اس کا فیصلہ تاریخ میں جاکر ہوتا ہے۔ اگر معاشرے انسانِ کامل کی تلاش میں لگ جائیں، جو بجائے خود ایک مشکل کام ہے، تو بالآخر وہ انسانی قیادت سے ہی محروم ہوجاتے ہیں۔ جو شخص بھی آگے آئے گا وہ ان مثالی پیمانوں پر پورا نہیں اتر پائے گا، جوانسانِ کامل کے لیے ضروری ہیں۔ پہلے زمانے میں بھی مخالف قوتیں اچھے انسانوں کو متنازع بنادیتی تھیں جیسے کہ پیغمبروں کو بھی متنازع بنایا گیا۔ اُس دور میں منظم ذرائع ابلاغ نہیں تھے جو عوامی رائے عامہ کی تشکیل کرتے ہیں۔ آج کل کے زمانے میں کوئی بڑا انسان آبھی جائے تو میڈیا پر حاوی لوگ اگر اُسے اپنے نظریات کے لیے خطرہ سمجھیں گے تو متنازع بنا کر پیش کردیں گے۔‘‘
معروف قانون دان، اسکالر اور متعدد کتابوں کے مصنف بیرسٹر ظفراللہ سے مسلمانوں کی فکر کے بارے میں جاننے کی کوشش کی گئی کہ وہ دوسری اقوام کی طرح اس شعور میں کیوں نہیں ڈھل رہے جس کا نتیجہ کامیابی، ترقی، تخلیق اور غلبے کی صورت میں برآمد ہوسکے؟ بیرسٹر ظفر اللہ کا کہنا ہے کہ ’’محلے میں یتیم ہیں، کے خاندان میں بیوہ موجود ہے۔ یہ غیر مذہبی شعور ہے کہ اس معاشرے میں جوآدمی زیادہ نیک ہے، وہ حج زیادہ کرتا ہے۔ بار بار عمرے ادا کرتا ہے۔ مذہب آپ کو اللہ کے سامنے سر جھکانے کے ساتھ ساتھ اللہ کی مخلوق سے محبت کرنا بھی سکھاتا ہے۔ آپ کا شعور یہ نہیں بتا رہا کہ وہی لاکھ روپیہ جو آپ ایک حج پر لگا رہے ہیں۔ ایک حج تو آپ پر فرض ہے، وہ آپ نے کرلیا۔ اگلا حج تو فرض نہیںہے ناں، اب وہ آپ کسی یتیم بچے پر لگا دیں، اس کو ڈاکٹر، انجینئر بنا دیں۔ یہ ایک صحیح شعور ہے۔ اگر ہم اپنی وقتی سرگرمیوں سے توجہ ہٹا کر پوری صلاحیتیں نئے اسلامی پیراڈائمز متعارف کرانے میں لگا دیں، تو بطور ریفارمر ملک و قوم کی لازوال خدمت انجام دے سکتے ہیں۔‘‘
جماعت اسلامی کے رہنما اور سابق امیر سید منورحسن نے مطالعہ کی عادت کے بارے میں کہا کہ: ’’بائی روڈ بہت سفرکرتا ہوں اور سفر میں کچھ نہ کچھ پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اپنے ذوق کے مطابق کتابیں پڑھتا ہوں۔ اس سے ہٹ کر چیزیں نہیں پڑھ پاتا۔ معاشروں کی بقا نظامِ تعلیم اورنصابِ تعلیم سے ہے۔ پھر میڈیا ہے… چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک۔ معاشروں کی نمو، ترقی اور بقا ان چیزوں پر ہے۔ جس معاشرے کے اندر نظام تعلیم بھی غلام بنانے والا ہو، نصابِ تعلیم بھی ذہنوں پر پردے ڈالنے والا اور سوچ و فکر کی لہروں کو روکنے والا ہو، اور جس معاشرے کے اندر مادہ پرستی کے طوفان کو کچھ قدرتی اور کچھ مصنوعی طور پر اٹھانے کی کوششیں ہورہی ہوں اور لوگوں کے پیشِ نظر مادی ترقی اور کرپشن ہی نشانِ منزل قرار پائی ہو، اُس معاشرے کو یوں تو دوش نہیں دیا جاسکتا کہ اس کی فکر میں کجی پیدا ہوگئی ہے، کیوں کہ چاروں طرف سے ہماری نسلوں کو غلام رکھنے کا اہتمام ہورہا ہے۔ نوآبادیاتی نظام ختم ہونے کے باوجود نئی صورت میں اپنی جگہ آگیا۔‘‘
اس فکر انگیز انٹرویو میں سجاول خان رانجھا نے سید منورحسن صاحب سے بہت معلومات افزا سوال کیے جن کے بہترین جوابات دیے گئے۔
مشہور شاعر اور دانش ور افتخار عارف نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ ’’ہر انسان کے دل میں لہوکی ایک بوند ہوتی ہے جو اس سے مطالبہ کرتی رہتی ہے کہ بھائی سچ بول دے۔ یہی ہے تعلیم ساری کی ساری۔ نظام ِعدل کا قیام بہت ضروری ہے۔ یہ وہ سب تعلیمات تھیں جو کہیں نہ کہیں اندر سے آتی ہیں۔ بنیادی مسئلہ ہے جبر و اختیار کا، میں ایک مسلمان اور ایک ایسا آدمی ہوں جو گناہ گار ہونے کے باوجود قرآن اور حدیث پر پورا یقین رکھتا ہے اور جن موضوعات پر ان کے فیصلے آچکے ہیں، اُن کے بارے میں اپنے سخن کو بالا نہیں سمجھتا۔‘‘
غرض پوری کتاب شاندار اور فکر انگیز مصاحبوں سے بھری ہوئی ہے اور ہر صاحبِ علم کے لیے اس کا مطالعہ علم میں اضافے کا باعث بنے گا۔ سجاول خان رانجھا کو بے مثال انٹرویوز اور شاہد اعوان کو اس عمدہ کتاب کی اشاعت پرمبارک باد پیش کرتا ہوں۔